’کورٹ مارشل کیے گئے‘ ریٹائرڈ جنرل کا اپنا نام کلیئر کرانے کیلئے قانونی جنگ جاری رکھنے کا عزم
نئی فوجی قیادت نے غیر ملکی جاسوسوں کے ساتھ خفیہ معلومات شیئر کرنے کے جرم میں سزا یافتہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کی سزا معاف کرتے ہوئے اسے جیل سے رہا کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم ریٹائرڈ فوجی افسر کے وکیل نے ہفتے کے روز ڈان کو بتایا کہ وہ اب بھی خود کو مجرم قرار دینے والے فیصلے کو اس وقت تک چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب تک کہ وہ ان تمام الزامات سے جن کے تحت آرمی ٹریبونل نے انہیں مجرم قرار دیا، باعزت بری نہیں ہوجاتے۔
وکیل عمر فاروق آدم کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کو 29 دسمبر کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا جب کہ نئی عسکری قیادت نے چارج سنبھالنے کے فوری بعد ان کے کیس کا جائزہ لیا اور سابق قیادت کی جانب سے ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو محسوس کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کو قومی سلامتی سے متعلق حساس معلومات غیر ملکی ایجنسیوں کو فراہم کرنے کا جرم ثابت ہونے پر 3 مئی 2019 کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل (ایف جی سی ایم) کی جانب سے 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی جو کہ پاکستان میں عمر قید ہے لیکن 4 سال بعد انہیں جیل سے رہا کردیا گیا۔
مئی 2021 میں اپیلٹ اتھارٹی نے 14 سال کی سزا میں 7 سال کی کمی کردی تھی، بعد ازاں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو سے روانگی سے قبل سزا میں مزید ڈھائی سال کی کمی کردی۔
اس حساب سے جیل میں بند لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کو رواں سال 29 مئی کو رہا کیا جانا تھا لیکن نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سزا مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے ان کی جلد رہائی کی راہ ہموار کردی۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال 2021 سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک متفرق درخواست کی پیروی کر رہے ہیں، ان کی عدالت میں زیر سماعت اپیل کے مطابق انہوں نے ایف جی سی ایم کی جانب سے کورم نان جوڈیس، دائرہ اختیار کے بغیر، قانون اور حقائق میں بدنیتی کا شکار قرار دیتے ہوئے اپنی سزا کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
ان کے وکیل عمر فاروق آدم کا کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے تقریباً ایک درجن سماعتیں کی گئی ہیں جن میں کوئی فیصلہ یا حکم سامنے نہیں آیا، انہوں نے اپیل کی پیروی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا اور پرامید ہیں کہ ان کے مؤکل کو آخر کار انصاف ملے گا۔
وہ شخص جو امریکی مشیر قومی سلامتی کے آفس میں کام کرتا تھا اس نے 2018 میں ان سے رابطہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ ریٹائرڈ جنرل جاوید اقبال نے ان مصروفیات سے متعلق جنرل باجوہ کو آگاہ کیا، بعد میں انہیں کبھی آرمی چیف تک اپنی بات پہنچانے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا اور 5 دسمبر 2018 کو انہیں حراست میں لے لیا گیا۔
تحقیقات کے بعد جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 3 اور آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی۔
ان کے خلاف عائد کیے گئے الزامات میں اپنا کیرئیر پروفائل شیئر کرنا، فیسائل مواد سے متعلق ایس پی ڈی معاہدوں کا انکشاف، آرمی چیف کے تقرر کے انتخابی عمل کی وضاحت، فوج کی جانب سے حکومت کو مشورے دینے سے متعلق طریقہ کار، قومی سلامتی کمیٹی کی تشکیل، افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں پاکستانی کردار، افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کے منصوبے، روس کے ساتھ مشترکہ تربیتی مشق، روس کے ساتھ فوجی سازوسامان، خاص طور پر گن شپ ہیلی کاپٹروں کے حصول کے لیے مذاکرات، چینی شہریوں، منصوبوں اور سی پیک سیکیورٹی کے لیے گوادر میں انفنٹری بریگیڈ کی تعیناتی، سی پیک میں فوج کی شمولیت کی تفصیلات سمیت دیگر حساس معلومات فراہم کرنے اور ان کی وضاحت کرنے کے الزامات شامل تھے۔
ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنی بات چیت میں انہوں نے امریکیوں کو یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب اور یو اے ای نے خیبر پختونخوا کے عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے فنڈز فراہم کیے اور بتایا کہ امریکی امداد براہ راست مسلح افواج تک پہنچنے کے بجائے حکومت کو جارہی تھی۔
اس کے علاوہ انہوں نے مبینہ طور پر انہیں بتایا کہ فوج نے کس طرح سے فوجی فاؤنڈیشن/آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے ذریعے سابق فوجیوں کے لیے اپنے فلاحی پروگراموں کی فنڈنگ کی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس معاملے پر کوئی بیان یا ردعمل نہیں دیا۔