’شکست کا خوف دل سے نکالے بغیر جیت نہیں ملے گی‘
نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز کے دوسرے میچ کی پہلی اننگ میں پاکستان کے سعود شکیل کی شاندار سنچری نے اننگ کو تباہی سے بچایا تھا تو دوسری اننگ میں سرفراز احمد ٹیم کو شکست کے منہ سے نکال کر جیت کے بہت پاس لے آئے۔
لیکن دونوں کھلاڑیوں کی یہ شاندار کارکردگی بھی پاکستان کو فتح نہ دلا سکی اور یوں ٹیسٹ کرکٹ میں ایک بڑا ہوم سیزن پاکستان کی فتح کے بغیر ہی ختم ہوگیا۔
کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اور اس میں قدرت کا نظام بھی ضرور مداخلت کرتا ہے لیکن ڈر کے ساتھ جیتنا قریب قریب ناممکن سی بات ہے۔ کچھ ایسا ہی پچھلے ایک سال سے پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کے ساتھ ہورہا ہے۔
جنوری 2022ء میں پاکستانی کرکٹ شائقین بہت خوش تھے کہ ایک سال میں 3 بڑی ٹیمیں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے پاکستان آرہی تھیں۔ سال سے بھی کم عرصے میں پاکستان میں 8 ٹیسٹ کھیلے جانے تھے اور وہ بھی آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف۔ ایک کرکٹ شائق کو بھلا اور کیا چاہیے تھا؟
ساتھ ساتھ پاکستانی ٹیم کے پاس ورلڈ ٹیسٹ چمپیئن شپ کے فائنل تک پہنچنے کا شاندار موقع بھی تھا یا یہ موقع صرف پاکستانی کرکٹ شائقین کو ہی نظر آ رہا تھا کیونکہ آج جنوری 2023ء میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کہیں ایسا نہیں لگتا کہ پاکستانی ٹیم ان 8 ٹیسٹ میں جیت کے لیے کھیلی ہو۔ جہاں پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ول جیکس اور ریحان احمد ڈیبیو پر 5 وکٹیں حاصل کر گئے، جہاں 4 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کے قابل سمجھے جانے والے اش سوڈھی سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر بن گئے وہیں پاکستانی اسپنرز وکٹیں حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار نظر آئے۔
جب ہمارے اسپنرز نے وکٹیں حاصل کیں بھی تو اتنی مہنگی کہ ان کا ٹیم کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ٹی20 ورلڈکپ کے دوران پاکستانی پیس اٹیک کو دنیا کا بہترین اٹیک گنا جا رہا تھا لیکن 2022ء میں ایسا لگا کہ جیسے پاکستان کے پاس ٹیسٹ فاسٹ باؤلرز بالکل ہی ختم ہوگئے ہیں۔ محمد عباس کو کم رفتار کی وجہ سے قابلِ غور نہیں سمجھا گیا لیکن میر حمزہ اور محمد علی بھی 130 سے کم کی رفتار پر باؤلنگ کرتے نظر آئے۔ دوسری جانب وائٹ بال اسپیشلسٹ حارث رؤف اور محمد وسیم جونیئر کو کھلانا بھی کسی کام نہ آیا۔
کچھ ایسا ہی حال پاکستانی بیٹنگ کا رہا۔ بلے باز سنچریاں تو بناتے رہے مگر ایسی اننگ کوئی نہیں کھیل سکا جو ٹیم کو فتح دلوا سکے۔ کپتان بابر اعظم نے آسٹریلیا کے خلاف 196 رنز کی میچ بچانے والی اننگ اور سری لنکا کے خلاف 119 رنز کی میچ جتانے والی اننگ کھیلی تو لگا کہ اب بابر نے ٹیسٹ کرکٹ میں بہتر کارکردگی دکھانے کا راز جان لیا ہے۔ لیکن اس کے بعد بابر اعظم نے رنز تو بنائے مگر جب جب دباؤ کا سامنا کرنا پڑا وہ وہاں لڑکھڑا گئے۔
لیکن کیا اس کارکردگی کی ذمہ دار صرف ٹیم یا کھلاڑی ہیں؟ یہ درست ہے کہ ٹیم نے میدان میں اچھا کھیل پیش نہیں کیا لیکن کیا بابر اعظم کی کپتانی ایک فاتح کپتان جیسی تھی؟ بابر اعظم گزشتہ دہائی میں پاکستان کرکٹ میں آنے والے بہترین کھلاڑی ہیں اور شاید مستقبل میں پاکستان کی جانب سے بیشتر ریکارڈ بابر اعظم کے نام ہی ہونے جا رہے ہیں لیکن کیا بابر اعظم بطور کپتان ایک مناسب انتخاب ہیں؟ پچھلے 8 ٹیسٹ میچوں میں کئی ایسے موڑ آئے جب ایک دلیرانہ فیصلہ میچ کا رخ پلٹ سکتا تھا لیکن کرکٹ شائقین کو اس فیصلے کا انتظار ہی رہا اور سال بیت گیا۔
لیکن ٹھہریں، اس سب کے ذمہ داران میں ٹیم اور کپتان کے علاوہ بھی کئی نام آتے ہیں۔ سابق چیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ نے عہدہ سنبھالا تو امید تھی کہ اب پاکستانی کرکٹ کا انداز جارحانہ ہوجائے گا لیکن یہ جارحانہ پن صرف بیانات کی حد تک ہی سامنے آیا۔ آسٹریلیا کے خلاف نکمی پچیں بنیں تو رمیز راجہ ڈراپ اِن پچوں کو لانے پر زور دینے لگے۔
ہم تو ہمیشہ سے سمجھتے تھے کہ ڈراپ اِن پچیں صرف ان میدانوں میں استعمال ہوتی ہے جہاں آف سیزن میں دوسرے کھیل کھیلے جاتے ہیں لیکن رمیز راجہ نے بتایا کہ اسپورٹنگ وکٹوں کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں ڈراپ اِن پچیں لائی جائیں۔
ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے پائے گئے کہ پاکستان ابھی اسپورٹنگ پچیں بنانے کی صلاحیت سے سالوں کی دُوری پر ہے۔ لیکن یہ بیان دیتے ہوئے وہ شاید بھول گئے کہ ابھی سال پہلے ہی پاکستانی میدانوں پر جنوبی افریقہ کے خلاف ہونے والی سیریز میں جب وہ کمنٹری کر رہے تھے تو وکٹیں کس قدر اسپورٹنگ تھیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ کام کرنے سے باتیں کرنا بہت آسان ہے، وہ شاید سچ ہی کہتے ہیں۔
رمیز راجہ بطور چیئرمین کرکٹ بورڈ اپنا کام اتنی ’جانفشانی‘ سے کر رہے تھے تو چیف سلیکٹر محمد وسیم کہاں پیچھے رہتے۔ محمد وسیم نے وائٹ بال کرکٹ کی کارکردگی پر محمد وسیم اور حارث رؤف کو ٹیسٹ کھلا دیے اور یہ بھی نہ سوچا کہ پچھلے کئی ماہ سے مسلسل وائٹ بال کھیلنے والے یہ فاسٹ باؤلرز نہ ٹیسٹ کرکٹ کی لائن لینتھ سے زیادہ واقف ہیں اور نہ ہی ان کے پاس دن میں 20 اوورز کروانے کی فٹنس موجود ہے۔
پھر فواد عالم کو صرف ایک سیریز کی خراب کارکردگی پر ڈراپ کرنا زیادہ بڑا سوالیہ نشان صرف اس لیے نہیں بن سکا کہ فواد کی جگہ آنے والے سعود شکیل نے بہترین طریقے سے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ لیکن فواد عالم کے ساتھ ہونے والی یہ زیادتی اب شاید ان کے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام ہی کرکے چھوڑے گی۔
سلیکشن میں ہونے والی کوتاہی کا ذکر ہو اور بات سرفراز احمد کی نہ ہو،تو معاملہ ادھورا ہی رہے گا۔ بات سرفراز احمد کی ہوئی تو محترم رمیز راجہ نے کہہ دیا کہ سرفراز احمد کا وقت ختم ہوچکا۔ شاید راجہ جی کا یہی بیان تھا جس کی وجہ سے سرفراز احمد کو اسکواڈ میں موجود ہونے کے باوجود موقع دینا مناسب نہیں سمجھا گیا ورنہ سرفراز احمد کا اسپن وکٹوں پر کھیل ہمیشہ سب کے سامنے رہا ہے اور سری لنکن دورے اور انگلینڈ کے خلاف سیریز میں وہ پاکستان کی جانب سے اہم ترین بیٹسمین ثابت ہوسکتے تھے۔
سرفراز کو مسلسل 4 سال ٹیم سے باہر رکھا گیا مگر اس کے باوجود انہوں نے باقی کئی کھلاڑیوں کی طرح بیان بازی کے بجائے اپنے کھیل پر توجہ دی اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں ایسی کارکردگی دکھا دی کہ ایک بار پھر انہیں اسکواڈ میں طلب کرنا ہی پڑا۔ شاید سرفراز احمد اب بھی صرف اسکواڈ میں ہی رہتے لیکن شاہد آفریدی نے اس بار ایک مناسب کام میں مداخلت کی اور سرفراز پلیئنگ الیون کا حصہ بن ہی گئے اور پھر جو ہوا وہ آپ سب نے دیکھ ہی لیا۔
اسکواڈ کی سلیکشن مناسب نہیں تھی تو فائنل الیون بنانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ مہمان ٹیم جہاں 3، 3 اسپنرز کے ساتھ میدان مین اترتی رہی، وہیں پاکستان کی جانب سے کبھی 2 تو کبھی صرف ایک اسپیشلسٹ اسپنر ہی کھلایا جاتا رہا۔ فہیم اشرف ایک ٹیسٹ میں بطور چوتھے باؤلر اور ایک میں بطور پانچویں باؤلر کھیلے لیکن انگلینڈ کے خلاف 2 میچوں میں وہ صرف 12 اوورز ہی کروا پائے۔ اس سیریز میں کچھ ایسا ہی استفادہ آغا سلمان کی آف اسپن باؤلنگ سے اٹھایا گیا۔
ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق قدرت کے نظام کے قائل رہے تو بیٹنگ کوچ محمد یوسف کہتے ہیں کہ پاکستان میں اسپن ٹریکس بنانے کے لیے مٹی ہی موجود نہیں ہے۔ اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اسپنرز جب وکٹوں کے انبار لگاتے ہیں تب وکٹوں کے لیے مٹی کہاں سے درآمد کی جاتی ہے؟
ٹیسٹ چمپیئن شپ کے اس سائیکل کا جب اعلان ہوا تھا تو پاکستانی کرکٹ شائقین بہت پُرجوش تھے کہ 3 بڑی ٹیموں کے خلاف سیریز پاکستان میں تھی اور بیرونِ ملک مقابلہ سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں کے خلاف تھا۔ خیال تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہوم سیریز میں ٹرننگ وکٹیں بنائے گا اور پاکستانی ٹیم میں 2 سے 3 اسپنرز کھلائے جائیں گے۔ پاکستان میں ہونے والے 8 میں سے 5، 6 ٹیسٹ میچوں میں فتح اور پاکستانی ٹیم ٹیسٹ چمپیئن شپ کے فائنل میں شائقین کو نظر آرہی تھی۔
لیکن پاکستانی کرکٹ بورڈ اور ٹیم منیجمنٹ کے دلوں میں شکست کا ڈر اتنا بیٹھ چکا تھا کہ کیوریٹرز اچھی وکٹیں بنانا ہی بھول گئے۔ 8 ٹیسٹ میں سے 4 شکست اور 4 ڈرا کی صورت میں اختتام پذیر ہوئے اور اگر انگلینڈ کی ٹیم جارحانہ حکمتِ عملی اختیار نہ کرتی تو ڈرا میچوں کی تعداد 6 بھی ہوسکتی تھی، کیونکہ قومی ٹیم نے تو جیت کی امید ہی نہیں رکھی اور جب آپ کسی چیز کی امید بھی نہ رکھیں تو اس کا ملنا ناممکن ہی ہوتا ہے۔
پاکستان کرکٹ میں اگر کچھ بدلنا ہے تو سب سے پہلے ذہنیت بدلنی ہوگی، شکست کا خوف دل سے نکال پھینکیں گے تبھی جیت ملے گی۔ اس کے لیے کوچز پینل میں تبدیلی تو ناگزیر ہے ہی، ساتھ ہی سلیکشن کمیٹی میں بھی مثبت سوچ رکھنے والے افراد کی سخت ضرورت ہے۔ مختلف فارمیٹس کے لیے مناسب کھلاڑیوں کی سلیکشن لازمی ہے، ایک فارمیٹ میں اچھی کارکردگی دوسرے فارمیٹ میں سلیکشن کا باعث نہیں بننی چاہیے۔
ساتھ ہی ٹیم میں کپتان یا کپتانی کے طریقوں میں تبدیلی بھی لازم ہے۔ بابر اعظم پاکستان کے بہترین بلے باز ہیں پر ان کی کپتانی ان کی بیٹنگ کو گھنا رہی ہے۔ اب یا تو بابر اپنی کپتانی میں بہتری لائیں یا ان کی جگہ کسی اور کو قومی ٹیم کا کپتان بنایا جائے۔ ساتھ ہی ریڈ بال کرکٹ اور وائٹ بال کرکٹ میں مختلف کپتان کی حکمت عملی پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔