پاکستان

شہر قائد پر بدنما داغ، سال 2022 میں 513 خواتین ریپ کا شکار

سال 2022 میں 3 ہزار سے زائد خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنیں، ڈکیتی مزاحمت سمیت مختلف واقعات میں تقریباً 1300 افراد جان کی بازی ہار گئے، رپورٹ

نوجوانوں کی ہلاکت، عورتوں کے ریپ، معصوم بچوں کے قتل جیسے گھناؤنے جرائم اور واقعات کراچی کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہیں جہاں سال 2022 کے دوران خواتین کے ساتھ واقعات میں اضافہ دیکھا گیا اور 500 سے زائد خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جب ملک میں شرم ناک اور انسانیت سوز واقعات کی بات کی جائے تو سال 2022 کراچی کے لیے انتہائی دردناک اور لرزہ خیز ثابت ہوا، گزشتہ 12 ماہ کے دوران 500 سے زائد خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ حیران کُن اعدادوشمار کراچی کے تین بڑے ہسپتالوں کے میڈیکو لیگل آفیسرز کی جانب سے مرتب کیے گئے، ان تین ہسپتالوں میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، ڈاکٹر رُتھ فاؤ سول ہسپتال اور عباسی شہید ہسپتال شامل ہیں۔

پولیس سرجن افسران کی جانب سے مرتب کردہ اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں ریپ اور قتل کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، اس کےعلاوہ ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے پر شہریوں کو قتل کرنے کے واقعات میں بھی کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

پولیس سرجن ڈاکٹر سُمیہ سید نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 513 خواتین کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 3 ہزار 649 خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنیں ہیں جنہیں طبی معائنے کے لیے ہسپتال لایا گیا تھا۔

ریپ کیسز کے سرکاری اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ملیحہ ضیا لاری کا خیال ہے کہ اصل اعداد و شمار رپورٹ کردہ اعدادوشمار سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ اچھی بات یہ ہے کہ ریپ کے خلاف بل کے تحت سندھ بھر میں صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے مقدمات کی سماعت کے لیے 27 عدالتیں قائم کی جاچکی ہیں۔

ملیحہ ضیا لاری نے مزید بتایا کہ ان کی تنظیم کی جانب سے کیے گئے حالیہ سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے مقدمات کی سماعت کے لیے عدالتوں میں سزا کا تناسب 11 فیصد سے زیادہ ہے، اسمیں یہ بھی بتایا گیا کہ سندھ میں صرف 14 فیصد لوگ ان عدالتوں کی کارکردگی سے ’مطمئن‘ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتوں میں اس طرح کے جرائم کی سزاؤں میں بہتری آرہی ہے لیکن ہمیں احتیاطی تدابیر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘۔

تقریباً 1300 شہری قتل

پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے بتایا کہ ڈکیتی مزاحمت سمیت مختلف واقعات میں تقریباً ایک ہزار 291 افراد قتل ہوئے جنہیں کراچی کے تین بڑے ہسپتالوں میں لایا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اہل خانہ عام طور پر مقتول کا پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور قانونی و طبی کارروائی کے بغیر لاش لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے پوسٹ مارٹم کی کل تعداد مختلف وجوہات کی بناء پر واقع ہونے والی اموات کے اعداد و شمار ’گمراہ کن‘ ہیں۔

تین بڑے ہسپتال کی جانب سے جاری اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے پولیس سرجن نے بتایا کہ رواں سال 29 دسمبر تک جناح ہسپتال میں 12 ہزار 511 مختلف طبی و قانونی معائنے کے کیسز رپورٹ ہوئے۔

ان میں سے خواتین کے جنسی استحصال کے 267 کیسز اور ایک ہزار 938 گھریلو تشدد کے کیسز بھی جناح ہسپتال میں رپورٹ ہوئے، اس کے علاوہ 540 لاشوں کو لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال لایا گیا۔

عباسی شہید ہسپتال کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کُل 10 ہزار 951 میڈیکو لیگل کیسز ہسپتال میں رپورٹ ہوئے جنہیں ہسپتال لایا گیا۔

اس کے علاوہ عباسی شہید ہسپتال میں رواں سال 29 دسمبر تک خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کے 145 کیسز اور گھریلو تشدد کے ایک ہزار 318 کیسز رپورٹ ہوئے۔

اسی ہسپتال میں مختلف علاقوں سے 554 لاشوں کو لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال لایا گیا۔

دوسری جانب ڈاکٹر رُتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 6 ہزار 787 میڈیکلو لیگل کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 101 کیسزخواتین کے ریپ اور 393 کیسز گھریلو تشدد کے واقعات تھے۔

اس کے علاوہ کل 197 لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال لایا گیا جبکہ 10 لاشیں متعلقہ عدالتوں کی ہدایات/حکم پر لائی گئی تھیں۔

ڈاکٹر سمعیہ سید نے مزید بتایا کہ ٹریفک حادثات میں یہ صورتحال بہت عام تھی کہ ورثا ڈاکٹرز کو لاش کا پوسٹ مارٹم یا قانونی تقاضے پورے نہیں کرنے دیتے۔

انہوں نے بتایا کہ ’رواں سال میرے پاس ایسے کئی کیسز آئے جس میں لڑکیاں شادی کے 3 یا 6 ماہ بعد خودکشی کرلیتی ہیں ان میں 8 قتل کے واقعات تھے۔ ’

ڈاکٹرسمعیہ سید نے کہا ہم اعدادوشمار اکٹھا کرنے کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم پولیس سرجن آفس کراچی میں ریسرچ ونگ کھولنے کا ارادہ ہے۔