پاکستان

ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی ٹیم 15جنوری کو کینیا روانہ ہو گی، سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش

سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ آج ارشد شریف قتل پر ازخود نوٹس کے کیس کی دوبارہ سماعت شروع کرے گا۔

پولیس نے صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے بارے میں سپریم کورٹ کے سامنے 13 صفحات پر مشتمل عبوری رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے تاکہ جج صرف اپنے چیمبروں میں اس رپورٹ کا مشاہدہ کر سکیں کیونکہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ (آج) جمعرات کو اس ازخود نوٹس کے کیس کی دوبارہ سماعت شروع کرے گا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کی جانب سے دارالحکومت پولیس کے قانونی ونگ کی جانب سے فائل کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ خصوصی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی 15جنوری کو کینیا کے لیے روانہ ہو گی تاکہ وہاں کیے گئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کی کاپی لے کر آئے۔

عدالت عظمیٰ نے 8 دسمبر 2022 کی سماعت میں اس امید کا اظہار کیا تھا کہ خصوصی تحقیقاتی کمیٹی اپنی تحقیقات کے بارے میں عبوری رپورٹ ترجیحی بنیادوں پر 15 دن کے اندر اندر چیمبروں میں ججوں کو جانچ کے لیے پیش کرے گی، عدالت نے قتل کی ’ایماندارانہ اور شفاف‘ تحقیقات میں سہولت فراہم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔

سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کو 23 اکتوبر 2022 کو کینیا کے شہر نیروبی کے مضافات میں قتل کر دیا گیا تھا۔

عبوری رپورٹ کے علاوہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر نمبر 987/2022) کی ایک نقل، کینیا کی وزارت خارجہ کے جوابات اور کینیا سے قتل کی انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل سپریم کورٹ کا بینچ پہلے ہی ایف آئی اے کے سربراہان، انٹیلی جنس بیورو اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ساتھ ساتھ خارجہ امور، داخلہ اور انفارمیشن سیکرٹریز کو نوٹس جاری کر چکا ہے جہاں عدالت (آج) جمعرات کو از خود کیس کی کارروائی دوبارہ شروع کرے گی۔

قبل ازیں عدالت نے وزارت داخلہ کی طرف سے تشکیل دی گئی خصوصی جے آئی ٹی کو ہدایت کی تھی کہ اگر انہیں تفویض کردہ کام میں کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ براہ راست چیف جسٹس کے دفتر سے رجوع کریں، مذکورہ خصوصی جے آئی ٹی میں انٹر سروسز انٹیلی جنس کے محمد اسلم، ملٹری انٹیلی جنس کے مرتضیٰ افضل، ایف آئی اے سائبر کرائم کے ڈائریکٹر وقار الدین سید اور انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل ساجد کیانی شامل تھے۔

وزارت داخلہ نے متعدد قومی اور بین الاقوامی دائرہ اختیار میں مؤثر غیر ملکی روابط اور شواہد اکٹھا کرنے کے لیے خصوصی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کے دفتر کو ایس جے آئی ٹی اجلاسوں کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرنا تھا جو ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق جلد ہی کام کا آغاز کر دے گا۔

قبل ازیں عدالت کے سامنے پیش کی گئی 592 صفحات پر مشتمل حقائق کی کھوج کی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ یہ ’منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا قتل‘ تھا جس میں مبینہ طور پر بین الاقوامی کردار شامل تھے، تفتیش کاروں نے کینیا کی پولیس کی طرف سے پیش کیے گئے موقف پر سوالات اٹھائے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ ارشد شریف کا قتل غلط شناخت کا معاملہ تھا۔