نقطہ نظر

ہم کب تک دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے ممالک سے مدد مانگتے رہیں گے؟

دوسروں پر انحصار کرنے کی عادت اتنی گہری ہوچکی ہے کہ اقتدار میں رہنے والوں میں یا اسٹیبلشمنٹ میں اس معاملے پر کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔

میں نے کئی برسوں قبل ایک کتاب مرتب کی تھی جس میں پاکستان کے معروف ماہرِ معاشیات میکال احمد نے بھی ایک باب تحریر کیا تھا۔ اس باب کا عنوان ’این اکنامک کرائسس اسٹیٹ‘ (An economic crisis state) تھا۔

اس باب میں میکال احمد کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں معاشی نظم و نسق بتدریج اس حد تک خراب ہوگیا ہے کہ معیشت ایک مالیاتی بحران سے نکلتے ہی دوسرے مالیاتی بحران کی طرف چلی جاتی ہے۔ اس مسئلے کی وجہ عوامی مالیات کا ناقص انتظام اور معیشت میں غیر حل شدہ ساختی مسائل ہیں جنہیں خراب انتظام اور ناقص طرزِ حکمرانی نے اور بڑھا دیا ہے۔ اس کے نتائج بھی واضح ہیں جن میں میکرو اکنامک عدم استحکام، مہنگائی، ناقص عوامی خدمات، سماجی شعبوں میں مجرمانہ غفلت، وسیع پیمانے پر بدعنوانی، بجلی کی بندش، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت اور قرضوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے‘۔

میکال احمد نے یہ بھی لکھا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے طور پر کچھ اصلاحات نافذ ہوجاتی ہیں لیکن جیسے ہی یہ پروگرام مکمل ہوتا ہے یا حکام کی جانب سے ختم کردیا جاتا ہے تو پھر تمام اصلاحات واپس لے لی جاتی ہیں‘۔

ایسا لگتا ہے کہ 23 برس بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ یہ پیراگراف تو آج بھی لکھا جاسکتا تھا۔ ناقص معاشی حکمرانی کے نتائج کا یہ خلاصہ موجودہ معاشی بدحالی کی بھی وضاحت کرتا ہے۔

چند مستثنیات کے علاوہ کئی دہائیوں تک یکے بعد دیگرے آنے والی سول اور فوجی حکومتوں نے ایسی ہی پالیسیوں پر عمل کیا جنہوں نے پاکستان کے ساختی معاشی مسائل میں کردار ادا کیا یا ان کو تقویت دی۔ درحقیقت ان حکومتوں کی خارجہ پالیسی اور معاشی نظم و نسق ایسا تھا جس میں ملک خود انحصاری اختیار کرنے اور اپنی معاشی خودمختاری کے تحفظ کے لیے قابلِ عمل ترقی کی راہ تلاش کرنے کے بجائے بیرونی مالی امداد اور قرض لینے پر انحصار کرتا گیا۔

یہ رجحان ہمیں اس مقام پر لے آیا ہے جہاں دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے فنڈز یا قرضے حاصل کرنے کو اب حکومتی حکام اور یہاں تک کہ میڈیا کے کچھ حصے بھی بڑی پالیسی کامیابی بتاتے ہیں۔ اس طرح کے دعوے ناقابلِ یقین ہوتے ہیں کیونکہ دوسروں کے پیسے پر گزارا کرنا شاید ہی کسی قوم کی کامیابی ہو۔ یہ دعوے حکمران اشرافیہ کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں لیکن ملک کے معاشی مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کرتے۔

ملک میں بار بار آنے والے معاشی بحرانوں کا ماخذ یقیناً اس کا مالیاتی خسارہ ہے۔ ہماری حکومتیں اپنے وسائل سے بڑھ کر خرچ کرتی ہیں اور وسائل کو بڑھانے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں۔ مالیاتی خسارہ مسلسل میکرو اکنامک عدم استحکام، بلند افراطِ زر اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سبب رہا ہے۔ کئی دہائیوں میں بجٹ خسارے اور ادائیگیوں کے توازن کو غیر فعال اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے تقویت دی گئی اور نمایاں طور پر ملک کی بیرونی صف بندیوں نے بھی اس میں کردار ادا کیا۔

سرد جنگ کے دوران پاکستان کے مغربی اتحادیوں نے مالی خسارہ پورا کرنے کے لیے پاکستان کو آسان قرضوں کی پیشکش کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں جن پر شہری یا دیہی اشرافیہ غالب تھی نے اصلاحات لانے، خاطر خواہ ریونیو بڑھانے اور خود پر ٹیکس لگانے یا اپنے حامیوں پر ٹیکس عائد کرنے سے پرہیز کیا۔ ترقی اور طلب پوری کرنے کے لیے بیرونی وسائل پر انحصار کی ایک وجہ بیرونی امداد کی دستیابی بھی رہی۔ سرد جنگ کے دوران ملنے والی امداد کی وجہ سے پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات بنے اور پھر عسکری معاہدوں کے نتیجے میں یہ مزید مضبوط ہوئے۔

اس کے بعد 1980ء کی دہائی میں افغانستان سے سوویت قبضہ ختم کرنے کے صلے میں پاکستان کو مغربی امداد ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد پاکستان ایک بار پھر فرنٹ لائن ملک بنا اور امریکا کی نظروں میں اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ اس کے نتیجے پاکستان کے معاشی مسائل کو کم کرنے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی اور آئی ایم ایف کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ قرضوں کی تنظیمِ نو کے لیے بین الاقوامی کوششیں کی گئیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دور میں بیرونی امداد کے نتیجے میں ترقی ہوئی جس سے معاشی ترقی کا سراب پیدا ہوا۔ قرض سے ہونے والی یہ ترقی شاید اتنی نقصاندہ نہ ہوتی اگر اس دوران ملنے والی مالی معاونت کو ساختی مسائل کے حل کے لیے اصلاحات لانے میں استعمال کیا جاتا۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں ملک کا ٹیکس نیٹ وسیع ہوتا، معیشت کو دستاویزی بنایا جاتا، برآمدات میں تنوع آتا اور بڑھتی آبادی میں بڑھتی شرح نمو کے لیے سرمایہ کاری کو ممکن بنایا جاتا۔

لیکن ایسا نہیں ہوا۔ غیر ملکی مالی وسائل کی دستیابی کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں بھی اضافے ہوا تو ملک کے اقتصادی منتظمین نے اصلاحات کو ملتوی کرنے، معیشت کے ساختی مسائل کو نظر انداز کرنے اور غیر فعال پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ پھر جب اس امداد میں کمی آنے لگی تو اس کی جگہ مہنگے ملکی اور بیرونی قرضوں نے لے لی۔ یعنی یہ ترقی نہ صرف غیر پائیدار تھی بلکہ اس کے نتیجے میں ہمیں بھاری قرضوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑا۔

1980ء کی دہائی کا وسط پاکستان کے بجٹ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس وقت کی آمدنی حکومت کے موجودہ اخراجات سے بھی میل نہیں کھاتی۔ اگلی دہائی اور اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے نہ صرف ترقی بلکہ طلب کو پورا کرنے کے لیے بھی بہت زیادہ قرضے لیے۔ اس عمل کے نتیجے میں ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بوجھ پڑا اور یہ بوجھ آج بھی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں مغرب پر انحصار کی جگہ ہم اپنے قریبی اسٹریٹجک اتحادیوں جیسے چین، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ ان ممالک نے پاکستان کو معاشی اور لیکویڈیٹی کے بحرانوں سے نکالنے کے لیے مالی مدد فراہم کی جس میں ذخائر کو بڑھانے کے لیے مرکزی بینک میں قرضوں اور ڈپازٹس کا رول اوور بھی شامل ہے۔

اس کی ایک مثال گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں ہونے والے اعلانات بھی ہیں۔ یوں ایک بار پھر مالی بحران سے نمٹنے کے لیے دوست ممالک پر انحصار کا رجحان سامنے آتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جب جب حکومتیں دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچتی ہیں تو ملک کی معیشت کو بچانے کے لیے کس طرح دوسرے ممالک کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پاکستان اب اپنے 23ویں آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے۔

دوسروں پر انحصار کرنے کی عادت ملک کے سیاسی کلچر میں اتنی گہری ہوچکی ہے کہ اقتدار میں رہنے والوں یا اسٹیبلشمنٹ میں اس معاملے پر کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔

یہ امر معاشی انتظام کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ ملک ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف جارہا ہے۔ پھر معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے بیرونِ ملک دیکھا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس طرح پاکستان ایک ایسا ملک بن جاتا ہے جس کی معاشی بقا کا انحصار خود پر نہیں بلکہ دوسروں پر ہے۔


یہ مضمون 16 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ملیحہ لودھی

لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔