جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز کا درست سیاسی قدم اٹھانے کیلئے مختلف آپشنز پر غور
ملک بھر میں سیاسی لابنگ کا مرکزیت اختیار کر چکی ہے اور ایسے میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے الیکٹیبلز بھی طاقتور حلقوں کی جانب سے اشارے ملنے کے بعد ’درست سیاسی قدم‘ اٹھانے کے لیے اپنے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ الیکٹیبلز جنوبی پنجاب کی انتخابی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ صوبے کے دیگر حصوں کے برعکس جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں ان آزاد سیاستدانوں کے مقابلے میں زیادہ غالب نہیں ہیں۔
اس سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ یہ سیاست دان آئندہ عام انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے نئی سیاسی جماعت بنانے کے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
تاہم ان کے اہم سرکردہ رہنما علیم خان نے مبینہ طور پر خود کو ان افواہوں سے تاحال دوری اختیار کی ہوئی ہے اور کہا ہے کہ فی الحال وہ صرف ’فلاحی کاموں‘ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
علیم خان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ریئل اسٹیٹ ٹائیکون کرداروں کی تبدیلی میں دلچسپی رکھتے تھے اور ایک فعال سیاسی کیریئر کے بجائے وہ ’سیاسی جوڑ توڑ کرنے والے‘ کا کردار ادا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اس سے وہ زیادہ اثرورسوخ حاصل کر سکیں گے۔
جنوبی پنجاب گروپ کے مرکزی رہنما جہانگیر خان ترین نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل منظرعام پر آنے والے جنوبی پنجاب سبا محاذ(جے پی ایس ایم) جیسا گروپ بنانے کے مجوزہ منصوبے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
خسرو بختیار کی قیادت میں جنوبی پنجاب سبا محاذ انتخابات کے بعد پی ٹی آئی میں ضم ہوگیا تھا۔
تاہم ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما اور وزیر اعظم کے مشیر عون چوہدری نے کہا کہ کوئی نیا گروپ یا پارٹی شروع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور وہ مسلم لیگ(ن) کے اتحادی رہیں گے۔
دوسری جانب پنجاب کے سابق گورنر چوہدری سرور نے ڈان سے گفتگو کے دوران جلد نیا سیاسی قدم اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور آنے والے دنوں میں حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے مزید سیاسی لوگوں سے ملنے جا رہا ہوں۔
چوہدری سرور کے پاس مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کی جانب سے گورنر مقرر کیے جا چکے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے ان دونوں سے الگ ہو گئے، کہا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کے مشورے پر اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کر سکتے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) ٹکٹ نہ دینے کا اعلان
جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے الیکٹ ایبلز نے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے واضح پیغام کے بعد خود کو پارلیمانی اور علاقائی سیاست سے جوڑے رکھنے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں جہاں مسلم لیگ(ن) واضح کہہ چکی ہے کہ جولائی میں ضمنی انتخابات میں ان کی ذلت آمیز شکست کی وجہ سے پارٹی انہیں ٹکٹ نہیں دے سکتی۔
مسلم لیگ (ن) نے جولائی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں رہنماؤں کی جانب سے وفاداریاں تبدیل کیے جانے کو اپنی شکست کا ذمے دار ٹھہرایا اور اعلان کیا کہ اگلے عام انتخابات میں ٹکٹ کے لیے ان افراد کے ناموں پر غور نہیں کیا جائے گا۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ(ن) کے ایک سینئر قانون ساز نے اتوار کو ڈان کو بتایا کہ ان کی پارٹی کی مجبوری تھی کہ وہ گزشتہ سال کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کو ٹکٹ دے کیونکہ انہوں نے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کی حمایت کے لیے اپنی نشستیں قربان کر دی تھیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سال ہونے والے عام انتخابات میں ہم اپنے کارکنوں کے زمینی حقائق اور جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان حلقوں میں ٹکٹوں کا فیصلہ کریں گے اور مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ان منحرف اراکین کو ٹکٹ دیے جانے کا بہت کم امکان ہے لہذا وہ جنوبی پنجاب سبا محاذ جیسا گروپ بنانے یا پی پی پی میں شامل ہونے کے لیے اپنے آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔