حکومت کا ای بائیکس خریدنے کیلئے 17 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دینے کا منصوبہ
وزارت صنعت و پیداوار نے پیٹرول کی کھپت کم کرنے اور کاربن کے اخراج پر قابو پانے میں مدد کے لیے ابتدائی طور پر 18 ماہ میں ایک لاکھ ای بائیکس تیار کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ای بائیکس کی خریداری سے متعلق اسکیم کو کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید غور و خوض اور مالیاتی ماڈل پر کام کرنے کے لیے اسے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو بھیج دیا تھا۔
وزارت صنعت و پیداوار نے نسبتاً مہنگی بائیک کی خریداری کی حوصلہ افزائی کے لیے 3 برسوں کے دوران 17 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز دی ہے۔
منصوبے کے مطابق حکومت ایک ای-بائیک کی خریداری کے لیے 90 ہزار روپے کی ڈاؤن پیمنٹ کرے گی جب کہ اس کی لاگت ایک لاکھ 70 ہزار روپے ہے جب کہ خریدار کل ادائیگی ایک لاکھ روپے میں سے ابتدا میں 10 ہزار روپے ادا کرے گا۔
یہ تجویز کیا گیا ہے کہ حکومتی ضمانتوں کے ساتھ بینک کائیبور پلس 2 یا 19 فیصد پر 70 ہزار روپے کا قرض فراہم کرے گا جس کا تخمینہ 13 ہزار 300 روپے ہے۔
مجوزہ اسکیم کے تحت 24 ماہ میں قسطوں پر ای بائیک فراہمی کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا ہے جس کے تحت خریدار 4 ہزار 310 روپے ماہانہ ادا کرے گا جس میں 2 ہزار 917 روپے کی اصل رقم، ایک ہزار 109 روپے سود کی ادائیگی اور 2 فیصد کے حساب سے 284 روپے انشورنس کی ادائیگی شامل ہے۔
وزارت صنعت و پیداوار کو توقع ہے کہ منصوبے کے تحت جاری مالی سال کے دوران 15 ہزار ای-بائیکس کی تیاری/فروخت ہوگی جب کہ مالی سال 24-2023 اور مالی سال 25-2024 میں بالترتیب 60 ہزار اور ایک لاکھ ای-بائیکس تیار کرنے کا ہدف ہے، اس منصوبے کے مطابق 3 برسوں کے دوران مجموعی طور پر ایک لاکھ 70 ہزار ای بائیکس کی تیاری اور پیداوار مکمل کی جائے گی۔
سبسڈی پروگرام کے تحت تنخواہ دار والدین کے زیر تعلیم بچوں، طالبات اور خواتین ملازمین کے لیے 20 فیصد کوٹہ مختص کیا جائے گا، خواجہ سرا شہریوں کے لیے ایک فیصد کوٹہ رکھا جائے گا جب کہ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین، نجی شعبے کے تنخواہ دار/سیلف ایمپلائیڈ افراد جن کے پاس این ٹی این اور بینک اکاؤنٹ ہے، حکومت/مسلح افواج کے پنشنرز، وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان کی جانب سے توثیق شدہ انسٹی ٹیوٹ سے مستند تعلیم یافتہ امام مسجد/حافظ قرآن افراد کو ای بائیکس فراہم کی جائیں گی۔
اسکیم کے ورکنگ پیپر میں 3 سبسڈی ماڈل تجویز کیے گئے ہیں جن میں نقد خریداری بھی شامل ہے جس کے تحت حکومت بینکوں کے ذریعے ایک لاکھ روپے دے گی اور صارفین اپنے ذرائع سے 70 ہزار روپے کی ادائیگی کریں گے۔
سبسڈی لیزنگ ماڈل کے تحت ایک لاکھ روپے حکومت اور صارفین کے اشتراک کی بنیاد پر دیے جائیں گے جب کہ 70 ہزار روپے حکومت کی جانب سے 50 فیصد کریڈٹ گارنٹی کے ساتھ بینک قرض کے طور پر فراہم کریں گے۔
تیسرے ماڈل کے تحت سبسڈی کی 30 فیصد ڈاؤن پیمنٹ حکومت کرے گی جس میں 50 فیصد فنانسنگ سبسڈی اور 50 فیصد کریڈٹ گارنٹی کے تحت ہوگی۔
اسکیم کے تحت یہ تجویز ہے کہ پی ایس او کو ٹاسک دیا جاسکتا ہے کہ وہ مخصوص شہروں میں منتخب آؤٹ لیٹس پر ای وی چارجرز اور کمرشل چارجنگ کے لیے شمسی ٹیرف کے مطابق میٹرنگ کے لیے خصوصی میٹر نصب کرے۔
اس اسکیم کو ابتدائی طور پر اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور کراچی میں شروع کیا جاسکتا ہے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق اس وقت پاکستان میں موٹر سائیکلیں اور آٹو رکشہ بنانے والی 90 کمپنیاں ہیں اور ملک سالانہ 60 لاکھ موٹر سائیکلیں بنا سکتا ہے، اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ 22 کمپنیوں کو ای بائیکس بنانے کے لیے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔