35 استعفوں کی منظوری: ’حکومت نے لاہور میں دیے گئے سرپرائز کا بدلہ اسلام آباد میں لے لیا‘
پاکستان کا مالی بحران تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، دوسری جانب سیاسی بحران بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ غیر متوقع طور پر وزیرِاعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے صوبائی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا اور عمران خان کی خواہش کے تحت صوبائی اسمبلی بھی تحلیل کردی۔ اب وہ عمران خان کی دوسری خواہش پر مسلم لیگ (ق) کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں ضم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے لاہور میں دیے گئے سرپرائز کا بدلہ اسلام آباد میں لے لیا ہے۔ پی ٹی آئی کے 34 اور ایک عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا ہے۔ یہ واقعی حیران کن بدلہ تھا، جس کی عمران خان کو امید بھی نہیں تھی۔ لیکن یہ بدلہ صرف پی ٹی آئی سے ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بھی لیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ پنجاب میں جو ہاتھ ہورہا تھا تو وہ اس سے لاتعلق کیوں رہی۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے استعفے منظور کرکے کس طرح باریک کام کیا؟ الیکشن کمیشن سے ڈی نوٹیفائی ہونے والے ارکان کو سپریم کورٹ سے ریلیف ملے گا؟ اگر نہیں ملتا تو ان خالی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں وفاقی حکومت کیا کرے گی؟ نواز شریف کی واپسی پنجاب کے نگران سیٹ اپ سے جڑی بھی ہے یا نہیں؟ ان سوالات پر آگے چل کر بات کرتے ہیں لیکن پہلے حالیہ دنوں پیش آنے والے سیاسی واقعات کا تذکرہ ضروری ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ کو سب سے بڑا چیلنج پنجاب اسمبلی کے خاتمے کا تھا جس میں وہ کامیاب رہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل ایک انگلی کے اشارے کی مار تھی اور وہ ہوگئی۔ الیکشن کمیشن وہاں کب انتخابات کرواتا ہے اس کا اعلان کچھ دنوں میں ہوجائے گا۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے میں ناکامی کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اس وقت صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے لیے وہ فوری طور پر تیار نہیں تھی۔ اس کا واضح اندازہ پرویز الہیٰ کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لیتے وقت اسمبلی کی گیلری میں بیٹھے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر رانا ثنااللہ اور دیگر رہنماؤں کی باڈی لینگویج سے کیا جاسکتا تھا۔
بجا طور پر مسلم لیگ (ن) اپنے مقصد میں ناکام ہوئی اور عمران خان کو تواتر کے ساتھ ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد پہلی بار ایک کامیابی نصیب ہوئی۔ عمران خان پنجاب اسمبلی توڑنا چاہتے تھے اور وہ ٹوٹ گئی، اب نگران سیٹ اپ کا قیام اور اس کے بعد انتخابات اگلے اہداف ہیں۔
لیکن کیا قومی اسمبلی کے ساتھ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل ہوں گی؟ اگر دو صوبائی اور قومی اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوتیں تو کس کو کتنا نقصان اور کیا فائدہ ہوگا؟
ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے سے پہلے یہ امر قابلِ غور ہے کہ عمران مخالف جماعتوں نے پنجاب میں پہلے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف جمع کروائی گئی عدم اعتماد کی تحاریک کیوں واپس لیں، اور جب گورنر پنجاب نے وزیرِاعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تو اپوزیشن جماعتوں نے وزیرِاعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لی۔ یہ سب کچھ کس کے کہنے پر کیا گیا؟
مسلم لیگ (ن) کے ایک سرکردہ رہنما نے مجھے بتایا کہ ’ہمیں اندازہ تھا کہ لاہور ہائی کورٹ اس صورتحال میں جو بھی فیصلہ دے گی، وہ ہمارے حق میں ہوگا، لیکن جس طرح صورتحال تبدیل ہوئی اس کا اندازہ تو تھا ہی نہیں‘۔
لیکن مسلم لیگ (ن) کی سینیئر قیادت کی ناراضی اور عدم مشاورت موجودہ صورتحال کا سبب بنی ہے۔ پارٹی کے اندر چند لوگوں کو غیر معمولی اہمیت دینے کے نتیجے میں بہت سارے سینیئر لوگ شدید ناراض ہیں۔ ان ناراض لوگوں میں خود پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ بھی شامل ہیں۔
بجا طور پر پنجاب میں حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا ہے آنے والے دنوں میں اس کا نزلہ بھی رانا ثنااللہ پر گرسکتا ہے لیکن اس کا حتمی فیصلہ میاں نواز شریف ہی کریں گے۔
پارٹی میں نمایاں حیثیت رکھنے والے ایک رہنما نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گیم ہاتھ سے نکل گئی ہے مگر صوبائی اسمبلی کے انتخاب کا دوسرا مرحلہ ہے جس میں ہم ہونے والے نقصان کا ازالہ کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت پارٹی کے اندر موجود اختلافات کو ختم کروائے اور سب کو آن بورڈ لے کر فیصلے کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو جو کچھ ہمارے ساتھ پہلے مرحلے میں ہوا ہے، اس سے بھی بُرا حشر ہوگا‘۔
عمران خان کی قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ اس بات کی علامت تھا کہ پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ حکومت بھی بار بار عمران خان کو دعوت دیتی رہی کہ وہ قومی اسمبلی میں آکر کردار ادا کریں لیکن جس طرح استعفے منظور کیے گئے ہیں اس سے واضح ہوچکا ہے کہ اب حکومت پی ٹی آئی کو اسمبلی میں دیکھنا نہیں چاہتی۔
پی ٹی آئی کے ایک رکن اسمبلی نے بتایا کہ ’عمران خان نے تو ہمیں کہا تھا جائیں حکومت سے بات چیت کریں، قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی حاصل کرنے کے لیے مشاورت کریں۔ ہم تو ان تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک چُن چُن کر ان تمام ارکان کو نکال باہر کردیا گیا جو حکومت سے بات چیت کرسکتے تھے‘۔
اسپیکر قومی اسمبلی گزشتہ سال دسمبر میں مختلف مواقع پر کہتے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفے اس طرح منظور نہیں کیے جاسکتے جس طرح وہ کہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا وفد بھی شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اسپیکر سے ملا، اسپیکر نے اپنے مؤقف کو وہاں بھی دھرایا اور کہا کہ فرداً فرداً ہر رکن سے استعفے کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اطمینان ہونے کی صورت میں استعفیٰ منظور کرلیا جائے گا۔ لیکن 17 جنوری کو اچانک رات کو الیکشن کمیشن کے ذریعے عوام کو پتا چلا کہ 35 ارکان کو دی نوٹیفائی کیا جاچکا ہے۔
ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ یہ کام قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ میں انتہائی رازداری کے ساتھ کام شروع کیا گیا اور 35 ارکان کا انتخاب کرکے اسپیکر نے اپنے مؤقف کے برعکس استعفے منظور کیے اور مکمل خاموشی کے ساتھ الیکشن کمیشن کو بھیج دیے۔ ماضی قریب میں جب 11 پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کیے گئے تھے تو اس بارے میں میڈیا کو بروقت آگاہ کیا گیا لیکن اس بار تو کسی کو بھنک تک پڑنے نہیں دی گئی۔
اتنی خاموشی سے یہ سب کچھ کیوں کیا گیا؟ میرے اس سوال پر پی ٹی آئی کے ایک رکن نے بتایا کہ ’اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دیا جاسکے کیونکہ عمران خان کے ساتھ پس پردہ بات چیت چل رہی تھی اور وہ اسمبلی میں جانے کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ لیکن پنجاب کا بدلہ ہم سے اسلام آباد میں لیا گیا ہے۔ حکومت کو اس بات کا غصہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں ’وہ‘ لاتعلق کیوں رہے‘۔
اب جب 35 ارکان کے استعفے منظور ہوچکے ہیں تو قومی اسمبلی کی ان 33 جنرل نشستوں پر انتخاب کون لڑے گا؟ اگر مارچ میں دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران ان خالی نشستوں پر بھی انتخاب ہوتا ہے تو 5 ماہ کے لیے کسی بھی امیدوار کا انتخاب لڑنا مشکل ہوگا، جبکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے کون الیکشن لڑے گا کیونکہ لڑنے والے کو بھی معلوم ہے کہ کامیاب ہوکر وہ حلف بھی نہیں اٹھاسکے گا۔
دوسری جانب حکومتی جماعتیں کوشش کرسکتی ہیں کہ اگر ان انتخابات میں ان کے آدھے امیدوار بھی پی ٹی آئی کی خالی نشستوں پر کامیاب ہوجائیں تو یہ ان کی کامیابی ہوگی۔
35 استعفوں کی منظوری سے پہلے پی ٹی آئی دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ قومی اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتی تھی۔ اس بارے میں مجھے تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی نے بتایا تھا کہ ’اگر قومی اسمبلی فوری طور پر تحلیل نہ بھی ہو تو کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ پنجاب اور پختونخوا کے انتخابات میں ہم کامیابی حاصل کرلیں گے۔ ان صوبوں میں حکومت بناکر اس کے بعد قومی اسمبلی اور دو صوبائی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لینا ہمارے لیے زیادہ آسان ہوگا۔ ایسی صورت میں ان حکومتوں کے مالی وسائل میسر ہوں گے اور پارٹی اے ٹی ایمز کی محتاج نہیں ہوگی‘۔ مجھے وہ کچھ زیادہ ہی پُر امید لگے۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کو یقین ہے کہ پنجاب میں عمران خان خوش فہمی کا شکار ہیں۔ یہ ان کی خام خیالی ہے کہ وہ کامیاب ہوکر صوبے میں حکومت بنالیں گے۔ مریم نواز انتخابی مہم خود چلائیں گی اور پی ڈی ایم کی دیگر قیادت بھی اس مہم کا حصہ ہوگی۔
پی ڈی ایم کے ایک رہنما کے مطابق ’ہم اس بات پر غور کررہے ہیں کہ صوبے میں جہاں جس جماعت کی زیادہ حمایت ہے وہاں باقی جماعتیں اس کی حمایت کریں اور مل کر عمران خان کے امیدوار کا مقابلہ کریں۔ اس بار اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی عمران خان کی حمایت کا کوئی امکان نہیں ہے، اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عمران خان کو اس مقصد میں کامیاب ہونے دیا جائے۔ ہم ہی پنجاب میں صوبائی حکومت بنائیں گے اور وقت پر قومی اسمبلی اور باقی دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے‘۔
اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد چوہدری پرویز الہیٰ کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ اقتدار کی سیاست میں ایک طویل تجربہ رکھنے والے اس سیاستدان کو اندازہ تھا کہ اگر اس نے اسمبلی توڑنے میں تھوڑا بھی لیت و لعل سے کام لیا تو پی ٹی آئی کے ارکان مستعفی ہوجائیں گے۔ نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہوجائے گی اور وہ کہیں کے نہیں رہیں گے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ملکر وہ پوزیشن حاصل نہیں کرسکتے جو پی ٹی آئی میں مل سکتی ہے۔ اس لیے پرویز الہیٰ کے پاس اس سے بہتر آپشن نہیں تھا۔
پرویز الہیٰ نے پنجاب کے اقتدار کی ڈرائیونگ سیٹ پر کپڑا رکھ لیا ہے، ان کا خیال ہے کہ شاید ایک بار پھر وہ پنجاب کے اقتدار کی ڈرائیونگ کے لیے تیار ہیں۔ اگر ڈرائیونگ سیٹ نہ بھی ملی تو کم از کم کنڈکٹر (اسپیکر) تو بن ہی جائیں گے۔ اسی لیے وہ اپنی جماعت کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کے لیے سوچ رہے ہیں لیکن وہ پی ٹی آئی سے کچھ زیادہ ہی چیزیں لینا چاہتے ہیں، جو عمران خان دے نہیں سکتے۔
پی ڈی ایم کے ایک رہنما سے جب میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو اندازہ تھا کہ پرویز الہیٰ اعتماد کا ووٹ لے لیں گے تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ ’قطعی نہیں۔ اس رات تو ایک رکن کو لانے کے لیے بند موٹر وے پرویز الہیٰ نے کھلوائی، حالانکہ موٹر وے کا انتظام تو وفاق کے ہاتھ میں تھا۔ ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں چلا تو کیا ہماری تشویش جائز نہیں؟ نیوٹرل کی نیوٹریلٹی عمران خان کے لیے ٹھیک ہے، ہمارے لیے نہیں کیونکہ ان کو اور ملک کو ریسکیو کرنے کے لیے عمران خان کا سارا گند ہم نے اپنے سر لیا اور اس کی ناقابلِ تلافی قیمت بھی ادا کی ہے‘۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) دوبارہ اسی بیانیے پر واپسی کا سوچ رہی ہے جو نواز شریف کی نااہلی کے وقت اختیار کیا گیا تھا۔ نئے بیانیے میں فرق صرف یہ ہوگا کہ اس بار حاضر سروس ججوں اور جرنیلوں کے بجائے ریٹائرڈ ججوں اور جرنیلوں پر توجہ ہوگی کیونکہ پارٹی سمجھتی ہے کہ اب بھی اسٹیبلشمنٹ میں موجود اہم لوگ کہیں نہ کہیں عمران خان کی مدد کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی واپسی پنجاب میں نگران سیٹ اپ اور اسٹیبلشمنٹ کے رویے کے ساتھ جڑی ہے۔ حمزہ شہباز شریف کی جانب سے جو دو نام سامنے آئے ہیں ان پر تو پی ٹی آئی اتفاق نہیں کرے گی۔ پارلیمانی کمیٹی میں بھی کسی پیشرفت کی توقع نہیں، معاملہ آخرکار الیکشن کمیشن جائے گا اور چیف الیکشن کمشنر جس کو بھی نگران وزیرِاعلیٰ نامزد کریں گے پی ٹی آئی اس کو نہیں مانے گی۔ لیکن پی ٹی آئی اس فیصلے پر کوئی زیادہ جھگڑا نہیں کرسکتی کیونکہ نامزدگی کا یہ اختیار آئین الیکشن کمیشن کودیتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نگران وزیرِاعلیٰ کی نامزدگی کے بعد نواز شریف وطن واپسی کا سوچ سکتے ہیں کیونکہ اگر عدالت سے ریلیف نہیں ملتا تو انہیں جیل جانا پڑے گا۔ جیل جانے کا فیصلہ نواز شریف اسی وقت کرسکتے ہیں جب صوبے میں نگران وزیرِاعلیٰ ان کا اپنا ہو۔
مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنما صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد نواز شریف کو واپسی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ لیکن کچھ کا خیال ہے کہ نواز شریف اگر انتخابات سے پہلے نہیں آئے تو پارٹی پنجاب میں حکومت نہیں بناسکے گی۔ یہی سبب ہے کہ نواز شریف فوری وطن واپسی کا فیصلہ نہیں کرپا رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز ان کی کمی پوری کردے گی لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔
پھر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ لندن میں موجود نواز شریف جیل میں موجود نواز شریف سے زیادہ طاقتور ہوں گے۔
عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@
عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔