رانا ثنااللہ کا افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں سے متعلق بیان اشتعال انگیز، بے بنیاد ہے، افغان طالبان
افغان حکام نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا بیان مسترد کرتے ہوئے اسے ’اشتعال انگیز اور بے بنیاد‘ قرار دے دیا۔
افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا گیا کہ ’ہم ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور ممکنہ حملے سے متعلق پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے بیان کو اشتعال انگیز اور بے بنیاد سمجھتے ہیں‘۔
افغان وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے ثبوت موجود ہیں اور پاکستانی حکام کے ایسے بیانات دونوں برادر ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کے لیے نقصان دہ ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ افغانستان ہر تشویش کو سمجھوتے سے حل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
افغان وزارت دفاع نے مزید کہا کہ افغانستان اپنی علاقائی سالمیت اور آزادی کا دفاع کرنے لیے تیار ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ملک کا دفاع کیسے کرنا ہے۔
خیال رہے کہ 30 دسمبر کو وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے نجی چینل ’ایکسپریس نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا کے جن علاقوں میں ٹی ٹی پی کی موجودگی ہے، ان کو کلیئر کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ دہشت گرد گروپسوں کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان ہمارا اسلامی برادر ملک ہے اس لیے سب سے پہلے افغانستان کو ٹی ٹی پی کی موجودگی کے حوالے سے بتائیں گے اور ان کے خلاف کارروائی کرکے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کا کہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر افغانستان ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کارروائی نہیں کرتا تو پھر بین الاقوامی قانون کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی دہشت گروہ کسی اور علاقے میں موجود اپنے ٹھکانے سے حملہ کرنے کا منصوبہ کرے تو اس پر حملہ کیا جاسکتا ہے‘۔
وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ اگر افغانستان سے کوئی جواب نہیں آتا تو پھر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ اسلام آباد کو کوئی مخصوص خطرہ نہیں ہے مگر چونکہ وہ دارالحکومت ہے تو عام طور پر خطرہ رہتا ہے، مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اسلام آباد پولیس محتاط ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کا کوئی واضح طور پر طالبان سے اتحاد نہیں ہے اور چاہے وہ مل کر یا الگ الگ حملہ کریں افواج پاکستان ان کو بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
رانا ثنااللہ نے 30 دسمبر کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ بیان دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ملک کو چیلنج کرنے والوں کو پوری طاقت سے جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دہشت گردی کی بڑھتی لہر
خیال رہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے ملک میں امن و امان کی صورت حال تشویش ناک رہی ہے جہاں ٹی ٹی ٹی، داعش اور گل بہادر گروپ جیسے دہشت گرد گروہ ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں۔
بلوچستان میں موجود عسکریت پسند گروہوں نے بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کرتے ہوئے ٹی ٹی پی سے اتحاد کرلیا ہے۔
بنوں میں خیبرپختونخوا پولیس کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے تفتیشی مرکز میں پیش آنے والے واقعے اور اسلام آباد میں خودکش بم حملے کی کوشش نے نہ صرف ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے بلکہ کئی ممالک کو اسلام آباد میں مقیم اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے تشویش میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔
اس ضمن میں امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور سعودی عرب نے اپنے شہریوں کے لیے ایڈوائزری جاری کرتے ہوتے پاکستان میں نقل و حرکت محدود کرنے اور غیرضروری سفر سے بھی گریز کرنے کا پابند کیا تھا۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی جو افغانستان میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی قیادت کی ہدایت پر کیے گئے۔
ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر افغان طالبان سے منسلک ہے جس نے سال 2022 کے دوران ملک بھر میں دہشت گردی کے 115 کیے جن میں سے زیادہ تر گزشتہ سال اگست میں حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان کشیدہ تعلقات کے بعد ہوئے تھے۔
بعد ازاں نومبر میں ٹی ٹی پی نے باضابطہ طور پر جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ملک میں دہشت گردی کے حملوں میں اضافے کے بعد پاکستان افغانستان کے حکام پر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔