زچگی کے لیے سیزیرین یا نارمل ڈیلیوری: فیصلہ کس کا؟
وہ دونوں بحث کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ شوہر کا منہ لال بھبوکا، بیوی بھی نیلی پیلی۔
تم کیوں نہیں کرسکتیں؟ ساری دنیا کی عورتیں کرتی ہیں۔
میں نے کیا ساری دنیا کی عورتوں کے کیے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟ بیوی نے منہ سکوڑ کر کہا۔
دیکھو میں بتا رہا ہوں، امّاں بہت ناراض ہوں گی، شوہر نے ڈرانے کی کوشش کی۔
تو ایسا کرو امّاں سے کہو وہ کرلیں ایک اور۔ بیگم کچھ زیادہ ہی بولڈ تھیں۔
کیا بَک بَک کر رہی ہو؟ شوہر تاؤ کھا گیا۔
بَک بَک نہیں، حقیقت۔ میرا بچہ، میرا جسم، میری مرضی۔
دیکھو یہ بچہ میرا بھی ہے۔
(ہمیں بچپن میں دیکھا ہوا اشتہار یاد آگیا، حبیب بینک میرا بھی تو ہے)
چلو پھر تم پیدا کرلو۔
گھمسان کا رن پڑا تھا دونوں میں۔
ہمیں تو سن کر مزہ آرہا تھا لیکن پھر مداخلت کرنا ہی پڑی۔
کیا آپ دونوں بتائیں گے کہ کیا آج مجھے ڈاکٹر کے بجائے ریفری کا کردار ادا کرنا ہے؟
وہ ڈاکٹر صاحبہ، اصل میں آئے تو ہم آپ سے ہی ملنے ہیں لیکن انہیں سمجھائیے کہ یہ میرا حق ہے، بیوی چمک کر بولی۔
ڈاکٹر صاحبہ، بچے کا باپ میں ہوں سو میری بھی مرضی ہونی چاہیے نا، شوہر نے ملتجی نظر سے ہماری طرف دیکھا۔
جسم میرا ہے سو میری مرضی زیادہ اہم ہے، خاتون بولیں۔
بتائیے تو سہی کہ معاملہ کیا ہے؟ ہم نے پوچھا
دیکھیے ڈاکٹر صاحبہ، یہ بچہ نارمل ڈلیوری کے ذریعے نہیں پیدا کرنا چاہتی جبکہ میری والدہ سیزیرین کے سخت خلاف ہیں، شوہر بولا۔
ڈاکٹر صاحبہ، یہ جسم میرا ہے جس سے اس بچے کو میں نے پیدا کرنا ہے۔ اب میں نارمل کروں یا سیزیرین، یہ میری مرضی ہونی چاہیے، بیوی نے جواب دیا۔
وہ میری ماں ہیں، شوہر نے بلند آواز میں کہا۔
اور میں تمہارے بچے کی ماں ہوں، بیوی بھی گرج کر بولی۔
واہ بھئی واہ، مزا آگیا، سیر کو سوا سیر۔ ہم نے دل ہی دل میں سوچا۔
آپ کی والدہ اس مسئلے پر کیوں اعتراض کر رہی ہیں؟
جی ان کے خیال میں آج کی لڑکی بہت سہل پسند ہوگئی ہے۔ ایک دن ہسپتال گئی، پیٹ کٹوایا، بچہ نکلوایا اور دوسرے دن گھر، شوہر بولے۔ اب دیکھیے نارمل ڈلیوری تو فطرت کا حصہ ہے نا۔
اس طرح تو موت بھی فطرت کا حصہ ہے۔ پچھلے زمانے میں جب سیزیرین کی سہولت نہیں تھی، جن عورتوں کا بچہ آسانی سے پیدا نہیں ہوتا تھا، وہ مرجاتی تھیں، بیوی نے کہا۔
آہ ہا۔ اس زمانے میں بھی دُور دراز علاقوں کی رہنے والی موت کو ایسے ہی گلے لگاتی ہے۔ 21ویں صدی نے عورت پر کوئی خاص رحم نہیں کھایا، ہمارا افسردہ خیال۔
جب دنیا ترقی کرچکی ہے، سیزیرین کی سہولت موجود ہے تو میں 12، 14 گھنٹے درد میں گزار کر ویجائنا کے راستے بچہ کیوں پیدا کروں؟ بعد میں تم ہی کہو گے، سارا جسم ڈھیلا ہوگیا، زوجہ محترمہ پورے ہتھیار لے کر میدان میں اتری تھیں۔
مگر امّاں، شوہر کی سوئی ابھی بھی امّاں پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔
مجھے سمجھ نہیں آتا اگر تم لوگ اپنی امّاں سے اس قدر ڈرتے ہو تو گلے میں بیوی نامی مالا کیوں لٹکا لیتے ہو؟، وہ جھنجھلا کر بولی۔
ہمیں بے اختیار ہنسی آگئی، کسی زمانے میں ہمارا کہنا بھی یہی تھا۔ وقت نہیں بدلا تھا۔
دیکھیے آپ اپنی امّاں کو سمجھائیے۔ بچے کی ماں یہ عورت ہے، زچگی کا عمل اپنے جسم پر یہی عورت بھگتے گی، بچے کی وجہ سے جو نقصان ہوگا، چاہے نارمل ہو یا سیزیرین، درد سے اسے ہی گزرنا ہوگا، سو جس کا جسم ہے وہی فیصلہ کرے۔
دیکھیے ڈاکٹر صاحبہ میں ایک بچہ پیدا کرکے بھگت چکی ہوں، اس عذاب سے مجھے اب دوبارہ نہیں گزرنا۔ جب ہر صورت میں مجھے ہی یہ کشٹ اٹھانا ہے تو میری مرضی کہ میں اسے کیسے ہینڈل کروں؟
بالکل درست، آپ ٹھیک کہتی ہیں۔
دل ہی دل میں ہم نے اپنے آپ کو تھپکی دی۔ یہی تو کیا تھا ہم نے۔ پہلا بچہ نارمل پیدا کرکے اور اس سے ہونے والی پیچیدگیوں سے گزر کر ہمارا بھی یہی کہنا تھا کہ دنیا اِدھر کی اُدھر ہوجائے، سیزیرین ہی کروائیں گے۔ دوستوں نے سمجھایا، پروفیسر حضرات نے لیکچر دیا، گھر والوں کی تو ہمت ہی نہیں تھی کہ اس موضوع پر ہم سے بات کرتے، لیکن ہمارے ذہن میں بقول شوہر جو کیڑا گھس گیا تھا وہ کیسے نکلتا؟
خیر وہ کہانی تو بعد میں سنائیں گے آپ کو، پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے بلکہ دنیا مٹھی میں سمٹ چکی۔ سائنس نے کوٹ ادو کو لاس اینجلس سے جوڑ دیا، ایمازون کے جنگل جہلم سے دُور نہیں رہے۔ امریکا اور افریقہ کی کہانیاں اب نظر کے سامنے ہیں۔ ہوائی سفر نے کچھ بھی انہونی یا ان دیکھی نہیں رہنے دی۔ ٹمبکٹو میں رہتے ہوں یا لالہ موسیٰ میں، جو ہر قابل کے لیے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے دروازے کھل چکے۔
40 برس پہلے کسے پتہ تھا کہ ٹیسٹ ٹیوب بچہ کس چڑیا کا نام ہے؟ حمل مستعار لی گئی ماں کے رحم میں رکھا جائے گا؟ بچے کی صنف کا انتخاب بذریعہ سیکس سلیکشن ہوگی؟ ابنارمل بچے کا پہلے سے علم ہوجائے گا؟
یہ سب ہوا، سب نے تسلیم کیا اور اسے مان کر اپنی اپنی زندگی میں شامل بھی کیا۔ تب یہ کسی نے کیوں نہیں کہا کہ یہ سب فطرت کے خلاف ہے۔ ایسا صدیوں سے نہیں ہوا تو اب کیسے؟ کیوں؟
یہی وقت کا سفر ہے۔ صدیوں کے پھیر نے انسان، کائنات اور سائنس کو اس طرح سے ملایا ہے کہ اب دنیا کی کوئی بات نئی بات نہیں۔
زچگی کی سائنس نے عورتوں کی طرف بڑھتی موت کی چاپ کو روک دیا ہے۔ زچگی کی پیچیدگیوں کو اب یہ کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا کہ یہ ہوتا ہے، ایسا ہی ہوتا ہے، سب کے ساتھ ہوتا ہے۔
نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ بچہ پیدا کرنا عورت کے لیے عذاب نہیں بننا چاہیے۔ بچہ چاہے پیٹ کاٹ کر نکالا جائے یا ویجائنا کاٹ کر، اس کا فیصلہ صرف اس عورت کو کرنا چاہیے جس کا جسم اس عمل سے گزرے گا۔
ابتدا میں میڈیکل سائنس نے بھی سیزیرین کروانے کی اس وجہ کو قبول نہیں کیا۔ لیکن آج پیشنٹ ریکوئسٹ (مریض کی درخواست) کو نصابی کتابوں میں جگہ مل چکی ہے۔
پیشنٹ ریکوئسٹ کا استعمال 22 برس قبل ہم نے کیا۔ کیسے اور کیوں؟ وہ کہانی اگلی بار۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔