ملک میں مہنگائی کی نئی لہر، آٹا اور مرغی کا گوشت مزید مہنگا ہوگیا
ملک بھر میں گندم کے آٹے اور مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں بے لگام اضافے کے رجحان نے ہوش ربا مہنگائی سے پریشان صارفین کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا جب کہ گزشتہ چند روز کے دوران ان اشیا کے نرخوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں مہنگائی کی تازہ لہر کے دوران جہاں آٹے کی مختلف اقسام کی قیمتیں 140 سے 160 روپے فی کلو تک پہنچ گئیں، وہیں زندہ مرغی کی قیمت 420 روپے فی کلو تک ہوگئی۔
قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ بیچنے والوں کے لیے سرکاری سطح پر ریٹس کی جانچ پڑتال کا منظم، موثر نظام نہ ہونا بھی ہے جو اپنی مرضی کے مطابق قیمتیں بڑھا رہے ہیں۔
فلور ملرز نے بھی اب آٹا نمبر 2.5 او رفائن آٹا/میدہ 130 روپے اور 140 روپے فی کلو کردیا ہے جب کہ اس کی قیمت دسمبر کے آخری ہفتے میں 115 روپے اور 118 روپے تھی۔
قیمتوں کی جانچ پڑتال کے کسی موثر، منظم طریقہ کار کی عدم موجودگی اور بندرگاہ سے پولٹری فیڈ کے اہم خام مال جی ایم او سویابین میل کی کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے اسٹیک ہولڈرز نے زندہ مرغی کی قیمتیں 420 روپے فی کلو تک کردیں جو کہ دو روز قبل تک 380 سے 400 روپے فی کلو تک تھیں، ریٹیلرز صاف گوشت کے لیے 620سے 680 روپے فی کلو تک وصول کر رہے ہیں جب کہ چند روز قبل تک یہ قیمتیں 580 سے 640 روپے تھیں۔
ہول سیل مارکیٹ میں آٹا نمبر 2.5 دسمبر کے آخری ہفتے میں 113 روپے کے مقابلے میں اب 136 سے 138 روپے فی کلو میں دستیاب ہے، فائن آٹا اور میدہ کی قیمت اس وقت ہول سیل قیمت 142 روپے فی کلو ہے جو کہ گزشتہ ماہ 115 روپے تھی، چکی کے آٹے کا ہول سیل ریٹ 155 روپے ہے جو کہ 140 روپے فی کلو تھا۔
آٹا نمبر 2.5 کی ریٹیل قیمت اب 140-150 کے درمیان ہے جب کہ فائن آٹا اور میدہ 150 روپے اور چکی کا آٹا 160 روپے فی کلو میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
ملرز اور ہول سیلرز اوپن مارکیٹ میں 100 کلو گندم کے تھیلے کی قیمت 12 ہزار سے 12 ہزار 5 سو بتا رہے ہیں جو کہ دسمبر کے آخری ہفتے میں 10 ہزار 6 سو سے روپے تھی، نومبر میں یہ یہ قیمت 8 ہزار 30 سو روپے تھی۔
ریٹیلرز کا کہنا ہے کہ ملرز نے برانڈڈ فائن آٹے کے نئے نرخ جاری کیے ہیں جس کے مطابق اشرفی آٹا 5 کلو اور 10 کلو کے تھیلے کی قیمت بالترتیب 775 روپے اور ایک ہزار 530 روپے ہوگئی جو گزشتہ ہفتے 700 روپے اور 1400 روپے تھی۔
کراچی ہول سیلرز گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رؤف ابراہیم نے کہا کہ سندھ میں گندم کی نئی فصل آنے میں ابھی 2 ماہ باقی ہیں، انہوں نے الزام لگایا کہ بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ کتنے لوگوں کو سبسڈی والا آٹا 65 روپے فی کلو مل رہا ہے؟ یہ سبسڈی صرف فلور ملرز اور صوبائی حکومت کے لیے ہے، اس سے پسے ہوئے صارفین کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔
دوسری جانب پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ زون کے چیئرمین عامر عبداللہ نے کہا کہ کراچی کے 30 سے 40 فیصد لوگوں کو آٹا 65 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے صوبائی سیکریٹری خوراک، کمشنر کراچی اور ڈپٹی کمشنرز سے شہر میں سیل پوائنٹس کی تعداد بڑھانے سے متعلق بات کی ہے تاکہ عوام کو سبسڈی والے آٹے کی دستیابی کو بہتر بنایا جا سکے۔
عامر عبداللہ نے کہا کہ فلور ملرز کے لیے گندم کا کوٹہ بڑھایا جانا چاہیے۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سیل پوائنٹس پر رقم چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ فلو ملرز نے کمشنر اور سیکریٹری فوڈ پر زور دیا ہے کہ وہ مختلف سیل پوائنٹس پر خصوصی سیکیورٹی فراہم کریں۔
انہوں نے کہا کہ پاسکو سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ فلور ملوں کو براہ راست گندم فراہم کرے، انہوں نے کہا کہ شہر میں آٹے کی کوئی قلت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
مرغی کے گوشت کے نرخوں میں اضافہ
مرغی کا بغیر ہڈی کا گوشت تقریباً گائے کے گوشت کے برابر 800 سے 900 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے۔
ریٹلرز کی جانب سے بتائے گئے نرخ سندھ پولٹری ہول سیلرز ایسوسی ایشن (ایس پی ڈبلیو اے) کی جانب سے جاری کردہ قیمتوں کے برعکس ہیں۔
سندھ پولٹری ہول سیلرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کمال اختر صدیقی نے کہا کہ ہول سیل 360 سے 364 روپے ریٹ کی بنیاد پر ریٹیل قیمتیں 370سے 380 روپے فی کلو کے درمیان ہونی چاہئیں جب کہ گوشت کا ریٹ 550 سے 600 روپے مقرر ہے، تاہم عام طور پر علاقے کے لحاظ سے ریٹس مختلف ہوتے ہیں۔
گزشتہ 2 ماہ کے دوران پولٹری پروڈکشن میں 35 فیصد کمی کا دعویٰ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولٹری کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث اس کی فروخت بھی متاثر ہوئی ہے۔
کمال اختر صدیقی نے کہا کہ جی ایم او سویا بین میل کی کمی کی وجہ سے پولٹری فیڈ دیگر اجزا کے ساتھ بنائی جا رہی ہے جس کی قیمتیں بھی اوپر جا رہی ہیں، اس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں چوزے کی تیاری میں 35 کے بجائے 42 روز لگیں گے۔