قہقہوں سے کرب تک: ماجد جہانگیر کی موت، جو کئی سوالات چھوڑ گئی!
پی ٹی وی سے کتنی ہی سنہری یادیں جڑی ہیں۔ وہ صبح کی نشریات، وہ خبرنامہ، ڈرامے، وہ پروگرام۔ ’خدا کی بستی‘ جیسے شاہکار ڈراموں سے ’کسوٹی‘ جیسے یادگار معلوماتی شوز تک، پی ٹی وی نے ناظرین کو عشروں تک گرویدہ بنائے رکھا۔ جو بھی اس جادوئی اسکرین پر آگیا، وہ دیکھنے والوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔
اسی کے وسیلے ہمیں اشفاق احمد جیسے ڈراما نگار اور طارق عزیز جیسے میزبان ملے اور اسی نے ہمیں ’ففٹی ففٹی‘ جیسا شو دیا، جسے پاکستانی تاریخ کا کامیاب ترین کامیڈی شو کہا جاسکتا ہے۔ لیکن کیا اس سے جڑے فنکار بھی اتنے ہی کامیاب ٹھہرے؟ کیا ان کے نصیب میں بھی دائمی شہرت آئی؟
اگر ’فٹی ففٹی‘ کے ساتھ آپ کے ذہن میں جاوید شیخ اور بشری انصاری کا نام آتا ہے، اس کے مصنف انور مقصود اور ڈائریکٹر شعیب منصور کی سمت دھیان جاتا ہے، تو مبارک ہو، آپ کے لیے اس کا جواب ہاں میں ہے۔ بے شک ان فنکاروں کے حصے میں شہرت اور عزت دونوں ہی آئے، مگر ہر کوئی اتنا خوش نصیب ثابت نہیں ہوا۔ اور اس کی ایک تلخ مثال ماجد جہانگیر تھے، جن کی قہقہوں سے شروع ہونے والی کہانی کا انجام المناک ہوا۔
11 جنوری 2023ء کی صبح، جب ملک کے بیشتر علاقے سخت سردی کی لپیٹ میں تھے، نیوز ویب سائٹس اور ٹی وی اسکرینز نے یہ خبر نشر کی کہ معروف اداکار ماجد جہانگیر طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئے۔
مگر کیا ماجد جہانگیر واقعی معروف تھے؟ کیا آج کی نسل انہیں جانتی تھی؟ سچ تو یہ ہے کہ جس نسل نے ’ففٹی ففٹی‘ دیکھا تھا، اس کی اکثریت یا تو بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے یا پھر دنیا سے رخصت ہوئی۔
پی ٹی وی جس نسل کی سنہری یادوں کا حصہ تھا، وہ غیر متعلقہ ہوچکی ہے۔ اب ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام کا زمانہ ہے۔ ’لہور دا پاوا‘ اور ’میرا دل یہ پکارا آجا‘ کا دور۔ اب یہاں ماجد جہانگیر کسے یاد ہوگا۔ ایک ایسا فنکار، جو جاوید شیخ اور بشریٰ انصاری کی طرح مستقل ٹی وی اسکرین پر نہیں رہا، بیرون ملک چلا گیا اور جب لوٹا تو دنیا بدل چکی تھی۔ اب اس کے پاس صرف بیماری، شکایات اور امداد کی اپیلوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ تلخ اور شاکی تھا اور اسی تلخی کے ساتھ رخصت ہوا۔
یوں تو انور مقصود کے قلم سے نکلے مزاحیہ خاکوں پر مشتمل ’ففٹی ففٹی‘کا ہر فنکار لاجواب تھا، مگر جب جب اسمٰعیل تارا اور ماجد جہانگیر کی جوڑی اسکرین پر آتی، یہ طے ہوتا کہ ناظرین کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھرنے والی ہیں۔
اسے محض بدبختی ہی کہا جاسکتا ہے کہ 2022ء میں اسمٰعیل تارا دنیا سے رخصت ہوئے اور 2023ء کے آغاز میں ماجد جہانگیر نے رختِ سفر باندھ لیا۔ البتہ ماجد جہانگیر کی موت کا دکھ یوں زیادہ ہے کہ یہ فنکار آخر کے دنوں میں امراض اور مالی مسائل کا شکار نظر آیا۔
انتقال سے چند ہی روز قبل ان کا ایک بیان سوشل میڈیا کی زینت بنا، جس میں انہوں نے 2 معروف ٹی وی اینکرز پر الزام عائد کیا تھا کہ ان دونوں نے ماجد جہانگیر کے نام پر جو امدادی رقم اکٹھی کی تھی، وہ کبھی ان تک پہنچ ہی نہیں سکی۔ اس الزام میں کتنی حقیقت ہے، اس سے قطع نظر کیا یہ ایک المیہ نہیں کہ ایک ایسا آرٹسٹ جو پورے پاکستان میں پہچانا جاتا تھا، اس نہج پرپہنچ گیا کہ اس کی مالی معاونت کے لیے ٹی وی پر فنڈز اکٹھے کرنے کی نوبت آگئی۔
البتہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ ایک طویل فہرست ہے۔ چند برس قبل معروف کامیڈین فرید خان کا کینسر سے لڑتے ہوئے انتقال ہوا۔ انہیں بھی حکومت اور فروغ فن کے لیے کام کرنے والے اداروں سے شدید شکایات تھیں۔ اپنے ایک اخباری انٹرویو میں انہوں نے ماجد جہانگیر کو درپیش مالی مسائل کی بھی نشاندہی کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ اس فنکار کی داد رسی کی جائے۔ فرید خان تو چلے گئے مگر ماجد جہانگیر کے حصے میں ابھی کچھ زندگی باقی تھی۔ البتہ اب اس میں قہقہے نہیں رہے تھے۔
چند برس قبل ان پر فالج کا حملہ ہوا، جس نے انہیں گھر تک محدود کردیا۔ زبان میں بھی لکنت آگئی تھی، جس کی وجہ سے جو تھوڑا بہت کام وہ کر رہے تھے، وہ جاتا رہا۔ مالی مسائل اور مہنگے علاج نے انہیں تلخ بنا دیا۔ ان کی امداد کی اپیلوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ زوجہ کا انتقال بھی ان کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا، جس کی وجہ سے وہ مکمل تنہائی کا شکار ہوگئے۔ کچھ روز قبل وہ گھر میں بستر سے گرگئے تھے، جس سے ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی۔ لاہور کے ایک نجی اسپتال میں زیرِ علاج تھے، مگر جانبر نہ ہوسکے۔
انہیں پی ٹی آئی دورِ حکومت میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔ گزشتہ برس جب وہ شدید علیل تھے تب یہ خبر گردش کرنے لگی کہ انہوں نے احتجاجاً اپنا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ البتہ انہوں نے ایک انٹرویو میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوارڈ ان کی 50 سالہ محنت کا نتیجہ ہے، وہ اسے واپس کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ البتہ وہ اپنے دگرگوں حالات کی وجہ سے حکومتی مدد کے منتظر ہیں۔
ان کا پورا نام عبدالماجد جہانگیر تھا۔ انہوں نے شہرِ کراچی میں آنکھ کھولی۔ بچپن میں وہ گانے کی شوقین تھے۔ نور جہاں اور شمشاد بیگم کا انداز کاپی کیا کرتے۔ یہیں سے ایکٹنگ کا شوق پروان چڑھا۔ زندگی نے موقع دیا تو پی ٹی وی جا پہنچے، جہاں معین اختر کے شو میں پہلے پہل پرفارم کیا۔ ’ففٹی ففٹی‘ کا حصہ بننے کے بعد شہرت کو پَر لگے گئے۔ یہ شو 6 برس تک چلا۔
ان کے کریڈٹ پر فقط ’ففٹی ففٹی‘ نہیں بلکہ پی ٹی وی کے دیگر ڈراموں میں بھی انہوں نے کام کیا۔ 4 فلموں میں بھی نظر آئے، مگر ان پر کامیڈی کی چھاپ لگ چکی تھی، اس لیے محدود کردار ہی ملے۔
پھر وہ امریکا چلے گئے اور اگلے 23 برس وہاں رہے۔ لوٹے تو دنیا بدل چکی تھی۔ واپسی کے بعد کچھ کام کیا مگر وہ نئے، بدلے ہوئے اور تیز رفتار سسٹم سے ہم آہنگ نہیں ہوسکے۔ 2016ء سے مالی مسائل نے پریشان کر رکھا تھا۔ پھر بیماری نے آن لیا۔ مسکراہٹیں بکھیرنے والا مایوس ہوگیا۔ آخر 10 اور 11 جنوری کی شب یہ فنکار جہان فانی سے کوچ کرگیا۔
ماجد جہانگیر کے قہقہے اب ایک کربناک سوال میں ڈھل چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عشروں تک سب کی آنکھ کا تارا بنے رہنے والے فنکار آخری برسوں میں ہماری آنکھوں سے اوجھل کیوں ہوجاتے ہیں؟
کیا یہ معاشرہ اپنی بینائی کھو چکا ہے؟
لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔