وزیراعلیٰ کو 24 گھنٹے ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو 24گھنٹے اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے، درخواست گزار کے وکیل بتائیں اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کتنے دن کا وقت مناسب ہوگا، ہم وہ وقت مقرر کردیتے ہیں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
لاہور ہائی کورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے گورنر بلیغ الرحمٰن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
کیس کی سماعت ایسے وقت میں ہو ئی جب پنجاب اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس جاری ہے جہاں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین مسلسل 2 روز سے جاری احتجاج کے دوران پرویز الہٰی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ گورنر پنجاب نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے منصوبے کو روکنے کے لیے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کردیا تھا۔
22 دسمبر کے اپنے حکم نامے میں گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے مقررہ دن اور وقت پر اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، اس لیے وہ عہدے پر برقرار نہیں رہے، تاہم بلیغ الرحمٰن نے انہیں بطور وزیر اعلیٰ کام جاری رکھنے کا کہا تھا جب تک کہ کوئی ان کا جانشین منتخب نہیں کیا جاتا۔
گورنر کے اقدام کو غیر آئینی، غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف پرویز الہٰی نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
گزشتہ سماعت پر لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الہٰی کو اگلی سماعت تک صوبائی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے منصب پر بحال کردیا تھا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے، دیگر ججز میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس عاصم حفیظ اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ معاملہ حل نہیں ہوا، گورنر کے وکیل نے کہا کہ یہ اعتماد کا ووٹ لیں گے تو معاملہ حل ہوگا، عدالت نے گورنر کے وکیل سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا آفر ہے آپ کے پاس، جس پر گورنر کے وکیل نے جواب دیا کہ گزشتہ سماعت سے آج تک کافی وقت گزر گیا ہے لیکن اعتماد کا ووٹ نہیں لیا گیا، یہ ان کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے، عدالت اعتماد کا ووٹ لینے کا وقت مقرر فرما دے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ درخواست گزار کو یہ لائن کراس کرنا پڑے گی، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے وکیل نے آفر دی ہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں، عدالت نے پرویز الہٰی کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں اعتماد کا ووٹ لینے کےلیے کتنے دن کا وقت آپ کے لیے مناسب ہوگا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم وہ وقت مقرر کردیتے ہیں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا، جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ 11 جنوری کا تو بہت وقت ہے، ابھی تک آپ کے لوگ آگئے ہوں گے، انہوں نے کہا کہ اگر آپ اگر قبول نہیں کرتے تو کل کو گورنر ایک اور نوٹی فکیشن جاری کردیں گے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم اس درخواست پر میرٹ کے مطابق فیصلہ کر دیتے ہیں، ہم نے تو مناسب وقت دیا ہے۔
اس دوران وزیر اعلیٰ پنجاب کے وکیل نے مشاورت کے لیے 30 منٹ کی مہلت کی استدعا کی۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ معاملے پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو رہا ہے، ہم اس درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کر دیں گے۔
اس موقع پر پرویز الہٰی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے میرٹ پر دلائل کا آغاز کردیا، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میں اس حوالے سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں،گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کےلیے کہا اور اسپیکر کو خط لکھا، گورنر نے اپنے خط میں لکھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اعتماد کھو چکے ہیں، گورنر کے حکم کے جواب میں اسپیکر نے رولنگ دی اسپیکر کی رولنگ کو تاحال چیلنج نہیں کیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا، کیا وہ اس عہدے پر قائم رہنے کے لیے اسمبلی کا اعتماد رکھتے ہیں، کیا ابھی تک اتنی بھی تسلی قائم نہیں ہوئی کہ اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے کہ نہیں۔
عدالت نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ ابھی تک وہ مرحلہ بھی آیا ہے کہ نہیں، ہم پھر اس کیس کو میرٹ پر سنتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر گورنر دوبارہ کہہ دے کہ انہوں نے اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی ووٹ نہیں لیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جو بھی آپ کی گزارشات ہیں، ہم انہیں آج ہی سنیں گے، اگر آپ مناسب وقت کا تعین نہیں کرتے تو پھر ہم کیس کو میرٹ پر سنیں گے، گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے 20 کے قریب دن مل چکے لیکن انہوں نے ووٹ نہیں لیا، ہم چاہتے ہیں کہ عدالت گورنر کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کی درخواست پر میرٹ پر فیصلہ کرے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ تو کیا آپ اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر قبول نہیں کر رہے، آپ کا اعتراض تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت نہیں دیا۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وزیر اعلی کو 24گھنٹے اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے ، ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر گورنر کے حکم پر عمل نہیں ہوتا تو پھر اسمبلی کی تحلیل کا معاملہ کیا ہو گا اور رستہ کیسے رکے گا، معاملہ اب ایک مناسب وقت سے زیادہ آگے چلا گیا، آئین میں جو وقت کے بارے میں بتایا گیا ہے، اگر معاملے پر کوئی اتفاق نہیں ہو رہا تو ہم کیس کو میرٹ پر سنیں گے۔
اس دوران عدالت کی جانب سے کیس کے میرٹ کی بنیاد پر سماعت شروع کر دی گئی، چوہدری پرویز الہیٰ کے وکیل نے گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر مسترد کر دی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر گورنر کے پاس پی ٹی آئی کے اکثر ارکان آکر کہتے ہیں کہ انہیں وزیراعلیٰ پر اعتماد نہیں رہا تو پھر گورنر کو حق ہے کہ اعتماد کے ووٹ کا کہے، گورنر نے اعتماد کے ووٹ کےلیے مناسب وجوہات نہیں دیں، اگر اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے آئینی اور قانونی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے تو ہمیں اعتماد ک ووٹ لینے میں کوئی عار نہیں تھی، اگر چھانگا مانگا کی صورتحال بنانی ہے تو پھر اس پر ہمیں اعتراض ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کےلیے پورا طریقہ کار موجود ہے، یہ ممکن نہیں ہے گورنر اچانک صبح اٹھ کر کہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں، 5 ماہ قبل وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھائی تھی، آئین میں اسمبلی توڑنے کا اختیار منتخب نمائندے یعنی وزیر اعلی کو دیا گیا ہے، وزیر اعلیٰ، گورنر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائز جاری کرے گا اور 48 گھنٹے میں اسمبلی تحلیل ہوجائے گی۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ موجودہ کیس میں گورنر نے 19دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر گورنر کہتے کہ اعتماد کا ووٹ 10 دن میں لیں تو پھر کیا ہوتا ،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 19دسمبر کو پہلے تحریک عدم اعتماد آئی، اس کے 20 منٹ بعد گورنر نے بھی اپنا حکم جاری کردیا، اس ساری کہانی کا مقصد اسمبلی کی تحلیل روکنا تھا ،23 دسمبر کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی گئی۔
عدالت نے کہاکہ عدالت میں ایک اور درخواست آئی ہے کہ چیف منسٹر کو کہا جائے کہ اسمبلی تحلیل نہ کریں، ہم اس درخواست کو موجودہ معاملے کے بعد سنیں گے، اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا حکم اگلی سماعت تک قائم رہے گا۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عبوری ریلیف میں کل تک توسیع کرتے ہوئے مزید سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کر دی۔
ناکامی پرویز الہیٰ کا مقدر ہے، ان کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی تجویز زیر غور ہے، عطا تارڑ
سماعت میں وقتے کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطااللہ تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے اس طرح کی خبریں ہیں کہ پرویز الہیٰ اپنے بیٹے مونس الہیٰ کے پاس بیرون ملک جانا چاہتے ہیں، ان کے باقی خاندان کا نام نو فلائی لسٹ میں ہے، میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ یہ اچھا نہیں لگتا کہ وزیر اعلیٰ کا نام نو فلائی لسٹ میں ڈالا جائے، اس لیے باہر جانے سے گریز کریں، مت باہر بھاگیں۔
انہوں نے کہا کہ مت باہر بھاگیں، کیونکہ عمران خان نے جو کرپشن کے الزام لگائے ہیں اور کہا ہے کہ پرویز الہیٰ اور ان کے صاحبزادے کی کرپشن کے باعث پی ٹی آئی کی ساکھ خراب ہوئی، کیونکہ اربوں روپے کی کرپشن پرویز الہیٰ اور ان کے صاحبزادے نے کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے حکمران اتحاد کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، صوبے میں آٹے کا بحران ہے انہیں کوئی پروا نہیں ہے، دن میں اس کیس کے حوالے سے 25 میٹنگز کرتے ہیں، عدالت نے کیس کو روزانہ کی بنیاد پر چلانے کا فیصلہ کیاہے اور لگتا ہے کہ کیس کا فیصلہ اسی ہفتے میں ہوجائے گا۔
عطا تارڑ نے کہا کہ آج پرویز الہٰی کے وکیل نے تاریخ لینے کی کوشش کی لیکن ان کی استدعا منظور نہیں کی گئی، اعتماد کا ووٹ لینا یہ اب لازم و ملزوم ہے، اس سے بھاگا نہیں جاسکتا، جتنی جلدی لیں گے اتنا سبکی سے بچیں گے، جتنا تاخیر کا شکار کریں گے، ان کے ممبر مزید کم ہوتے جائیں گے، ابہام بڑھتا جائےگا، آئینی بحران میں اضافہ ہوگا، اس لیے پرویز الہیٰ ووٹ لیں یا گھر جائیں، تیسرا کوئی راستہ اور آپشن نہیں ہے، مونس الہیٰ کی طرح انہیں بیرون ملک بھاگنے نہیں دیں گے۔
’پرویز الہیٰ الٹا بھی لٹک جائیں تو 186 ووٹ پورے نہیں کرسکتے‘
وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ پرویز الہیٰ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی تجویز زیر غور ہے ، ان کے صاحبزادے لاہور ماسٹر پلان کے پیسے لے کر ملک سے فرار ہوچکے ہیں، اس پر عمل درآمد بھی روک دیا گیا ہے، وہ کیس بھی لڑیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے صاحبزادے کے پاس بیرون ملک فرار ہوسکتے ہیں، اس لیے ان کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی تجویز زیر غور ہے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ نہ لینے کی صورت میں رن آف الیکشن ہوگا، ایوان کی سادہ اکثریت لینے والا منتخب ہوجائے گا، مخالفین کے اراکین میں بہت تذبذب ہے، وہ انتشار کا شکار ہیں، انہیں پنجاب اسمبلی میں کوئی قیادت دستیاب نہیں ہے، اس لیے حیلوں بہانوں سے اس کو تاخیر کا شکار کیا جارہا ہے، تاخیر ہوسکتی ہے لیکن ناکامی پرویز الہیٰ کا مقدر ہے، 186 ووٹ وہ الٹا ہو کر بھی پورے نہیں کرسکتے۔