مظاہرین کو پھانسی دینے کا ایرانی اقدام ریاستی قتل قرار
مظاہرین کو پھانسی دینے کے باعث عالمی سطح پر شدید تنقید اور سخت مذمت کا نشانہ بننے کے باوجود ایران نے حجاب قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سخت سزا کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ایران میں پھانسیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سزائیں ریاست کی جانب سے منظور شدہ قتل کے مترادف ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تہران نے ملک میں تقریباً چار ماہ سے جاری مظاہروں کے سلسلے میں چار افراد کو پھانسی دی، 2 مزید شہریوں کی پھانسی جلد ہی طے ہے جب کہ کم از کم 17 دیگر افراد کو مبینہ طور پر موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے سزائے موت کو بطور ”ہتھیار“ استعمال کر رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو ان کے احتجاج میں شرکت یا اس کو منظم کرنے کے بنیادی حقوق کے استعمال پر سزا دینے کے لیے مجرمانہ طریقہ کار کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ریاست کی جانب سے منظور شدہ قتل کے مترادف ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کو ان اصلاحات کو شروع کرنے کے لیے مخلصانہ اقدامات کرنے چاہییں جو اس اپنے عوام کے انسانی حقوق کے احترام اور تحفظ کے لیے درکار ہیں۔
’سخت سزا‘
دوسری جانب ایران کی عدلیہ نے پولیس کو حکم دیا کہ ملک کے حجاب سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ”سخت سزا“ دی جائے۔
خبررساں ایجنسی مہر نے رپورٹ کیا کہ پروسیکیوٹر جنرل نے ہدایت جاری کی ہے جس میں پولیس کو حکم دیا گیا ہے کہ حجاب قوانین کی خلاف ورزی پر سخت سزا دی جائے“۔
رپورٹ میں عدلیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ “عدالتوں کو خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ اضافی سزائیں جیسا کہ جلاوطنی، بعض پیشوں میں کام کرنے پر پابندی عائد کرنے اور کام کے مقامات کو بند کرنے جیسے اقدامات کرنے کا کہا گیا ہے۔
ایران نے مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں پر 4 افراد کو پھانسی دی، مزید 13 کو موت کی سزا سنائی گئی اور 6 شہریوں کا دوبارہ ٹرائل کرنے کا حکم دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ مظاہروں (جسے عام طور پر وہ ”فسادات“ قرار دیتے ہیں) کے سلسلے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے جن میں سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں جب کہ اس دوران ہزاروں افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران عدلیہ نے سر ننگا رکھنے والی خواتین کو اپنی سروسز فراہم کرنے والے کئی کیفے اور ریسٹورانٹس بند کر دیے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں 22 سالہ مہسا امینی اخلاقی پولیس کی حراست میں دم توڑ گئی تھی، اخلاقی پولیس نے ’غیر موزوں لباس‘ کے باعث اسے گرفتار کیا تھا، یہ پولیس ایران میں سخت قوانین نافذ کرتی ہے جن کے تحت خواتین کو اپنے بال ڈھانپنے اور عوامی مقامات پر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننا لازم ہوتا ہے، پولیس حراست میں خاتون کی موت کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو تاحال جاری ہے جب کہ ایران نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔