مستحق طلبہ کیلئے مختص فنڈز غیر قانونی طریقے سے اسلام آباد ایلیٹ کلب کو منتقل
اسلام آباد کلب کی ممبرشپ کے حصول کے لیے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے منتقل کرنے پر نیشنل انڈومنٹ اسکالرشپ فار ٹیلنٹ (نیسٹ) کے 4 سینئر اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا جبکہ 2 سینیئر بیوروکریٹس کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق نیشنل انڈومنٹ اسکالرشپ فار ٹیلنٹ (نیسٹ) اہل اور مستحق طالبعلموں کے لیے پروگرام ہے، یہ ایک خود مختار ادارہ ہے اور وزارت تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ کے ایڈیشنل سیکریٹری اس ادارے کے سربراہ ہیں۔
ڈان کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق 3 نومبر 2021 کو ہونے والے اجلاس میں بورڈ آف ڈائریکٹرز نے نیسٹ کے کارپوریٹ ممبرشپ کی منظوری دی تھی اور ابتدائی طور پر 4 ایگزیکٹو افسران کو کلب کی ممبرشپ کے لیے اعزازی کارڈ جاری کرنے کے لیےنامزد کیا گیا تھا جن میں اطہر حسین زیدی، فیصل قاسم، قمر صفدر اور قرۃ العین طلحہٰ شامل ہیں۔
اجلاس میں بورڈ آف ڈائریکٹر نے ماہانہ سبسکرپشن چارجز نیسٹ کمپنی کے ذریعے ادا کرنے کی بھی منطوری دی تھی۔
8 مارچ 2022 کو ایڈمنسٹریشن اور ہیومن رسورس مینجر نے چیف فنانشنل افسر کو خط لکھا جس میں بورڈ آف ڈائریکٹر کی ہدایات پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی گئی۔
چیف فنانشل افسر نے یہ درخواست اُس وقت کے سی ای او معیدالدین وانی کو بھیج دی اور بعد ازاں اس درخواست پر عمل درآمد کرنے کی منطوری دے دی گئی بعدازاں معیدالدین وانی کو گلگت بلتستان میں چیف سیکریٹری تعینات کیا گیا۔
ان کے جانشیں عاصم اقبال نے اسلام آباد کلب کی انتظامیہ کو ممبرشپ کے لیے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے جاری کرنے کی منظوری دی تھی بعدازاں ان کا تبادلہ کابینہ ڈویژن میں ایڈیشنل سیکریٹری کے طور پر کر دیا گیا۔
عاصم اقبال کی جانب سے اسلام آباد کلب کو رقم جاری کرنے کے بعد وزارت تعلیم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژین کو عاصم اقبال کی برطرفی کا خط لکھا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژین کے سینئر افسر نے خط موصول ہونے کی تصدیق کی، جب ڈان نے عاصم اقبال سے اس معاملے پر بات کرنے پر سوال کیا تو ان کے اسسٹنٹ نے بتایا کہ وہ اجلاس میں مصروف ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژین کے ذرائع نے بتایا کہ وزارت تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ نے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے ) کو دستاویزات شئیر کی ہیں تاکہ فارنزک تجزیے سے معلوم ہوسکے کہ دستاویزات میں موجود دستخط معیدالدین وانی کے ہیں یا نہیں۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے معیدالدین وانی نے بتایا کہ جس بورڈ نے مبینہ طور پر ممبرشپ کی منظوری دی تھی وہ اس بورڈ کے چیئرمین نہیں تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے اسلام آباد کلب کی کارپوریٹ ممبرشپ کے لیے ایک پیسہ بھی جاری نہیں کیا، ’نیسٹ حکام نے درخواست میں اعزازی کارڈز مانگے جو میں نے منظور دیے تھے۔‘
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 3 نومبر 2021 کو بورڈ آف ڈائریکٹر نے نیسٹ حکام کے لیے کارپوریٹ ممبرشپ کی منظوری دی تھی، مارچ 2022 کے دوران انہوں نے 4 سینئر اہلکار کے لیے اعزازی کارڈ مانگے، جون میں فنڈز مقرر کیے اور ستمبر میں نیسٹ نے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے اسلام آباد کلب کی مینجنمنٹ کو منتقل کردیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس
نیسٹ کے 4 ملازمین نے اپنی برطرفی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردی ، ان کے وکیل شعیب شاہین نے ڈان کو بتایا کہ ان 4 اہلکاروں کا کلب ممبرشپ حاصل کرنے کے حوالے سے کوئی کردار نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گُل حسن اورنگزیب نے وزارت تعلیم اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی ۔
عدالت نے وزارت کو مذکورہ ملازمین کی خالی کردہ آسامیوں پر نئی تقرریوں سے بھی روک دیا۔
نیسٹ کے سی ای او اور وزارت تعلیم کے ایڈیشنل سیکریٹری وسیم اجمل چوہدری سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان پیش رفت کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا کہ وزارت نے 4 ملازمین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے بھاری جرمانے عائد کیے گئے، بااختیار اتھارٹی نے بھی سینئر بیوروکریٹ کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے جو جلد از جلد تکمیل کو پہنچ جائے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وزارت نے اسلام آباد کلب کی انتظامیہ سے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے واپس کرنے کا کہا کیونکہ یہ رقم شفاف طریقے سے منتقل نہیں ہوئی ہے۔