کہانی سیاسی کارکن رَشاد محمود کی، جو رہنما نہیں منزل کی تلاش میں رہا
ہم جس دیس کے باسی ہیں وہاں سیاست محاورے میں ڈھل کر سازش، جھوٹ اور مفاد پرستی کے معنی پاچکی ہے۔ سیاست ہی کیا، یہ ستم ہر قدر ہر فریضے پر ڈھایا گیا ہے۔ عجیب لوگ ہیں ہم، کبھی تو یوں کہ طوائف کو خانم کا لقب دیا اور کوٹھے تہذیب کی تربیت گاہ قرار پائے اور کبھی یہ کہ شعور کی تہذیب کرتی سیاست ہی کو طوائف بنا ڈالا۔
یہ سب کیسے ہوا ہم سب جانتے ہیں، مختصراً کہانی یہ ہے کہ بار بار سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرنے والے کبھی اس قوم کا تعلق مارشل لا سے جوڑ کر اور کبھی جوڑ توڑ کے ذریعے سیاست کو آلودہ کرتے رہے۔ کبھی جمہوریت اور سیاست کی گستاخیوں پر صبر ایوب ٹوٹ گیا اور پھر قوم ایک عشرے تک گریہ یعقوب کرتی رہی، لیکن اس کا کھویا ہوا یوسف ملنا تھا نہ ملا کہ اس قصے میں کنواں بہت گہرا تھا۔ تو کبھی یہ ملک ضیاکے نام پر اندھیروں سے بھر دیا گیا، اور یہ سلسلہ حیلہ پرویزی اور باجوہ ڈاکٹرائن تک پہنچ کر ہمیں گرداب میں پھنسا چکا ہے۔
تو صاحب، ان حیلوں اور ڈاکٹرائنز کے ذریعے سیاست کو گالی اور کہیں گالی کو سیاستدان بنا دیا گیا۔ بہت سے سیاستدان سوالی بنادیے گئے اور جنہوں نے بنائے نہ رکھی ان پر بڑا سا سوالیہ نشان اور ہر وہ داغ لگا دیا گیا جو اچھا نہیں ہوتا۔ یہ اسی کیے دھرے کا شاخسانہ ہے کہ ہم نے بچپن میں جو کہانیاں پڑھیں ان میں وزیرِاعظم ایک سازشی کردار ہوتا تھا اور سپاہ سالار سرتاپا وفا۔ پھر یہ کہانی ہم اسٹیج ہوتی دیکھتے تھے۔
قیادتیں اگانے اور سیاسی تماشے لگانے تک پھیلے اس پورے کھیل میں ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ سیاسی کارکن مجاور ، مرید اور روبوٹ کا روپ دھار گئے۔ ان کا کام بس نعرے اور کرسیاں لگانا رہ گیا، ان کا بلند ترین مقصد لیڈر اور اس کے جملہ اہلِ خانہ کی سالگرہیں اور برسیاں منانا قرار پایا اور جلسوں اور عہدوں میں بٹتی بریانی پر جھپٹنا ان کی سیاسی تربیت کا مظاہرہ بن کر سامنے آیا۔ یہ کریہہ مناظر دیکھ کر ظاہر ہے عام پاکستانی کو منظم پریڈ کے نظارے متاثر کرتے ہیں اور پھر ٹرکوں کے پیچھے ایوب خان کی تصویر کے ساتھ ’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘ کے الفاظ پچھتاوے اور خواہش کا ملغوبہ بنے سامنے آتے ہیں۔
اب معجزہ یہ ہوا ہے کہ اس ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑنے والے اس پر چڑھ دوڑے ہیں۔ اگر ہمارا میڈیا، قلم کار اور دانشور عوام کو ان سیاسی رہنماؤں سے بھی روشناس کرواتے جن کا صاف دامن اور اجلی سیاست ’قیادت ساز فیکٹری‘ اور اس کی سیاست پر الزامات کا منہ چڑاتے ہیں اور ان سیاسی کارکنوں کا کردار اور قربانیاں سامنے لاتے جن میں سے کتنوں کی کہانی پر ’ماں‘ جیسا ناول لکھا جاسکتا ہے تو سیاست مخالف پروپیگنڈا کسی حد تک پسپا ضرور ہوتا اور لوگ سیاست سے یوں متنفر نہ ہوتے۔
سلام ہے جناب ڈاکٹر جعفر احمد کو کہ انہوں نے ہمیں رَشاد محمود صاحب سے ملوایا جن سے مل کر ہمیں احساس ہوا کہ یہ سرزمین جو جاپان کی سرحدیں جرمنی سے ملا دینے والے اور کتاب کے نام پر صرف چیک بُک سے آشنا عظیم المرتبت قائدین کا بوجھ اٹھائے پھٹ پڑنے کو بے تاب اور آسمان کی طرف دیکھ رہی ہے، وہیں اس دھرتی پر رَشاد محمود جیسے باشعور، سوچتے ذہن اور کھلی آنکھوں کے مالک، کتاب اور ادب سے ناتا جوڑے، فکر کی رہنمائی میں عمل کے راستے پر دھیرج سے چلتے کتنے ہی سیاسی کارکن آبلہ پائی کرچکے اور کررہے ہیں۔
رَشاد محمود بھی ایک عام آدمی ہیں، بس اس فرق کے ساتھ کہ وہ بطور سیاستدان، دانشور، صحافی، شاعر و ادیب اور مصنّف کوئی پہچان نہیں رکھتے لیکن زندگی کی 5 دہائیوں سے زیادہ وقت سیاست کے خارزاروں میں پھوٹتے چھالوں کا درد آزماتے گزار چکے ہیں۔
وہ مطالعے، مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر حاصل کردہ دانش سے واقعات کا گہرا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپنے نظریات میں راسخ العقیدہ مارکسٹ رَشاد محمود، اپنے نظریے کو فتح یاب کرنے کے لیے بحیثیت سیاسی کارکن سرگرم رہے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے مشقت بھی کرتے رہے۔ وہ 90 برس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود فکری طور پر تازہ دم نظر آتے ہیں۔ ان کا حافظہ بھی بلا توقف گزرے ایّام کی ہر تفصیل سنانے کی قدرت رکھتا ہے اور ان کی سوچ بہت واضح اور صاف ہے جس میں کوئی جھول دکھائی نہیں دیتا۔
جناب ڈاکٹر سیّد جعفر احمد نے رَشاد محمود کا انٹرویو کرکے ان کی یادداشتیں محفوظ کیں اور انہیں تاریخی دستاویز کے طور پر شائع کرکے ہمیں ایک سیاسی کارکن کے براہ راست تجربات تک رسائی دی۔ وہ کسی زور آور یا زوردار کی نرگسیت اور جھوٹ سے بھری سوانح عمری لکھتے تو اس کا چرچا بھی خوب ہوتا اور ان کے ادارے کا کوئی سال بھر کا خرچا تو پورا ہو ہی جاتا، لیکن جعفر صاحب سوداگروں کے نہیں خسارے کا سودا کرنے والوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے رَشاد محمود کی جیون کتھا کے توسط سے تقسیم سے پہلے اور بعد کی ہماری تاریخ کے حقائق ان صفحات پر بسادیے۔
یہ دستاویز برِصغیر میں ’سرخ سیاست‘، آزادی کی تحریک، پاکستان کی جدوجہد اور پھر نئی مملکت میں سیاسی مدوجزر اور سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہمہ وقت سرگرم عمل ایک سیاسی کارکن کے مشاہدات اور تجربات و تجزیے اور جائزے سامنے لاتی ہے اور کئی ایسے واقعات سے ہمیں روشناس کرتی ہے جو شاید ہمارے علم میں نہ ہوں۔
اس کتاب کا خوبصورت عنوان ’نگاہِ آئینہ ساز میں‘ رَشاد محمود کی زندگی کا عکس ہے جو یافت کے لیے شیشوں اور آئینوں کے کاروبار کو وسیلہ بنائے رہے ہیں۔ کاش ہمارا ہر سیاسی کارکن آئینہ ساز نہیں تو آئینہ بردار ضرور ہوتا اور اپنی قیادتوں کو آئینہ دکھاتا رہتا۔ اس طرح ہمارے رہنما، دیوتا اور ان کی جماعتیں خاندانی جاگیر نہ بنتیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ کسی نے آئینہ دکھایا تو آئینہ سلامت رہا نہ سر، بلکہ جس شہر میں ہم رہتے ہیں یہاں تو ایسا آئینہ بردار قائد کا غدار اور موت کا حقدار قرار پایا۔
رَشاد محمود صاحب کی داستان کی سطر سطر میں قاری کے لیے دلچسپی اور آگاہی کا سامان ہے۔ سو آپ کتاب کھولتے ہیں اور یہ آپ کو باندھ لیتی ہے۔ واقعات اور ان کی بہت اہم جزیات کا ایک سلسلہ ہے جو ہمارے لیے صفحہ پلٹنے کے چٹکی بجاتے وقت کا گزرنا بھی دوبھر کردیتا ہے۔ اور پھر بنتی تاریخ سے گزرتے رَشاد صاحب کے تبصرے اور تجزیے ہمارے لیے بہت کچھ سمجھنا اور واقعات کا ادراک آسان کردیتے ہیں۔
رَشاد محمود کی یادوں میں سمائے کایا کلپ کرتے تاریخی واقعات، یادگار لمحے اور سیاست کے اتار چڑھاؤ تو ہیں ہی تاہم توجہ مرکوز اور آنکھوں کو مسلسل صفحات سے چپکائے رکھنے والے ان کی ذاتی زندگی اور خاندانی پس منظر کے بارے میں معلومات بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔
یہ خالصتاً نجی کوائف ہمارے سامنے اُس دور کے بہت سے سماجی حقائق لاتے ہیں۔ ان میں سے ایک خوبصورت حقیقت ان کی پاکستان آمد کا پوری طرح ذاتی معاملہ بھی ہے۔ رَشاد صاحب کی صاف گوئی قابلِ داد ہے۔ وہ اپنی پاکستان آمد کو انقلاب لانے کے آدرش کا ’کمیونسٹ ٹچ‘ دے سکتے تھے لیکن انہوں نے سیدھے سبھاؤ بتادیا کہ ان کی خالہ پاکستان میں تھیں اور ان کی بیٹی سے وہ شادی کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ’یہ حقیقت ہے کہ ہم شادی کرنے کے لیے ہی پاکستان آئے تھے‘۔ ہمارے سیاستدان قید سے بچنے کے لیے پاکستان چھوڑ جاتے ہیں اور ایک رَشاد صاحب ہیں کہ قید ہونے پاکستان چلے آئے۔ سیاسی مریضوں اور مریض محبت میں یہ فرق ہے۔
’نگاہ آئینہ ساز میں‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے مسلسل یہ احساس گھیرے رہا کہ کتنے ہی ایسے فعال سیاسی کارکن دنیا سے جاچکے ہیں جن کی آنکھوں میں ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے کے سیاسی طوفانوں کا غبار بھی اترا اور ان کی پلکوں نے قیامِ پاکستان کے بعد اڑائی جانے والی دھول کا بوجھ بھی سہا۔ انہوں نے کتابوں، بشمول مطالعہ پاکستان کے اوراق میں فرشتہ بن کر سامنے آنے والی شخصیات کو انسانی روپ میں دیکھا اور ہمارے سرکاری اور قومی بیانیے میں شیطان کا درجہ پانے والوں کے انسانی اوصاف کا بھی مشاہدہ کیا۔ مگر کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ ان تجربات اور مشاہدات کو رقم کرکے تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ بناتا۔ نہ جانے تساہل آڑے آیا، مصلحتیں کہ پورا سچ سامنے آنے کا ڈر۔
یہ بھاری پتھر اٹھانے کا تو ذکر ہی کیا، مجھے کچھ دنوں قبل محترم وسعت اﷲ خان کے ذریعے علم ہوا کہ جو قیمتی اور نہایت اہم تاریخی دستاویزات ڈاکٹر زوار حسین زیدی ’جناح پیپرز‘ کی صورت میں سامنے لائے، وہ کوڑا سمجھ کر ترک کردہ سرکاری عمارت کی چھت پر پھینک دی گئی تھیں۔ یہ تاریخ سے بے اعتنائی ہے یا تاریخ کا خوف، فیصلہ آپ ہی کیجیے۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ رَشاد محمود صاحب ہمارے درمیان موجود ہیں اور ڈاکٹر جعفر احمد جیسے علم و تاریخ دوست بھی ہمیں میسر ہیں جس کی وجہ سے ایک ایسی کتاب شائع ہوسکی جو ہمیں اپنی تاریخ کی بہت سی ٹوٹی کڑیاں ملانے میں مدد دیتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ نظریاتی اور پختہ شعور کا سیاسی کارکن ہوتا کیا ہے۔ یہ وہ ہوتا ہے جسے رہنما نہیں منزل چاہیے ہوتی ہے اور جو لیڈر کو نہیں نظریے کو زندہ رکھتا ہے۔ وہ کارکن جس کی رہنمائی رہنماؤں کو صحیح راستے پر گامزن رکھتی ہے۔
(بزرگ سیاسی کارکن رَشاد محمود کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’نگاہِ آئینہ ساز میں‘ کی تقریبِ رونمائی میں پڑھا گیا مضمون)
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔