پاکستان میں بجلی کے ٹرانسمیشن نظام کا اضافی بلوں سے کیا تعلق ہے؟
دنیا بھر میں اس وقت ایندھن کی قیمت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے سبب بجلی بھی مہنگی ہورہی ہے اور تیزی سے مہنگی ہوتی بجلی کے سبب دنیا میں ایک نئی اصطلاح توانائی کی غربت ایجاد ہوگئی ہے۔
دنیا میں اگرچہ یہ صورتحال اب پیدا ہوئی ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں بجلی کی قیمت طویل عرصے سے ایک مسئلہ رہی ہے۔ اس قیمت کی وجہ سے ہی بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے نظام میں سرمایہ کاری بھی طلب سے کم رہی ہے۔
پاکستان نے سال 2013ء میں سی پیک کا اعلان کیا تھا جس کے ساتھ ہی ملک میں بجلی کے پیداواری یونٹس لگانے کا عمل شروع ہوگیا۔ یوں بجلی کی قلت کا سامنا کرنے والے پاکستان میں بجلی کی پیداواری گنجائش طلب سے زائد ہوگئی۔
ملک میں بجلی کی پیداواری گنجائش کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سال 2018ء میں ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری گنجائش 23 ہزار 677 میگاواٹ تھی جبکہ ملک میں مجموعی طلب 26 ہزار 471 میگاواٹ تھی۔ اس طرح ملک میں 2 ہزار 975 میگاواٹ بجلی کی قلت تھی۔ مگر سال 2022ء کے اختتام پر ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 27 ہزار 748 میگاواٹ ہے جبکہ انتہائی طلب 24 ہزار 564 میگاواٹ رہ گئی ہے۔ اس طرح ملک میں 3 ہزار 184 میگاواٹ بجلی طلب سے زیادہ ہے۔
اسی طرح سال 2025ء تک ملک میں بجلی کی پیداواری گنجائش 44 ہزار 950 میگاواٹ ہوجائے گی جبکہ انتہائی طلب کا تخمینہ 32 ہزار 276 لگایا گیا ہے۔ اس طرح ملک میں 12 ہزار 674 میگاواٹ بجلی اضافی ہوگی۔
پاکستان میں بجلی کے پیداواری یونٹس اور گھروں پر بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے درمیان بجلی کی ترسیل کے نظام کو ٹرانسمیشن سسٹم کہتے ہیں۔ یہ ٹرانسمیشن سسٹم انتہائی ہائی وولٹیج کی بجلی کو پیداواری یونٹس سے اس کے لوڈ سینٹر تک فراہم کرتا ہے جہاں سے بجلی کی تقیسم کار کمپنیاں یہ بجلی صارفین کو فراہم کرتی ہیں۔ اگر بجلی کی ترسیل کا نظام معیاری نہ ہو تو وہ بھی بجلی کی قیمت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
پاکستان میں بجلی کی ترسیل یا ٹرانسمیشن کا کام نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے پاس ہے۔ اس کے تحت ہائی ٹینشن بجلی کی ترسیل کا ایسا نیٹ ورک ہے جو ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کو شمال اور جنوب کی جانب لے جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ نیٹ ورک بجلی کے پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کو اس کے استعمال کے مراکز تک پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ کے الیکٹرک کا ترسیلی نظام الگ ہے۔
این ٹی ڈی سی کا نیٹ ورک ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ این ٹی ڈی سی 550 کے وی، 220 کے وی اور 120 کے وی کی ٹرانسمیشن لائنوں اور گرڈ اسٹیشنوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس وقت این ٹی ڈی سی کے زیرِ انتظام 500 کے وی کے 17 گرڈ اسٹیشن ہیں جو 500 کے وی کی ٹرانسمیشن لائنوں سے منسلک ہیں۔ ان ٹرانسمیشن لائنوں کی لمبائی 8 ہزار 388 کلومیٹر ہے۔ اس کے علاوہ 220 کے وی کے 140 گرڈ اسٹیشن 11 ہزار 611 کلومیٹر کے ٹرانسمیشن سسٹم سے منسلک ہیں۔
مگر پاکستان میں بجلی کی پیداوار پر جس قدر توجہ دی گئی اتنی توجہ بجلی کی ترسیل یعنی بجلی گھروں سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں تک فراہمی پر نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے کہیں بجلی کی ترسیل کا نظام اوور لوڈ ہے تو کہیں گنجائش سے کم استعمال ہورہا ہے۔ دونوں وجوہات کی وجہ سے صارفین کو بجلی کے اضافی بلوں کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اسی وجہ سے نیپرا نے اپنی اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ میں این ٹی ڈی سی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ این ٹی ڈی سی زیادہ تر معاملات میں اپنے اہداف کو بروقت مکمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پاور پلانٹس کے ساتھ انٹر کنکشن کی تعمیر کے لیے منظور شدہ پی سی ون پر بار بار نظرثانی کی جاتی ہے جس سے لاگت بڑھنے کے ساتھ ساتھ بجلی کے حصول میں تاخیر بھی ہوتی ہے۔ یہ تمام کام مقرر کردہ معیارات کے مطابق مکمل کرنے ہوں گے۔ این ٹی ڈی سی نے گزشتہ 5 برسوں میں سسٹم میں سرمایہ کاری کے لیے 266 ارب روپے سے زائد رقم طلب کی جس کے مقابلے میں نیپرا سے منظوری کے بعد 210 ارب روپے سے زائد رقم سسٹم پر خرچ کرنے کی اجازت دی گئی۔
نیپرا نے مزید لکھا ہے کہ این ٹی ڈی سی اپنی منصوبہ بندی اور مستقبل کی ضروریات کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے نیپرا نے سسٹم آپریٹر کو متعدد نوٹس جاری کیے ہیں کہ وہ اپنے نظام کو جدید اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار کرے مگر ایس سی اے ڈی اے (اسکیڈا) نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے طلب کے درست تخمینے لگانے کا نظام انسانی اندازے پر ہی رہ گیا ہے۔ اس لیے سسٹم آپریٹر اسکیڈا کا نظام حاصل کرے تاکہ وہ شفاف اور درست طریقے سے طلب کا تخمینہ لگاسکے۔
نیپرا کے مطابق ملک میں بجلی کی فراہمی اور توسیع کے حوالے سے ایک پروگرام Indicative Generation Capacity Expansion Plan (IGCEP) تشکیل دیا گیا جو اپریل 2022ء میں ختم ہوگیا ہے۔ این ٹی ڈی سی نے نیپرا قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تاحال یہ پلان جمع نہیں کروایا ہے۔
کیا ٹرانسمیشن نظام میں اوپر بیان کی گئی وجوہات کی بنا پر بجلی مہنگی ہوسکتی؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے نیپرا کی رپورٹ کا مزید جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ بجلی کے ٹیرف میں 80 فیصد اخراجات بجلی کی پیداوار کے ہوتے ہیں۔ ترسیلی نظام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پہلے تیار ہونے والی سستی بجلی کو ڈیسکوز تک پہنچایا جائے اور جیسے جیسے طلب میں اضافہ ہو تو پھر مہنگی بجلی پیداواری یونٹس سے ڈیسکوز تک پہنچائی جائے۔
بجلی اگر ٹرانسمیشن سسٹم کی گنجائش سے کم یا زیادہ ہو تو اس سے بھی بجلی کی قیمت بڑھ سکتی ہے اور صارفین پر اس کا بوجھ پڑتا ہے۔ ٹرانسمیش لائنوں اور ان سے منسلک ٹرانسفارمرز اگر 80 فیصد سے زائد گنجائش پر کام کریں تو انہیں اوور لوڈ اور اگر 30 فیصد سے کم پر کام کریں تو انہیں گنجائش سے کم صلاحیت پر استعمال قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں این ٹی ڈی سی کی 500 کے وی کی 42 لائنیں اور 7 ٹرانسفارمرز 30 فیصد سے کم گنجائش پر استعمال ہورہے ہیں۔ اسی طرح 220 کے وی کے 24 ٹرانسفارمرز اور 71 لائنیں بھی گنجائش سے کم استعمال ہورہی ہیں۔ یوں ٹرانسمیشن لائنوں پر لگے آلات اور فولاد کی گنجائش سے کم استعمال کے سبب ان کی مدت ختم ہورہی ہے اور خدشہ ہے کہ یہ اپنی ڈیزائن لائف سے پہلے ہی خراب ہوجائیں۔ دوسری طرف موجودہ ٹرانسمیشن سسٹم میں سرفراز نگر، گیتی، نیو ملتان، پیر غائب، لاہور، شیخوپورہ اور دیگر ٹرانسمیشن لائنیں اوور لوڈ ہیں۔
اس کی وجہ سے سستے بجلی گھروں کی دستیابی کے باوجود وہاں سے بجلی حاصل کرنا مشکل ہورہا ہے اور صارفین کو اضافی بل ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔ یعنی صرف گزشتہ مالی سال کے دوران ٹرانسمیشن لائنوں کی اوور لوڈنگ کی وجہ سے صارفین کو اضافی 3 ارب 67 کروڑ روپے کی ادائیگی کرنا پڑی ہے کیونکہ اکنامک میریٹ آرڈر میں دستیاب سستے پلانٹس کو چلانے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
نیپرا نے این ٹی ڈی سی کو مالی سال 22ء-2021ءکے لیے 2.5 فیصد نقصانات کی اجازت دی تھی مگر اس دوران این ٹی ڈی سی کے نظام میں 2.63 فیصد کے نقصانات ہوئے جو ہدف سے 0.13 فیصد زائد ہیں۔ فیصد میں بہت معمولی نظر آنے والے یہ نقصانات حقیقت میں بہت زیادہ ہیں یعنی 3 ہزار 696 گیگا واٹ (ایک ہزار میگاواٹ مساوی ہے ایک گیگاواٹ کے) جس سے این ٹی ڈی سی کو 72 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
بجلی کی ترسیل کے معاملے میں نجی شعبے کے منصوبے بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ ملک میں لگے کوئلے کے پاور پلانٹس سے بجلی کی ترسیل کے لیے مٹیاری سے لاہور تک ایک نئی ٹیکنالوجی یعنی ڈی سی لائن کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کا نام پاک مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن کمپنی (پی ایم ایل ٹی سی) ہے۔ 886 کلومیٹر طویل 600 کے وی کی لائن 4000 میگاواٹ بجلی گزارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی تنصیب تو مکمل کرلی گئی مگر اس سے منسلک پاور پلانٹس متعدد وجوہات کی بنیاد پر تاخیر کا شکار ہوگئے ہیں۔
اس ٹرانسمیشن لائن کو 4000 کے بجائے 2800 میگاواٹ پر ٹیسٹ کرکے کمیشن کردیا گیا۔ گنجائش سے کم صلاحیت پر استعمال کی وجہ سے 49 ارب روپے کی گنجائش کی ادائیگی کرنا پڑی کیونکہ یہ اپنی گنجائش کا صرف 36 فیصد استعمال کرپا رہی ہے۔ پی ایم ایل ٹی سی کو 4.3 فیصد ترسیلی نقصانات کی اجازت دی گئی تھی مگر اس کے مقابلے میں 2.87 فیصد ترسیلی نقصانات ہوئے جو 341 گیگا واٹ ہے۔ یہ 2 ارب 72 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔
ٹرانسمیشن سسٹم کی بہتری اور تعمیراتی منصوبوں میں تاخیر کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ٹرانسمیشن لائنوں کے لیے راہداری کا حصول مشکل ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے ٹرانسمیشن لائنوں کی تعمیر میں تاخیر ہورہی ہے۔
ٹرانسمیشن لائنوں کی تعمیر میں تاخیر سے مختلف نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ٹرانسمیشن لائنوں کے تعمیراتی اخراجات میں اضافہ، تعمیراتی مدت میں تاخیر، جنریشن پلانٹس کو کمیشن کرنے اور سستی بجلی کی خریداری میں تاخیر شامل ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے مہنگے اور ریٹائر ہونے والے پاور پلانٹس کے آپریشنز میں توسیع کی جارہی ہے۔
اس کا نتیجہ مالی نقصان اور صارفین کو اضافی بلوں کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں کو ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے حق راہداری کے حوالے سے قانون سازی بہت اہم ہے۔
اس پوری صورتحال سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس طرح ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ دی گئی ویسی ہی توجہ بجلی کی ترسیل کو یقینی بنانے پر نہیں دی گئی۔ پاور پلانٹس لگاتے وقت جو زمین دی گئی وہاں سے بجلی کی ترسیل کے لیے حق راہداری کا بھی خیال نہ رکھا گیا جس کی وجہ سے ملک میں بجلی کی پیداواری گنجائش طلب سے زائد ہونے کے باوجود نئے پاور پلانٹس نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں ہوسکے ہیں۔
اس لیے اگر بجلی کی فی یونٹ لاگت کم کرنی ہے تو بجلی کی پیداوار سے زیادہ توجہ بجلی کی ترسیل کے نظام پر دینا ہوگی تاکہ نئے قائم ہونے والی بجلی کے پلانٹس اور نیشنل گرڈ کے درمیان رابطہ قائم کیا جاسکے اور مہنگے اور پرانے پاور پلانٹس کو ریٹائر کرکے ان کی جگہ نئے، جدید اور کم قیمت بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس پر انحصار کیا جاسکے۔ یوں بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کیا جاسکے گا اور ملک میں بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔