نقطہ نظر

کیا واقعی برطانیہ میں مہنگائی لوگوں کو متاثر کررہی ہے؟

برطانیہ کے لیے یہ غیر معمولی حالات ہیں اور موجودہ نسل نے اپنی زندگی میں ابھی تک شاید اس سے سخت وقت نہیں دیکھا۔

’مہنگائی کی وجہ سے لوگ پالتو جانوروں کی خوراک کھانے پر مجبور‘، ’بڑھتی مہنگائی سے طالب علموں کی بڑی تعداد معاشی مشکلات کا شکار‘، ’مہنگائی: لوگ سیونگ اکاؤنٹس میں موجود رقم خرچ کرنے پر مجبور‘، ’بیماری کے باوجود ٹھنڈے اور نمی زدہ گھروں میں رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں‘، ’مہنگائی کے باعث لوگ ایندھن یا خوراک میں سے کسی ایک کا انتخاب کررہے ہیں‘، ’تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر نرسنگ اسٹاف، ایمبولینس ڈرائیور، ریل ورکر اور یونیورسٹی اسٹاف نے ہڑتالوں کا اعلان کردیا‘۔

یہ اور اس طرح کی خبریں کسی بھی ملک سے آئیں تو افسوسناک اور تشویشناک ہوتی ہی ہیں لیکن اگر ایسی خبریں آپ کو برطانیہ کے بارے میں پڑھنے کو ملیں تو یہ حیرت انگیز بھی ہوتی ہیں۔

افسوس کہ گزشتہ کچھ ماہ سے برطانیہ میں تواتر سے ایسی خبریں آرہی ہیں اور صرف خبریں ہی نہیں، یہاں رہنے والا ہر شخص محسوس کررہا ہے کہ موجودہ برطانیہ چند سال قبل کے برطانیہ سے بہت مختلف ہے۔ اس سب کی بنیادی وجہ گزشتہ کچھ عرصے میں رونما ہونے والے 3 بڑے واقعات ہیں یعنی بریگزیٹ کے نتیجے میں برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا، کورونا کے بعد پیدا شدہ صورتحال اور روس-یوکرین جنگ۔

ان تینوں عوامل نے مل کر برطانیہ میں رہنے والوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ برطانوی معیشت سکڑ رہی ہے، مہنگائی میں ہوش رُبا اضافہ ہورہا ہے اور بینک آف انگلینڈ کو ہر ماہ شرح سود میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے جس کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر پڑ رہے ہیں۔

برطانیہ میں گزشتہ 3 سال سے سیاسی عدم استحکام نمایاں ہے اور اب معاشی بحران نے بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کو متاثر کر رکھا ہے، اس صورتحال کو یہاں ’کوسٹ آف لیونگ کرائسس‘ یا رہن سہن کے اخراجات کا بحران قرار دیا گیا ہے۔

برطانیہ میں اس وقت ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں گزشتہ 50 برس کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح 10.7 فیصد پر ہے جبکہ اشیائے خور و نوش میں مہنگائی کی شرح 16 فیصد سے زیادہ ہے۔ یعنی آٹا، کھانا پکانے کا تیل، چاول، دودھ اور انڈوں سمیت روزمرہ استعمال کی تمام اہم اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔

دوسری جانب اکتوبر 2021ء سے اکتوبر 2022ء کے دوران گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں 129 فیصد جبکہ بجلی کی قیمت میں 66 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سب کے مقابلے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اوسطاً صرف 2.7 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے برطانوی معاشرے کے تمام اہم شعبوں میں ملازمین مرحلہ وار ہڑتالوں کا اعلان کررہے ہیں۔

حالات کی سنگینی اور ورکنگ کلاس میں موجود بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ میں تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے پر نرسنگ عملے نے 106 سال کے دوران پہلی مرتبہ ہڑتال کی۔ اس کے ساتھ ہی ایمبولینس اسٹاف، بس ڈرائیوروں، بارڈر فورس، اساتذہ و یونیورسٹی اسٹاف کی یونینز نے بھی ہڑتالوں کا شیڈول جاری کر رکھا ہے۔ اس دوران سروسز کو بحال رکھنے کے لیے یہاں برطانیہ میں فوجی اہلکاروں کو ایمبولنس چلاتے اور ایئرپورٹس کا انتظام سنبھالتے بھی دیکھا گیا جو شاید ازخود ایک انوکھا واقعہ ہے۔

دیگر تمام سروسز کی جانب سے کی جانے والی ہڑتالیں اپنی جگہ لیکن کرسمس کے موقع پر ریلوے ورکرز کی جانب سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی ہڑتالوں نے ملک میں شدید بے چینی پیدا کی۔ کرسمس اور سردیوں کی چھٹیوں کے موقع پر جب بڑی تعداد میں نقل و حرکت ہوتی ہے، عین اس موقع پر ریلوے یونینز نے تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتالوں کا اعلان کر رکھا تھا جس سے برطانیہ بھر میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ سخت متاثر ہوا۔

اگرچہ کورونا پابندیوں کے بعد یہ پہلا کرسمس اور موسمِ سرما تھا لیکن معاشی حالات کی غیریقینی صورتحال نے لوگوں کے رہن سہن اور خرچ کرنے کی استطاعت پر واضح اثر ڈالا ہے۔ ہوش رُبا مہنگائی نے سردیوں کے موسم کو روایتی انداز سے منانے اور کرسمس شاپنگ کو بھی متاثر کیا۔

کرسمس سے پہلے صارفین سے کیے جانے والے اکثر سروے اس بات کی نشاندہی کرتے رہے کہ اس بار عوام جیب سے پاؤنڈ نکالنے پر تیار نہیں۔ شاید بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کے بعد بہت سوں کے پاس اضافی رقم موجود ہی نہیں تھی کہ وہ کرسمس کے تحائف خریدتے، اچھے کھانوں کا اہتمام کرتے، ٹکٹ والے تفریحی مقامات کا دورہ کرتے یا کرسمس کے روایتی تہوار کو اپنوں میں منانے کے لیے دیگر شہروں کا سفر کرپاتے۔

یہ صرف اخباری اطلاعات یا روایتی طور پر ہونے والے آن لائن جائزوں کی کہانی نہیں ہے۔ عمومی طور پر ہائی اسٹریٹ بزنسز سے منسلک افراد سے پوچھا جائے تو وہ بھی یہی رونا روتے نظر آتے ہیں۔ تحائف کے کاروبار سے منسلک ایک قریبی جاننے والے نے بتایا کہ کورونا کے دنوں کی کرسمس سیل بھی اس سال کرسمس کے عرصے میں ہونے والی سیل سے زیادہ تھی اور اب لوگ یا تو خود ہی کم قیمت تحائف کا پوچھتے ہیں یا پھر صاف ستھری پیکنگ والی استعمال شدہ اشیا کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس بات میں دو رائے نہیں کہ معاشی طور پر برطانوی معاشرہ ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگ محض حکومت کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنے معمولاتِ زندگی کو تبدیل کررہے ہیں اور معیارِ زندگی پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے اردگرد ہی نظر دوڑائیں تو 2، 2 کام کرنا پہلے سے ہی معمول کی بات تھی، اب بنیادی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بہت سے لوگ 3 مختلف جگہوں پر بھی کام کررہے ہیں۔

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے دانتوں کا علاج جو ان دنوں ہی شروع ہونا تھا اسے کچھ عرصے کے لیے موقوف کردیا ہے کیونکہ برطانیہ میں دانتوں کا علاج مفت نہیں اور ان کے پاس علاج کروانے کے لیے مطلوبہ رقم موجود نہیں تھی۔

اسی طرح ایک اور جاننے والے نے ’غیر ضروری‘ اخراجات میں کمی کا آغاز جم کی ماہانہ ممبرشپ فیس کینسل کرنے سے کیا۔ ایک اور صاحب سے معلوم ہوا کہ وہ غیر یقینی کی صورتحال میں اپنی فیملی کو کچھ عرصے کے لیے واپس پاکستان بھیج رہے ہیں تاکہ خود کسی چھوٹی جگہ شفٹ ہوکر ’کوسٹ آف لیونگ کرائسس‘ یا رہن سہن کے اخراجات کے بحران کا مقابلہ کرسکیں۔

یہ کہانیاں نہیں بلکہ آج کے برطانیہ کی وہ تصویر ہے جو ابھی بھی شاید ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر نظر نہ آئے لیکن یہاں رہنے والوں کی اکثریت کو ٹٹول کر دیکھی جاسکتی ہے۔ اب ہر علاقے میں نہ صرف نئے فوڈ بینکس کھل رہے ہیں بلکہ ان کے سامنے موجود قطاروں بھی طویل ہوتی جارہی ہے۔

برطانیہ بھر میں پھیلے گوردوارے جو پہلے ہی ضرورت مندوں کو خوراک کی فراہمی کا آئیکون سمجھے جاتے ہیں، ان کی سرگرمی اور ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ مقامی کمیونٹی کے واٹس ایپ اور آن لائن گروپس میں معلومات شیئر ہورہی ہوتی ہیں کہ کہاں پر کیا چیز سستی مل رہی ہے، کس جگہ اشیائے خور و نوش پر سیل لگی ہوئی ہے اور کیا کہیں پارٹ ٹائم یا ویک اینڈ پر ملازمت دستیاب ہے؟

برطانیہ کے لیے یہ غیر معمولی حالات ہیں اور موجودہ نسل نے اپنی زندگی میں ابھی تک شاید اس سے سخت وقت نہیں دیکھا۔ اس وجہ سے اس سب کا عارضی طور پر مقابلہ کرنے کے لیے انفرادی سطح کے علاوہ باہم مل کر اجتماعی طور پر بھی لوگ از خود نت نئے حل ڈھونڈ رہے ہیں۔

دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی طرح برطانیہ میں بھی ’فوڈ بینک‘ تو ایک معمول کا تصور ہے ہی لیکن موجودہ حالات میں یہاں سیکڑوں ’وارم بینک‘ بھی کھل چکے ہیں جہاں لوگ اجتماعی طور پر دن کا بیشتر حصہ گرم اور آرام دہ ماحول میں گزارتے ہیں تاکہ نہ صرف توانائی کی بچت ہو بلکہ گھریلو اخراجات میں بھی کمی کی جاسکے۔

ان ’وارم بینک‘ میں سے بیشتر انفرادی چندے اور لوکل بزنسز کی مدد سے چل رہے ہیں جہاں بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کے لیے سرگرمیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ بہت سے کمیونٹی سینٹرز میں مقامی فلاحی تنظیموں کی جانب سے کھانے کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب اخباروں، آن لائن نیوز سائٹس اور ریڈیو پر مسلسل ایسا مواد فراہم کیا جارہا ہے جس میں لوگوں کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ وہ کم پیسوں میں کیسے گزارا کرسکتے ہیں۔ ایندھن کے استعمال کے بغیر گھر کا درجہ حرارت کس طرح زیادہ رکھا جاسکتا ہے، ایسے کون سے پکوان ہیں جو انتہائی کم قیمت میں تیار کیے جاسکتے ہیں اور کچھ عرصے تک کیسے انتہائی کم پیسے خرچ کرکے ’سروائیو‘ کیا جاسکتا ہے۔

لیکن اس سب نے ایک اور بحث کو بھی جنم دیا ہے اور ایک طبقہ ایسی کاوشوں کو بُرے حالات اور بُرے معیارِ زندگی کو نارملائز کرنے کی کوشش قرار دے کر اس کی مذمت کررہا ہے۔ ان ’ٹوٹکوں‘ کو معیارِ زندگی پر سمجھوتا سمجھا جارہا ہے اور حکومت و انتظامیہ پر زور دیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو مشکل حالات میں متبادل طریقے اپنانا سکھانے کے بجائے ان حالات کا مستقل حل پیش کیا جائے۔

ایسا نہیں ہے کہ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دہرے بیٹھی ہے اور چپ چاپ ملک کو مسلسل کھائی کی جانب جاتا دیکھ رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے گاہے بگاہے مختلف معاشی منصوبے سامنے لائے گئے ہیں۔ بجلی و گیس صارفین کے لیے کچھ اسکیموں کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ روزمرہ اخراجات میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف گرانٹ بھی فراہم کی جارہی ہیں اور کسادبازاری سے نکلنے کا روڈ میپ بھی مہیا کیا جارہا ہے۔ لیکن یہ سب اقدامات بھی ملک کے بہت بڑے طبقے کی زندگی میں فوری ریلیف دینے سے قاصر رہے۔ لہٰذا ورکنگ کلاس حکومتی اقدامات سے متفق نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سردیوں کے موسم میں لوگوں کی بڑی تعداد کو ہیٹنگ کا استعمال محدود کرنا پڑ رہا ہے اور بہت سے لوگوں کو ایندھن اور خوراک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔

برطانیہ میں یہ تاثر بھی زور پکڑتا جارہا ہے کہ مضبوط اور دیرپا حکومت کے بغیر مہنگائی کے مسئلے پر قابو پانا ممکن نہیں۔ حال ہی میں برطانوی عوام نے ایسا بھی دیکھا کہ محض 2 ماہ کے دوران ملک میں 3 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے جو ملک میں جاری سیاسی خلفشار کا واضح ثبوت ہے۔ اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی اور تجزیہ نگاروں کی ایک معقول تعداد کے مطابق نئے قومی انتخابات کے بغیر حالات تبدیل ہوتے نظر نہیں آرہے۔

بہرحال مہنگائی میں تو پاکستان اور برطانیہ شاید ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کے مطالبے پر قومی انتخابات کروانے میں کون سا ملک سبقت لے جاتا ہے۔


لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

احمد شاہین

لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔