جنیوا کانفرنس: اربوں ڈالر کے وعدوں سے کیا مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی ہوگی؟
خبرنامے کے لیے ہیڈ لائنز کا وقت ہورہا تھا کہ اسائنمنٹ ڈیسک سے آواز آئی ’راجہ صاحب ڈالر دے دیں‘ (یعنی ڈالر کی انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں قیمت کے ٹکرز فائل کردیں) مگر کاپی ایڈیٹر صاحبہ کیسے خاموش رہ سکتی تھیں کیونکہ ان کا تو فارمولا تھا کہ بندہ ضائع ہوجائے جملہ ضائع نہ ہو تو بس وہ بھی گویاں ہوئیں کہ ’آج ڈالر راجہ صاحب سے نہیں ملیں گے، آج تو ڈالر جنیوا سے برسیں گے‘۔
ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ جنیوا کانفرنس سے خبریں ملنا شروع ہوگئیں اور مختلف ممالک اور اداروں کی جانب سے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے مالی معاونت کا اعلان کیا جانے لگا۔ نیوز چینلز کی اسکرین پر ’سرخ ڈبوں‘ میں ہر ادارے اور ملک کی جانب سے وعدہ کردہ رقم کا حساب پیش ہونے لگا۔
ان اعلانات کا اثر مجھے نیوز روم پر پڑتا ہوا بھی محسوس ہوا۔ اس خبر نے چہروں اور آنکھوں کی چمک بڑھا دی تھی مگر میں بدستور اس پورے عمل سے کوئی خاص متاثر نہیں تھا۔ اسائنمنٹ ایڈیٹر صاحب نے خبرنامے سے فارغ ہوکر پھر میری جانب رخ کیا اور فرمانے لگے کہ راجہ صاحب کمال ہوگیا۔ میں نے اپنے صحافتی سفر میں ایسی کانفرنس نہیں دیکھی۔
یہ بات میرے لیے کسی حد تک حیران کردینے والی تھی کیونکہ پاکستان نے گزشتہ طویل عرصے میں متعدد مرتبہ عالمی برادری سے امداد طلب کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں اس کانفرنس کو ماضی کی دیگر کانفرنس سے الگ نہیں کرسکا تھا۔ بلاشبہ ماحولیاتی تبدیلی اور اس سے متاثرہ ملکوں کے ساتھ ماحولیاتی انصاف کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس نے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی مالی معاونت اور بحالی کے لیے ایک طریقہ کار کو وضع کردیا ہے۔
اس پر سیاسی رپورٹر صاحب بھی کود پڑے کہ بھائی وہ کیا ہوا جو پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے نام سے ایک فورم تشکیل دیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ دنیا پاکستان کی معاشی بحالی میں مدد کرے گی۔ ہم اس کے اجلاس کی کارروائیوں کو پاکستان سے بیٹھ کر فالو کرتے رہے۔ دنیا کی سیاسی قیادت نے اس وقت کی پاکستانی قیادت کو 2 سال (2008ء اور 2009ء) تک ملکوں ملکوں گھمایا۔ امریکی صدر بارک اوباما ہوں یا برطانیہ، جاپان اور ترکی کے وزرائے اعظم اور صدر یا پھر ابوظہبی جیسی بادشاہتیں، سب نے پاکستان کا ساتھ دینے کی بس باتیں ہی کیں۔
مہنگائی اور روپے کی گرتی قدر سے متاثرہ نیوز روم میں موجود ہر فرد یہ سوچ رہا تھا کہ وعدہ کردہ 10 ارب ڈالر ان کی زندگیوں کو تبدیل نہیں کرسکے تو کم از کم ان کو درپیش مشکلات میں کسی قدر کمی تو آئے گی ہی مگر میرا خیال ان سے مختلف تھا۔
اسی دوران اسائنمنٹ ڈیسک سے ایک جونیئر کی آواز اٹھی کہ بھائی نقصان کتنا ہوا ہے اور کتنا سرمایہ جمع ہورہا ہے۔ اس سوال کا جواب دینا میری ذمہ داری ٹھہری کیونکہ میں ہی اقتصادی رپورٹر تھا۔ اس لیے انہیں عالمی بینک کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ بارشوں سے 1700 سے زائد انسانی زندگیاں ضائع ہوئی ہیں جس کا تخمینہ ڈالروں یا روپے میں لگانا مشکل ہے۔ مگر 350 ارب ڈالر کی پاکستانی معیشت کو جو نقصان ہوا وہ 16 ارب ڈالر سے زائد تھا، یعنی یہ نقصان ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 4 فیصد کے قریب رہا ہے۔
پاکستان نے اس عطیہ کانفرنس میں بحالی کے لیے تمام رقم عالمی برادری سے طلب نہیں کی بلکہ 16 ارب ڈالر کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے عالمی برادری سے 8 ارب ڈالر معاونت کی درخواست کی تھی جبکہ باقی نقصان پاکستان اپنے وسائل سے پورا کرے گا۔ اس کانفرنس میں پاکستان نے 40 ملکوں سمیت عالمی مالیاتی اداروں اور نجی عطیہ دہندگان کو مدعو کیا تھا۔
اب باری ہمارے کیمرہ مین کی تھی۔ وہ گویا ہوئے کہ بھائی یہ 10 ارب ڈالر پاکستان کو ملیں گے کب تک؟ اور یہ سب رقم تو حکومت کھا جائے گی۔ اس سوال کو سنتے ہی میری نظر اسائنمنٹ ایڈیٹر سے ملی تو لگا کہ وہ بھی اس سوال کا جواب چاہ رہے ہیں۔
یہ سوال سن کر میری یادداشت پر آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفر آباد چھا گیا۔ سال 2005ء کے زلزلے کے بعد وہاں اب تک تعمیرِ نو کا کام جاری ہے۔ وہاں کی جانے والی تعمیرات میں مختلف ملکوں کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ کہیں کوئی میڈیکل کالج سعودی عرب کا تعمیر کیا ہوا ہے تو کہیں کسی اسکول یا کالج پر ترکی کی کاوش نظر آتی ہے۔ جا بجا تختیاں آویزاں ہیں کہ کون سی عمارت کس ملک کے تعاون سے تعمیر ہوئی ہے۔
میرا جواب یہی تھا کہ بھائی پاکستان کی آزادی سے اب تک ہمارے دوست ملکوں نے ہمارے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ مہاجرین کی آبادکاری کے لیے سعودی عرب کے تعاون سے شاہ فیصل کالونی اور سعود آباد کی تعمیر ہو، قطر اور متحدہ عرب امارات کے تعمیر کردہ اسپتال ہوں، امریکی امداد سے بننے والے بجلی کے یونٹس ہوں یا پھر کوئی اور تعمیرات، پاکستان کی معیشت میں دوست ملکوں کی امداد کا براہِ راست عمل دخل ہمیشہ سے رہا ہے۔ ہم اپنی معیشت کو اس قابل بنا ہی نہیں پائے کہ وہ دنیا کی 5ویں بڑی آبادی ہونے کے باوجود دنیا کی 5ویں بڑی معیشت بن سکے۔ ہم کل بھی امداد پر زندہ تھے اور آج بھی امداد ہی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
چین، بھارت، امریکا اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان آبادی کے لحاظ سے 5واں بڑا ملک ہے۔ مجموعی طور پر یہ تمام ملک مل کر دنیا کے جی ڈی پی میں 45 فیصد کے شراکت دار ہیں۔ مگر اس میں پاکستان کا حصہ صرف اعشاریہ 4 (0.4) فیصد ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے اور اپنے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔
بات امداد سے معیشت کی طرف گھوم گئی اور پھر وہی سوال سامنے کھڑا تھا کہ آیا جو رقم آرہی ہے کیا وہ پاکستان کی معیشت کے مسائل کو حل کرسکے گی؟ کیا مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی ہوگی؟ اب یہ سوال نیوز روم میں ہر طرف سے سنائی دے رہا تھا اور کچھ ساتھیوں کی آنکھوں میں امید کی چمک بھی تھی۔
اس سوال کا جواب دینا میرے لیے مشکل ہورہا تھا۔ اس لیے کچھ توقف کے بعد گویا ہوا کہ بھائی یہ رقم کس لیے دی گئی ہے؟ کیا یہ رقم اس لیے دی جارہی ہے کہ پاکستانی اپنی لگژری گاڑیوں کی خریداری کے لیے ایل سی کھول سکیں، پیٹرول درآمد کرسکیں یا پھر روپے کی قدر کو بہتر بنانے کے لیے مارکیٹ میں ڈالر داخل کرسکیں؟ اس مقصد کے لیے تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا۔ اس سے طے کردہ شرائط کے مطابق اپنے اخراجات میں کٹوتی، ٹیکس وصولی میں اضافہ، بجلی اور دیگر شعبہ جات میں سبسڈی کا خاتمہ، بنیادی شرح سود میں اضافہ اور شرح مبادلہ کو مارکیٹ کی بنیاد پر کرنا ہوگا۔
یہ جو رقم کے وعدے ہورہے ہیں، یہ آپ کے اور ہمارے لیے نہیں بلکہ سیلاب کے متاثرین کے لیے ہیں تاکہ اس رقم سے ان کی بحالی ہوسکے۔ سیلاب سے بچاؤ اور نکاسی آب کا نظام بن سکے۔ ابھی تو یہ صرف وعدے ہوئے ہیں اور اس رقم کے ملنے میں کم از کم 3 سال کا عرصہ درکار ہے اور پھر ہر آنے والے ڈالر کے ساتھ ایک طویل شرائط نامہ بھی ہوگا کیونکہ دنیا میں کوئی آپ کو مفت میں ایک نوالہ بھی نہیں دیتا ہے۔
اس کے بعد نیوز روم میں خاموشی چھا گئی اور اسائنمنٹ ڈیسک نے ہیڈ لائنز کے لیے آواز بڑھا دی، اینکر کہہ رہی تھیں کہ ’پاکستانی سیلاب متاثرین کے لیے جنیوا کانفرنس میں بڑے اعلانات سامنے آئے‘۔
انہی الفاظ کے ساتھ میری ہمت جواب دے گئی اور میں مزید کچھ کہے بغیر نیوز روم سے نکل کر عازم پریس کلب ہوا۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔