نقطہ نظر

کھیل پنجاب کی وزارتِ اعلی کا: ماضی میں کیا کچھ ہوتا رہا؟

تاریخ نے خود کو دہرایا ہے اور لگ بھگ 50 برس کے بعد پنجاب میں ایک ہی مدتِ حکومت یعنی 5 برس کے دوران 4 مرتبہ وزیرِاعلیٰ کا انتخاب ہوا ہے۔

پنجاب کے وزیرِاعلیٰ پرویز الہیٰ نے منتخب ہونے کے بعد 6 ماہ کی قلیل مدت میں اعتماد کا ووٹ لے کر ایوان میں اپنی عددی طاقت کا مظاہرہ کردیا اور ایک نئی پارلیمانی تاریخ رقم کردی۔ اعتماد کا یہ ووٹ ایک ایسے وقت میں لیا گیا جب لاہور ہائیکورٹ میں وزیرِاعلیٰ کے اعتماد کا ووٹ لینے کے تنازعے پر کارروائی جاری تھی۔

اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد بظاہر سیاسی اعتبار سے اور قانونی طور پر معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ گورنر پنجاب کے وکیل نے بتایا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے پرویز الہیٰ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے۔ اور عدالت نے گورنر پنجاب کے بیان کی روشنی میں درخواست نمٹا دی۔

اطلاع ہے کہ مسلم لیگ(ن) اسمبلی کی کارروائی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا ادارہ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے عدالت سے رجوع کرنے پر ایک بار پھر سیاسی لڑائی ایک قانونی لڑائی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

پرویز الہیٰ کی درخواست کی سماعت کے وقت آج مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی اور وکلا موجود نہیں تھے جبکہ گزشتہ روز 11 جنوری کو وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کے علاوہ وکلا کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پرویز الہیٰ کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے مطابق گورنر پنجاب کا یہ آئینی حق ہے کہ وہ اعتماد کے ووٹ کا کہیں لیکن اس کے لیے ان کے پاس معقول جواز ہونا چاہیے۔ ان کے بقول اب جو صورتحال ہے اس میں گورنر اسی وقت اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں جب تحریک انصاف یا پھر مسلم لیگ (ق) کے ارکان گورنر سے رجوع کریں۔

سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے واضح کیا کہ عدم اعتماد لانے کی صورت میں اپوزیشن کو مطلوبہ تعداد پوری کرنے ہوگی۔

ادھر گورنر پنجاب کے وکیل منصور عثمان اعوان کی رائے ہے کہ گورنر کسی بھی وقت دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے۔ آئین میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے 6 ماہ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ان کے بقول 6 ماہ کی قدغن عدم اعتماد کے معاملے پر ہے۔

گزشتہ برس اپریل سے اب تک کا عرصہ پنجاب اسمبلی کے لیے غیر معمولی اور ہنگامہ خیز رہا۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس سے پہلے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیرِاعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

ماضی قریب پر نظر ڈالی جائے تو لگ بھگ 10 ماہ میں اسمبلی کی معیاد ختم ہوئے بغیر آئینی عہدوں پر یکے بعد دیگرے تبدیلیاں ہوئیں۔ اپریل 2022ء سے اگست 2022ء تک اوپر تلے وزرائے اعلیٰ اور اسپیکر صوبائی اسمبلی تبدیل ہوئے۔

تاریخ نے خود کو دہرایا ہے اور لگ بھگ 50 برس کے بعد پنجاب میں ایک ہی مدتِ حکومت یعنی 5 برس کے دوران 4 مرتبہ وزیرِاعلیٰ کا انتخاب ہوا ہے۔ اس سے پہلے سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں پنجاب میں اوپر تلے وزیرِاعلیٰ تبدیل ہوئے لیکن 2022ء کی طرح پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی۔

1973ء کے آئین سے پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما ملک معراج خالد کو وزیرِاعلیٰ بنایا گیا اور وہ نومبر 1973ء تک اسے منصب پر فائز رہے۔ پیپلز پارٹی نے ان کی جگہ غلام مصطفیٰ کھر کو وزیرِاعلیٰ بنا دیا۔

غلام مصطفیٰ اس عہدے پر تقریباً 5 ماہ رہے اور پھر انہیں ہٹاکر ان کی جگہ پیپلز پارٹی نے ایک اور رہنما اور دانشور حنیف رامے کو وزیرِاعلیٰ بنایا لیکن انہیں بھی تقریباً ایک سال کے بعد تبدیل کردیا۔ اگلا وزیرِاعلیٰ جنوبی پنجاب سے بنایا گیا۔ اس مرتبہ قرعہ نواب صادق حسین قریشی کے نام نکلا۔

اس طرح ایک آئینی مدت میں 4 وزرائے اعلیٰ کو بدلا گیا اور تبدیل ہونے والے چاروں وزرائے اعلیٰ کا تعلق اس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نواب صادق حسین قریشی 2 مرتبہ وزیراعلیٰ تو بنے لیکن ان کا دوسرا دور صرف 3 ماہ کا رہا۔

قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پنجاب میں خوب ہلچل ہوئی۔ وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار کے مستعفی ہونے کی دیر تھی اور پنجاب اسمبلی کا ایوان ایک سیاسی اکھاڑے میں بدل گیا۔

2 مرتبہ حمزہ شہباز اور پھر چوہدری پرویز الہیٰ وزیرِاعلیٰ بنے۔ ان سے پہلے اسی صوبائی ایوان نے 2018ء میں عثمان بزدار کو وزیرِاعلیٰ چنا تھا۔

پنجاب کی تاریخ کا یہ بھی نیا باب ہے کہ حمزہ شہباز اور پرویز الہیٰ کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے حلف گورنر پنجاب کے بجائے 2 مختلف آئینی عہدیداروں نے لیا۔ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کے انکار کے بعد عدالتی حکم پر اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے حمزہ شہباز سے حلف لیا تو اُدھر گورنر پنجاب بیلغ الرحمٰن کے انکار پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی صدرِ مملکت عارف علوی نے پرویز الہیٰ سے حلف لیا۔

حمزہ شہباز چوتھے وزیرِاعلیٰ پنجاب ہیں جو 2 مرتبہ وزیرِاعلیٰ چنے گئے لیکن ان کے عہدے کی معیاد انتہائی کم تھی۔ پہلی مرتبہ ساڑھے 3 ماہ اور دوسری بار صرف 4 دن۔

پرویز الہیٰ 1997ء میں پہلے اسپیکر پنجاب اسمبلی بنے اور 2002ء میں وزیرِاعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ اسی طرح 2018ء میں بھی وہ پہلے اسپیکر اور اب وزیرِاعلیٰ بن گئے ہیں۔ پرویز الہیٰ 1993ء سے 1996ء تک اسی ایوان میں اپوزیشن لیڈر بھی رہے ہیں۔

ان کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سردار محمد کھوسہ 3 مہینوں تک وزیرِاعلیٰ رہے اور ان کی جگہ حمزہ شہباز کے والد اور موجودہ وزیرِاعظم شہباز شریف وزیرِاعلیٰ چنے گئے۔ ان دونوں سے پہلے کم ترین عرصے تک منظور وٹو بھی وزیرِاعلیٰ رہے اور ان کی وزارتِ اعلیٰ بھی چند مہینوں پر محیط تھی۔

1993ء کے بعد تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعت ہے جس نے اسمبلی میں بڑی جماعت ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ق) کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ 1993ء میں پیپلز پارٹی نے بھی اس طرح مسلم لیگ جونیجو کے ساتھ حکومت بنائی اور اپنی جماعت کا وزیرِاعلیٰ نامزد کرنے کے بجائے مسلم لیگ جونیجو کے میاں منظور احمد وٹو کو نامزد کیا۔

پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں ایک منفرد دن وہ بھی یاد رکھا جائے گا جب ایک اسپیکر صوبائی اسمبلی اور وزیرِاعلیٰ پنجاب کے درمیان مقابلہ ہوا۔ اس سے پہلے بھی حمزہ شہباز اور پرویز الہیٰ کے درمیان مقابلہ ہوا تھا، اس وقت پرویز الہیٰ تو اسپیکر ہی تھے لیکن حمزہ شہباز قائد حزبِ اختلاف تھے۔

16 اپریل کو ہونے والے اجلاس میں ہنگامہ آرائی ہوئی اور پہلی بار پولیس بھی صوبائی اسمبلی کے ایوان میں داخل ہوئی اور پھر پرویز الہیٰ نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا اور حمزہ شہباز بلا مقابلہ وزیرِاعلی منتخب ہوئے۔

ایک ہی مدتِ حکومت میں وزیرِاعلیٰ کی تبدیلی کا سلسلہ 1973ء کے بعد شروع ہوا جب ایک معیاد میں ایک سے زیادہ وزیرِاعلیٰ تبدیل ہوئے۔ تاہم تبدیلی کے بعد کسی دوسری جماعت کا نہیں بلکہ اسی جماعت یعنی پیپلز پارٹی کا وزیرِاعلیٰ چنا گیا۔

1977ء کے انتخابات میں نواب صادق حسین قریشی دوبارہ وزیرِاعلیٰ بنے لیکن ملک میں مارشل لا لگنے سے ان کی حکومت 3 ؟؟؟ بعد ہی 5 جولائی کو ختم ہوگئی۔

پنجاب میں تقریباً 25 برس سے پیپلز پارٹی کا کوئی وزیرِاعلیٰ منتخب نہیں ہوا البتہ پیپلز پارٹی 4 مرتبہ پنجاب کابینہ کا حصہ بنی۔ پہلی بار 1993ء میں اور دوسری مرتبہ 2008ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں صوبائی کابینہ میں شامل ہوئی تاہم مسلم لیگ (ن) سے اختلافات کی وجہ سے کابینہ سے الگ ہوکر اپوزیشن میں چلی گئی۔ پھر حمزہ شہباز کی دونوں صوبائی کابینہ میں پیپلز پارٹی کے ارکان پنجاب اسمبلی وزیر بنے لیکن انہیں کوئی وزارت نہیں ملی۔

1995ء میں پیپلز پارٹی نے اپنا وزیرِاعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ کیا اور مخدوم الطاف کو سامنے لایا گیا لیکن عین موقع پر انہیں تبدیل کرکے ان کی جگہ عارف نکئی کو وزیراعلیٰ پنجاب چن لیا۔

1985ء میں آئین کی بحالی اور انتخابات کے بعد ایک مدت میں وزیرِاعلیٰ تبدیل کرنے کا سلسلہ کچھ وقت کے لیے رک گیا لیکن کوئی بھی وزیرِاعلیٰ اسمبلی تحلیل ہونے کی وجہ سے اپنے عہدے کی معیاد مکمل نہ کرسکا۔

پیپلز پارٹی نے 1977ء کے بعد وفاق کے ساتھ ساتھ 3 صوبوں میں اپنی حکومتیں تو بنائیں لیکن 45 برس میں پیپلز پارٹی کا پنجاب میں کوئی وزیرِاعلیٰ نہیں بنا۔

نواز شریف پہلے 1985ء سے 1988ء اور پھر 1988ء سے 1990ء تک 2 مرتبہ وزیرِاعلیٰ رہے لیکن عہدے کی معیاد مکمل نہ کرسکے۔ 1990ء کے انتخابات میں نواز شریف وزیرِاعظم بنے تو غلام حیدر وائیں کو پنجاب کا وزیرِاعلیٰ بنا دیا لیکن ان کے خلاف عدم اعتماد پیش ہونے پر مسلم لیگ کے باغی میاں منظور وٹو وزیرِاعلیٰ بن گئے۔ تاہم اسمبلی تحلیل ہونے کی وجہ سے ان کی وزارتِ اعلیٰ کا دور بھی چند ماہ میں ہی ختم ہوگیا۔

منظور وٹو بھی شہباز شریف کی طرح 3 مرتبہ وزیرِاعلیٰ کے عہدے پر رہے لیکن وہ کبھی اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کرسکے۔ منظور وٹو نے دوبارہ 1993ء میں پیپلز پارٹی کی مدد سے وزارتِ اعلیٰ حاصل کی لیکن پھر پیپلز پارٹی نے ہی منظور وٹو کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا۔ اس پر منظور وٹو منظر سے غائب ہوگئے اور ان کی جگہ سردار عارف نکئی کو وازتِ اعلیٰ مل گئی۔

وزیرِاعلیٰ کے منصب سے سبکدوشی کے بعد منظور وٹو نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور لاہور ہائیکورٹ کے فل بینج نے انہیں عہدے پر بحال کردیا اور ہدایت کی کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ اس سے پہلے منظور وٹو اعتماد کا ووٹ لیتے، قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیا۔

1997ء کے عام انتجابات میں ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی۔ نواز شریف دوسری مرتبہ وزیرِاعظم بنے تو ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مل گئی۔

پھر جب 2002ء میں آئین بحال ہوا تو پرویز الہیٰ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بنے۔ ان کے اقتدار کے دوران ان کے کزن چوہدری شجاعت حسین 3 ماہ کے لیے وزیرِاعظم بھی رہے۔

2008ء میں شریف برادران کی جلاوطنی ختم ہوئی تو شہباز شریف نے اپنے خلاف مقدمات سے نمٹنے کے بعد پنجاب اسمبلی کا انتخاب لڑا اور پھر وزیرِاعلیٰ پنجاب کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ شہباز شریف کے وزیرِاعلیٰ بننے تک سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار علی کھوسہ کے بیٹے دوست محمد کھوسہ کو عارضی بنیادوں پر 3 ماہ کے لیے وزیرِاعلیٰ بنایا گیا اور شہباز شریف کے اسمبلی کی رُکنیت کا حلف اٹھانے پر دوست محمد کھوسہ مستعفی ہوگئے۔

تیسری مرتبہ شہباز شریف 2013ء میں وزیراعلیٰ منتخب ہوئے جب ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ جب گزشتہ سال شہباز شریف وزیرِاعظم بنے تو اس کے ساتھ ہی ان کے بیٹے حمزہ شہباز کو وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے منتخب کرلیا گیا لیکن وہ وزیرِاعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں پرویز الہیٰ سے مات کھاگئے۔

1973ء کے بعد پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر سب سے زیادہ عرصہ شریف خاندان رہا۔ نواز شریف 2 مرتبہ، ان کے بھائی شہباز شریف 3 مرتبہ اور بھتیجے حمزہ شہباز لگ بھگ 4 ماہ کے لیے 2 مرتبہ وزارتِ اعلیٰ پر فائز رہے۔

پنجاب کی وزارتِ اعلی پر فائر رہنے والوں میں نواز شریف اور شہباز شریف وزیرِ اعظم بنے جبکہ معراج خالد اسپیکر قومی اسمبلی بنے اور انہیں نگراں وزیرِاعظم مقرر کیا گیا۔

حنیف رامے اور منظور وٹو وزیراعلیٰ کے علاوہ اسپیکر پنجاب اسمبلی رہے جبکہ غلام مصطفیٰ کھر نے گورنر پنجاب کے عہدے کی بھی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔


عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

عباد الحق

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔