پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط ماننا کیوں ضروری ہیں؟
شاید چند لوگ اور ان سے بھی کم ماہرینِ معیشت ہوں گے جو آئی ایم ایف کے حوالے سے کوئی مثبت بات کریں گے۔ یہ ادارہ آزاد تجارت کی پالیسیوں اور میکرو اکنامک توازن کے لیے کام تو کرتا ہے لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی مدد حاصل کرنا کسی ملک کے لیے معاشی طور پر کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہےکیونکہ معاشی استحکام کے لیے آئی ایم ایف جو اقدامات تجویز کرتا ہے ان کی بنیاد سخت معاشی اصلاحات پر ہوتی ہے جس سے لامحالہ غریب اور متوسط طبقے کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف کی مدد اور ’لیٹر آف کانفیڈنس‘ کے بغیر اکثر ممالک پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے کیونکہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے ملنے والے قرضوں کا انحصار آئی ایم ایف سے ہری جھنڈی ملنے پر ہوتا ہے۔ اس کے بغیر عالمی مالیاتی مارکیٹ اس ملک کے لیے شرح سود میں بےتحاشہ اضافہ کردیتی ہے۔
پاکستان گزشتہ 30 سالوں میں تقریباً درجن بھر آئی ایم ایف پروگرامز میں جاچکا ہے اور ان میں سے صرف 2 ہی کامیابی کے ساتھ مکمل ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزام لگایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جبکہ ہمارے معاشی پالیسی ساز کہتے ہیں کہ ان پروگرامز کی قیمت فوائد کی نسبت بہت زیادہ تھی۔
تو آخر اب اس بات پر زور کیوں دیا جارہا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرلینا چاہیے اور تعطل کا شکار آئی ایم ایف پروگرام کا دوبارہ آغاز کرنا چاہیے؟
اس کی فوری وجوہات میں تو اگلے 6 مہینوں کے دوران آنے والا بیرونی فنانسنگ کا بہت بڑا فرق، قرضوں کی ناگزیر ادائیگی اور اس ادائیگی کے لیے تیزی سے کم ہوتے زرِمبادلہ کے ذخائر شامل ہیں اور یہ ڈیفالٹ کے خطرے کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ لیکن اس کی اصل وجہ بہت پیچیدہ اور گہری ہے۔
دو ٹوک الفاظ میں کہوں تو ترقی کے ہمارے مروجہ ماڈل کے دن پورے ہوچکے ہیں۔ ہم نے ترقی کا وہ ماڈل اختیار کیا ہوا ہے جس میں کھپت اور درآمدات پر توجہ دی جاتی ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس وقت عالمی معاشی صورتحال کے پیش نظر ہمیں امداد دینے والوں کا بھی ہاتھ تنگ ہے اور اب ہمارے پاس سودے بازی کے لیے کچھ زیادہ چیزیں نہیں ہیں۔
غفلت میں پڑے ہماری معاشی منتظمین اور سیاستدانوں کو بھی اب حقیقت کا احساس کرلینا چاہیے، آئی ایم ایف کی شرائط بھی اس تلخ حقیقت کی ہی یاددہانی ہیں۔
وہ وقت گزر چکا ہے جب آپ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بڑھا سکتے تھے اور پھر شرح مبادلہ کے ساتھ بلائنڈ مین بف کھیل کر یہ دکھاوا کرسکتے تھے کہ اصل ریٹ مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس بار ڈالر مارکیٹ سے غائب ہوچکے ہیں۔ نہ ہی آج آپ عالمی مالیاتی منڈیوں سے قرض لے سکتے ہیں کیونکہ آپ کے بین الاقوامی بانڈز ردی کے درجے تک گرچکے ہیں۔
آپ اب 10 فیصد کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کے ساتھ معیشت کو نہیں چلاسکتے، نہ ہی آپ بڑے مالیاتی خسارے کو پورا کرسکتے ہیں اور نہ ہی بجلی اور ایندھن پر سبسڈی دے کر اس امید پر گردشی قرضوں میں اضافہ کرسکتے ہیں کہ آپ کو دوست ممالک سے بیل آؤٹ پیکج مل جائے گا۔ آپ کو اس بارے میں بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ ممالک نئے قرض دینا تو دور کی بات پرانے قرضوں کو رول اوور کرنے کی درخواستوں کو بھی اب پہلے سے زیادہ نظرانداز کررہے ہیں۔
ہم اپنے نظام کی ساختی کمزوریوں اور عدم توازن پر گفتگو کرسکتے ہیں لیکن اس سے عالمی معاشی صورتحال اور آئی ایم ایف کی جانب سے معاشی اصلاحات پر زور دیے جانے کی وجہ کا احساس مزید پختہ ہوگا۔ دوسری صورت میں تو معیشت بلآخر ڈوب جائے گی۔
سیلاب کے بعد کی معاشی صورتحال کے پس منظر میں یہ مطالبہ نامناسب معلوم ہوتا ہے لیکن قلیل مدت میں بہت کم چیزیں ہی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ وسط اور طویل مدت میں تو ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
لیکن آئی ایم ایف کے علاوہ بھی ہمیں اپنے بل بوتے پر ترقی کرنے کا کوئی منصوبہ بنانا ہوگا۔ اس حکمتِ عملی میں سب سے مشکل کام زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے سے متعلق ہوگا جو بیرونی معاشی اثرات سے ہمیں بچاسکتا ہے اور ماضی میں یہ ہمارے لیے مشکلات کا باعث بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنی درآمدات میں بھی کمی لانی ہوگی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری مقامی مارکیٹ بہت زیادہ منافع کماتی ہے اور مراعات کا موجودہ نظام برآمدات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کا اصلاحاتی پیکج ٹیرف کو کم کرنے اور خام مال کی درآمدات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے برآمدات پر مبنی ترقی کی بات کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اس طرح درآمدی بل میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں ترقی کے نئے راستوں کو کھولنے کی ضرورت ہے جو علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہوں (اعلیٰ تعلیم میں ہماری بڑی سرمایہ کاری کے پیش نظر جس کا اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا) آئی ٹی برآمدات میں حالیہ اضافہ اس کی ایک اچھی مثال ہے۔
ترقی کی نئی حکمتِ عملی میں زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بھی جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شعبے میں منافع سب سے زیادہ ہوگا اور یہ ہمیں خوراک میں خود کفیل بھی بنائے گا۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ اس وقت آئی ایم ایف کی تجاویز مان کر ڈیفالٹ سے بچنے اور خود تیار کی گئی حکمتِ عملی کی بنیاد پر معاشی اصلاحات لانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس کے بعد ہم آئی ایم ایف سے جان چھڑا سکیں گے۔
یہ مضمون یکم جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
راشد امجد لاہور اسکول آف اکنامکس سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سابق وائس چانسلر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔