پاکستان

اسلام آباد: بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے پر الیکشن کمیشن کو عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت

انتخابات کی تیاریوں پر اب تک ہونے والے اخراجات وفاقی کابینہ کے اراکین سے کیوں نہ وصول کیے جائیں، اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے پر عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت کا یہ حکم الیکشن کمیشن کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔

انتخابات ملتوی ہونے کے بعد جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل نمٹا دی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات میں تاخیر سے روکا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی (جے آئی) نے 27 دسمبر کو اسلام آباد میں انتخابات ملتوی کرنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل سردار تیمور اسلم نے معاملے کا مختصر پس منظر بتاتے ہوئے بتایا کہ اس سے قبل اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے سیکشن 6 کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت حاصل اختیارات کے استعمال میں وفاقی کابینہ نے 19 جنورہ 2015 کو یونین کونسلز کی تعداد 50 تک متعین کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

مذکورہ نوٹیفکیشن 18 مئی 2021 کو واپس لے لیا گیا تھا، 2 جون 2022 کو الیکشن کمیشن نے 50 یونین کونسلز کے سابقہ نوٹیفکیشن کی بنیاد پر انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا تھا۔

اس دوران الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کو یونین کونسلوں کی تعداد میں تبدیلی یا قانون میں ترمیم نہ کرنے کی ہدایات جاری کی جا سکتی ہیں۔

بعد ازاں مذکورہ پٹیشن کو اس آبزرویشن کے ساتھ نمٹا دیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن 101 یونین کونسلز کی حد بندی کا عمل 2015 ایکٹ کے سیکشن 7 کے تحت متعین مدت کے اندر مکمل کرے، نئی حد بندی کا عمل مکمل ہونے کے بعد یونین کونسلز کی تعداد بڑھا کر 101 کر دی گئی تھی۔

بعدازاں الیکشن کمیشن نے 31 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کدیا تھا، تاہم وفاقی کابینہ کو سمری بھیجی گئی جس میں یوسیوں کی تعداد 101 سے بڑھا کر 125 کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

مذکورہ سمری کی بنیاد پر 19 دسمبر کو یونین کونسلز کی تعداد بڑھا کر 125 کر دی گئی، ابتدائی طور پر الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی لیکن بعد میں انتخابات ملتوی کردیے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کے روبرو استدلال کیا کہ الیکشن کمیشن اپنے سابقہ وعدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، انہوں نے دلیل دی کہ الیکشن کمیشن نے 20 دسمبر کو اپنے حکم کے ذریعے ٹھوس وجوہات کی بنا پر انتخابی عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، مذکورہ آرڈر کی منظوری کے بعد کوئی نئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

دوران سماعت دلیل دی گئی کہ آئین کے آرٹیکل 75(3) کے تحت صدر کی منظوری تک کسی بھی قانون میں ترمیم کے حوالے سے مجوزہ بل کو پارلیمنٹ کا ایکٹ نہیں کہا جا سکتا، تاہم الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں مجوزہ ترامیم پر انحصار کیا ہے جنہیں تاحال قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوئی ہے۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے رجسٹرار آفس کو جواب دہندگان (الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت) کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

عدالت نے جواب دہندگان سے کہا کہ الیکشن کی تیاریوں پر اب تک ہونے والے اخراجات کیوں نہ وفاقی کابینہ کے اراکین سے وصول کیے جائیں؟

جواب دہندگان کو اس حوالے سے بھی عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کی گئی کہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کیوں نہیں کیا جانا چاہیے۔

پاکستان میں بدترین سیلاب مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کے سبب مزید تباہی کا عندیہ ہے، اقوام متحدہ

’دی بلیک ہول‘ لیب جہاں سائنس ہے سب کیلئے

روسی افواج نے یوکرین میں گولہ باری اور میزائل حملے تیز کردیے