گوادر: حق دو تحریک کے رہنما کی گرفتاری کے بعد علاقے میں بے چینی
بلوچستان کے ضلع گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن کی گرفتاری کے بعد علاقے میں بے چینی کا ماحول پایا جارہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گوادر کے پدیزار بیچ اور میرین ڈرائیو علاقوں میں سیکشن 144 نافذ ہونے کے بعد زندگی معمول پر آچکی ہے کیونکہ حق دو تحریک کے احتجاج اور مارچ کے لیے ان دونوں علاقوں میں مظاہرین جمع ہوکر احتجاج کا آغاز کرتے تھے۔
ادھر تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن کی گرفتاری کے بعد علاقے میں بے چینی اور غصہ بھی بڑھ رہا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ حق دو تحریک کے مظاہرے کو منتشر کرنے کے دوران ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت کا مقدمہ درج ہونے کے بعد مولانا ہدایت الرحمٰن منظر عام سے غائب تھے۔
ڈان نے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے خواتین، تاجروں اور ماہی گیروں سے بات کی جہاں ہر کوئی مولانا کی گرفتاری پر فکرمند تھا۔
گوادر بازار میں ایک دکان دار جمیل بلوچ نے کہا کہ احتجاج کی رہنمائی کرنے والے کی گرفتاری پر دیگر شہریوں کی طرح ان کو بھی غصہ ہے۔
جمیل بلوچ نے کہا کہ ’مولانا ہمارے بنیادی، قانونی حقوق کے لیے مہم چلا رہے ہیں جو نہ تو آئین کے خلاف ہے اور نہ ہی ریاستِ پاکستان کے خلاف اور مولانا ایک پرامن انسان ہے‘۔
جمیل بلوچ نے کہا کہ ’مظاہروں میں شرکت کے بعد میں مولانا کا فالوور (پیروکار) بن گیا، مولانا کے مطالبات دکان داروں سے جڑے تھے کیونکہ ان مطالبات میں تمام چیزیں وہی تھیں جن پر مجھ سمیت گوادر کے اکثر شہری بات کرنے سے قاصر تھے‘۔
گزشتہ ہفتے جمعے کو مولانا ہدایت الرحمٰن از خود عدالت میں پیش ہوئے، تاہم وکلا کی بڑی تعداد کے باوجود بھی انہیں کمرہ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ضلعی پولیس افسر نجیب اللہ پندرانی نے میڈیا کو بتایا کہ مولانا پولیس اہلکار یاسر سعید آری کے قتل سمیت 19 مقدمات میں مطلوب تھے۔
مگر گرفتاری کے وقت موجود وکلا نے کہا کہ جب مولانا خود کو قانون کے سامنے پیش کرنے کے لیے عدالت میں حاضر ہوئے تو ان کی گرفتاری ’توہین عدالت‘ ہے۔
رپورٹ کے مطابق گرفتاری کے بعد پیش آنے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج پراثر تھا۔
بظاہر مظاہرین کو ٹھنڈا کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے مقامی ماہی گیروں کے لیے مزدور کا درجہ دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے اور انہیں لیبر قوانین اور آئی ایل او کے کنونشنز کے دائرہ کار میں لایا جاسکے۔
علاوہ ازیں صوبائی حکومت نے لسبیلہ اور گوادر کے اضلاع میں مقامی ماہی گیروں کے لیے صحت کارڈز کا بھی اعلان کردیا ہے۔
مقامی انتظامیہ اور گوادر کے محکمہ فشریز کے مطابق وہ 24 گھنٹے سمندر میں پیٹرولنگ کرتے ہیں، محکمہ فشریز کے ڈائریکٹر جنرل سیف اللہ کھیتران نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دو ماہ کے دوران گوادر کے سمندر سے 12 ٹرالرز تحویل میں لیے ہیں۔
تاہم گوادر کے شہریوں سمیت ’حق دو تحریک‘ کے اراکین اب بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں، مگر اس کے برعکس مولانا کی گرفتاری سے ان کا غصہ مزید بڑھ گیا ہے۔
حق دو تحریک کے کاؤنسلر جاوید بلوچ نے بتایا کہ ’ہماری اعلیٰ قیادت جیل میں ہے، گوادر میں سیکشن 144 کے نفاذ کے بعد ہم اپنی اعلیٰ قیادت کے انتظار کر رہے ہیں کہ وہ کب ہمیں دوبارہ احتجاج شروع کرنے کا حکم دیتے ہیں۔‘
جس دن مولانا ہدایت الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا اسی دن بلوچستان کے ٹاپ ملٹری کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور بھی گوادر میں موجود تھے۔ گوادر میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، صحافیوں، تاجروں اور عام شہریوں سے ملاقات کرتے ہوئے آصف غفور نے یقین دلایا تھا کہ وہ انتظامیہ اور عوام کی مشترکہ کوششوں سے مقامی لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
حق دو تحریک کے ایک سینئر رکن سلیمان بلوچ نے کہا کہ ’ہم مولانا کے ساتھ کھڑے ہیں جو بنیادی مسائل اور لوگوں کی مشکلات کے لیے تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔‘
سلیمان بلوچ نے کہا کہ گوادر پورٹ پر احتجاج کرنے کے باوجود ہم نے غیر قانونی ٹرالنگ کے خاتمے اور گوادر کو درپیش دیگر مسائل کے لیے کام کیا ہے اور ہم اپنے حقوق سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے جو کہ آئین میں دیے ہوئے ہیں۔