اسحٰق ڈار وزیرخزانہ کے عہدے کیلئے اہل نہیں، شوکت ترین
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت ترین کا کہنا ہے کہ وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کو معیشت کی سمجھ نہیں ہے اور وہ اس عہدے کے لیے اہل نہیں ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 4 جنوری کو اسحٰق ڈار کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ ’اسحٰق ڈار کی 4 جنوری کی پریس کانفرنس پی ڈی ایم کی جانب سے 20 کروڑ عوام پر مسلط کی گئی امپورٹڈ حکومت کی جانب سے پیدا کی گئی معاشی تباہی سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کے وائٹ پیپر میں بیان کردہ تفصیلات اقتصادی سروے، اسٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف کی رپورٹس کے اصل اعداد و شمار پر مبنی ہیں۔
شوکت ترین نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہماری اصل توجہ ان مسائل اور تباہی پر تھی جو پچھلی حکومتوں کا نتیجہ تھی، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کورونا وبا کے باوجود لگاتار دو سالوں تک 6 فیصد نمو کے ساتھ معیشت کی ترقی ہماری شاندار کارکردگی کا ثبوت ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ معاشی، اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں اضافہ، بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے دوران ڈیفالٹ ہونے کا خدشے کے حل کےلیے پی ڈی ایم حکومت کسی بھی قسم کی پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیرخزانہ بڑھتی ہوئے مہنگائی کے حوالے مسائل کے حل کرنے میں ناکام رہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کے سبب ریکارڈ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو تکلیف میں مبتلا کیا۔
شوکت ترین نے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت کے مقابلے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 80 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت کے تحت اسٹیٹ بینک کے ذخائر تیزی سے کم ہوکر دسمبر میں 5 ارب 80 کروڑ ڈالر تک رہ گئے تھے جو صرف ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنا کے لیے کافی تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور دوست ممالک سے مالی امداد کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
انہوں نے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت کے پاس 75 وزرا پر مشتمل وفاقی کابینہ کو چلانے کے لیے فنڈز ہوں لیکن عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے رقم نہ ہو؟۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہاں تک کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل اور مسلم لیگ(ن) کے دیگر ممبران بھی اسحٰق ڈار کی پالیسیوں پر تنقید کرتے نظر آئے، سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں ریکارڈ برآمدات، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کے ساتھ معیشت مسلسل دوسرے سال 6 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں معاشی صورتحال سنگین شکل اختیار کرچکی ہے اور اسٹیٹ بینک نے ٹیکس اقدامات اور درآمدی پابندیوں کی وجہ سے تخمینہ لگایا ہے کہ نئے سال میں جی ڈی پی 2 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ سابق وزیر خزانہ نے بھی معیشت کی تباہی پر حکومت کو ذمہ داری ٹھہرایا، ٹیکسٹائل ملز سے لے کر آٹو موبائل مینوفیکچر تک تمام صنعتیں بند ہورہی ہیں اور بڑے پیمانے پر مزدوروں کو برطرف کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار میں آکر پی ٹی آئی کی اصلاحات کو ناصرف مسترد کیا بلکہ ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس عائد کرکے ان پر معاشی دباؤ ڈالا گیا۔
نجی شعبے کے قرض کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں نجی شعبے کے لیے قرض میں 16 کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس شرح میں تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی جب پی ڈی ایم کی حکومت نے نجی شعبوں سے قرضے سے لیے گئے قرضے جولائی اور دسمبر کے مالی سال 2023 کے دوران 260 ارب روپے رہ گئے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 600 ارب روپے تھے۔
شوکت ترین نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، برآمدات، غیر ملکی سرمایہ کاری اور بجلی کے شعبوں میں قرضے جیسے امور میں موجودہ حکومت کے مقابلے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ان شعبوں کی کارکردگی بہتر تھی۔