ترقی کا ساتواں ستون: سرکاری اداروں کی نجکاری کیوں ضروری ہے؟
جب میں نے ترقی کے 6 اہم ستون سے متعلق لکھا تب لوگوں نے نشاندہی کی کہ میں نے سرکاری اداروں کی نجکاری سمیت اہم عناصر کا ذکر نہیں کیا۔
چونکہ زیادہ تر سرکاری ادارے نقصان میں ہیں اس لیے میں نے سوچا کہ شاید میں یہ موضوع مالیاتی اور شرحِ مبادلہ کی پالیسیوں کے ستون میں کور کرچکا ہوں۔ لیکن جب میں نے غور کیا تو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ترقی کے ایک الگ ستون کی حیثیت سے مجھے نجکاری کو شامل کرنا چاہیے۔
نجکاری کی وضاحت کرنے سے پہلے یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ آخر ہمارے ملک میں موجود جیسی نااہل حکومت کو عوام میں اشیا اور خدمات کی فراہمی میں سرگرم ہونا چاہیے۔
مارکیٹس زیادہ تر اشیا اور خدمات بہتر انداز میں فراہم کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مالی فائدے یا کارکردگی چمکانے کی غرض سے بھی ان عوامی شعبہ جات میں ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ پیٹرول پمپس، ہوائی ادارے اور بینک اس کی مثالیں ہیں۔ جبکہ یہاں پاکستان میں پی ایس او، پی آئی اے اور نیشنل بینک ابھی بھی سرکاری ملکیت میں ہیں۔
اپنے مالی فائدے کے لیے بہت سی حکومتیں تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہیں۔ میں اس حوالے سے پہلے بھی بحث کرچکا ہوں کہ پاکستان میں چونکہ خراب حکمرانی معمول بن چکی ہے اس لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں رہی۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیم اور صحت میں سبسڈی دے اور خود یہ سہولیات فراہم کرنے کے بجائے انشورنس یا واؤچرز جاری کرے تاکہ عوام نجی اداروں کی خدمات حاصل کرسکیں۔
جیسے سرکاری اسکول اوسط 3 ہزار روپے فی بچہ خرچ کرتا ہے جبکہ بہتر معیار کی تعلیم فراہم کرنے والے کم قیمت نجی اسکول صرف ایک ہزار فی بچہ فیس لیتا ہے۔
کچھ ایسی خدمات بھی ہیں جو مارکیٹ مہیا کرنے میں ناکام رہتا ہے کیونکہ ممکنہ سپلائرز ان عناصر کو خارج نہیں کرسکتے جو عوام کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور اس سے ریاست کی آمدنی بھی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر امن و امان، اسٹریٹ لائٹس یا سانس لینے کے لیے بہتر ہوا، اگر لوگ اس کی قیمت ادا نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ انہیں اس بنیادی سہولیات سے محروم کردیا جائے۔
اس حوالے سے حکومت کو ہی اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ پھر چاہے وہ عوام کی براہِ راست خدمات ہوں (مثال کے طور پر پولیس، یا پھر سانس لینے کے لیے بہتر ہوا کی فراہمی پھر چاہے وہ اصولوں اور جرمانوں کے تحت ہی کیوں نہ ہو) یا پھر سرکار نجی اداروں کو اسٹریٹ لائٹس لگانے یا اس کی مرمت کا ٹھیکہ دے۔
چونکہ ہماری حکومت اتنی باصلاحیت نہیں ہے اس لیے انہیں اس معاملے میں نجی اداروں کی مدد لینی چاہیے۔ لیکن کچھ عوامی خدمات صرف حکومت ہی مہیا کرسکتی ہے جس میں دفاع، پولیس، عدالتیں وغیرہ شامل ہیں۔
نجی اداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی بعض خدمات ایسی بھی ہیں جس میں پہلے سے سرگرم بڑی فرموں کا مقابلہ نئی فرم نہیں کر پاتیں کیونکہ بڑی فرموں کو نئے صارفین کی لاگت بہت کم پڑتی ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ کراچی الیکٹرک (کے ای) جیسے بڑے ادارے کو نئے صارف کو سسٹم میں شامل کرنے کے لیے صرف ایک کھمبے سے تار کھینچ کے صارف کے گھر تک پہنچانے کی لاگت آئے گی جبکہ بجلی کے نئے تقسیم کار کو پیداواری سائٹ سے صارف کے گھر تک کنکشن لائن بچھانی پڑے گی جو شاید ہزاروں میل دُور ہو اور اتنے طویل کنکشن لائن پر بھاری لاگت الگ آئے گی۔
چونکہ چھوٹی اور نئی فرمیں مقابلہ نہیں کرپاتی اس لیے بڑی فرموں کی صارفین پر اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہوتی ہے جب حکومت کو آگے آنا ہوتا ہے۔ حکومت کو ان ریگولیٹری اداروں کو صارفین سے بجلی، گیس اور پانی کی زیادہ قیمتیں لینے سے روکنا چاہیے۔ لیکن پھر بھی یہ جواز نہیں بنتا کہ حکومت یہ خدمات خود فراہم کرے۔
1970 کی دہائی میں جب اشتراکیت کو کچھ خاص پسند نہیں کیا جاتا تھا، انگریزوں کی چند پالیسیاں ایسی تھیں جنہیں بعد میں چند لوگوں نے ’پیداواری اشتراکیت‘ کا نام دیا۔ ان پالیسیوں میں اشیا کی پیداوار اور خدمات فراہم کرنے والوں (مثلاً سرکاری ملازمین) کو تو فائدہ ہوتا تھا لیکن یہ پالیسیاں ان کے لیے مفید نہیں تھیں جو انہیں استعمال کررہے تھے (یعنیٰ عام شہری)۔
آج پاکستان اسی پیداواری اشتراکیت کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ پی آئی اے کے علاوہ پاکستان میں 4 نجی ایئر لائنز اور ہیں جو نئے طیارے اور پی آئی اے کے مقابلے میں بہتر کرائے اور سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
ان دونوں کے بیچ فرق یہ ہے کہ پی آئی اے کی وجہ سے ہمیں سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب نجی ایئر لائنز ہمیں پیسے کما کر بھی دیتی ہیں اور ٹیکس بھی ادا کرتی ہیں۔ تو پی آئی اے صرف 10 ہزار ملازمین کے مفاد کے لیے چلائی جا رہی ہے جبکہ 22 کروڑ پاکستانیوں کے مفاد کو بالکل نظرانداز کیا جارہا ہے۔
پی آئی اے کے کُل نقصانات اور سبسڈی کا حجم 635 ارب روپے ہے جبکہ اگر یہی مالیت ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر کی ہوتی تو شاید ہمارے بہت سے مسائل حل ہوسکتے تھے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ جب بھی حکومت اس ادارے کو بیچنے کے لیے کھڑی ہوتی ہے تو پی آئی اے انتظامیہ اور ملازمین، ایوی ایشن کی وزارت اور حزبِ اختلاف مل کر اس کی فروخت روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم سالانہ پی آئی اے کے نقصانات کی صورت میں جو رقم گنواتے ہیں، اس رقم سے مختلف شہروں میں ہر سال نیا آغا خان ہسپتال بنایا جاسکتا ہے۔
پی آئی اے کی طرح بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکو) بھی بدتر حالت میں ہیں۔ یہ کمپنیاں ملک کے 17 فیصد صارفین سے بجلی کے بل وصول کرنے میں ناکام ہیں۔ مزید یہ کہ وہ بجلی کی تقسیم کے دوران بھی 17 فیصد بجلی ضائع کرتے ہیں۔ تو مجموعی طور پر ہم 34 فیصد بجلی تو ضائع کردیتے ہیں یا پھر وہ چوری ہوجاتی ہے۔ یوں وہ صارفین جو بل ادا کرتے ہیں، انہیں مہنگے نرخوں پر بجلی مہیا کی جاتی ہے۔
سوئی گیس کی دونوں کمپنیاں بھی کچھ بہتر حالت میں نہیں۔ ان دونوں کو چھوٹی کمپنیوں میں تقسیم کرنے کے بعد ان کی بھی نجکاری کردینی چاہیے۔ ان دونوں کمپنیوں سے تقریباً 400 ایم سی سی ایف ڈی کی گیس مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہوئی (اسے یو ایف جی کہتے ہیں) اور وہ یہ جانتے بھی نہیں کہ اتنی گیس کا آخر ہوا کیا۔ کوئی نہیں جانتا کیا یہ گیس لیک ہوگئی یا پھر چوری ہوگئی۔
بلوچستان کو فراہم کی جانے والی آدھی سے زیادہ گیس ضائع ہوجاتی ہے۔ ان دونوں کمپنیوں سے جو گیس ضائع ہوتی ہے اس کی لاگت 20 کروڑ ڈالرز فی مہینہ ہے۔
گزشتہ کئی سالوں میں تقسیم، بلوں کی وصولی یا یو ایف جی میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ انہیں بہتر کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ان اداروں کی نجکاری کردی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مالک کا اپنا پیسہ داؤ پر لگا ہوگا تب خود بخود صورتحال میں بہتری آئے گی۔
اور یقینی طور پر صرف تقسیم کی ذمہ دار کمپنیاں ہی نہیں بلکہ ہمیں پیداواری کمپنیوں اور دیگر تمام سرکاری اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی۔
اگر ہم ان سرکاری اداروں کی نجکاری کریں گے تو ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے ریگولیٹرز کا عالمی سطح پر کیا کردار ہوگا۔ قوانین، اہلیت اور دائرہ کار کی وجہ سے ہمارے ریگولیٹری ادارے صارفین کے مفادات کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے کافی کمزور اور بیوروکریٹک ہیں۔ یہ ریوگولیٹری ادارے حکومتی نظام کا اہم حصہ ہوتے ہیں اسی لیے ہمیں ان اداروں کو مضبوط اور بہتر بنانا ہوگا۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت عدالت، تھانوں اور ایئر ٹریفک کو کنٹرول کرے۔ ہم نہیں چاہتے کہ حکومت پیٹرول پمپس، تیل کے کنویں، پورٹ، ہوائی اڈے یا ریلوے وغیرہ کے انتظامات سنبھالے۔
متعلقہ شعبہ جات میں ہمارے سرکاری ادارے سالانہ اربوں روپے کا نقصان تو کرتے ہی ہیں ساتھ اس سے کاروباری مواقع میں بھی کمی آتی ہے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کرکے نہ صرف ہم حکومت کا اثر و رسوخ ان اداروں پر سے ختم کرسکتے ہیں بلکہ یوں ہماری ٹیکس آمدنی، روزگار اور اقتصادی ترقی میں بھی اضافہ ہوگا۔
یہ مضمون 30 دسمبر کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔