’دی بلیک ہول‘ لیب جہاں سائنس ہے سب کیلئے
اس وقت میں خود کو کافی انجان اور لاعلم سا محسوس کر رہا ہوں جب کہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ’دی بلیک ہول‘ کی پہلی منزل پر بچوں کی سائنس لیب میں سادہ لیکن دلچسپ تجربات کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے الیکٹرو اسکوپ جو کہ ابتدائی سائنسی ٹول ہے جس کے ذریعے سے الیکٹرک چارج کی موجودگی کا پتا لگایا جاتا ہے، کے ساتھ مصروف رہتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ لیب 12 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لیے ہے، اس لمحے میں نے اس لیب کے بارے میں مزید جاننے کے لیے خود کو اتنا ہی متجسس پایا جتنا کہ کوئی پانچویں جماعت کا طالب علم ہو سکتا ہے۔
میرے دائیں جانب دیوار پر ایک وائٹ بورڈ ریاضی کے فارمولوں سے بھرا ہوا تھا جب کہ دوسری جانب دیوار پر مختلف کیمیائی عناصر کی تحریر لٹکی ہوئی تھی، میں اپنے اردگرد کا مشاہدہ کر رہا تھا جب ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے مجھے بتایا کہ عام طور پر یہ لیب بچوں سے بھری ہوتی ہے۔
میں ’دی بلیک ہول‘ (ٹی بی ایچ) لیب کے باہر ڈاکٹر ہود بھائی سے ملا اور نہایت شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ مجھے لیب کے اندر لے گئے۔
ٹی بی ایچ، اسلام آباد میں ابن سینا روڈ کے قریب واقع ہے جس کے چاروں طرف سوویت طرز تعمیر کے اپارٹمنٹ، بلاکس اور ہاسٹلز موجود ہیں، عمارت کا بیرونی حصہ بھورے محرابوں سے آراستہ ہے جو نشاۃ ثانیہ کے فن تعمیر سے متاثر نظر آتا ہے۔
سائنس لیب کے علاوہ اس عمارت میں ایک کیفے اور لائبریری بھی ہے جہاں کتابوں اور میگزین اسٹالرز کے درمیان دیوار پر عوامی دانشور اقبال احمد کی تصویر کا فریم آویزاں ہے۔
ٹی بی ایچ میں جہاں اعلیٰ سائنسی تصورات و نظریات کو آسان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے وہیں اس کا مقصد سائنس کو معروف و مقبول بنانے کے ساتھ ساتھ موسیقی، ثقافت اور سماجی مسائل سے متعلق تبادلہ خیال اور بحث کو فروغ دینا ہے۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کہتے ہیں کہ اسکولوں میں جس طرح سے سائنس کو پڑھایا جاتا ہے، وہ طریقہ اتنا غیر دلچسپ اور تھکا دینے والا ہے کہ عام طور پر لوگوں کو اس موضوع سے دور کر دیتا ہے، ٹی بی ایچ کا مقصد اس صورتحال کو تبدیل کرنا ہے۔
جینز اور جیکٹ میں ملبوس دانشور نے آنے والے سمر کیمپ سے متعلق پمفلٹ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں سائنسی تجربات کرنے میں بچے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں اور رواں سال کے شروع میں ہمارا سمر کیمپ اسکول بھرا ہوا تھا۔
اس دوران مہمان ڈاکٹر عاقب معین کے خطاب کا وقت ہوگیا تو ہم تہہ خانے میں موجود آڈیٹوریم میں پہنچے جہاں میں پانچویں قطار میں جابیٹھا، تاکہ پورے ہال میں موجود سامعین کے ردعمل کا جائزہ لے سکوں۔
آڈیٹوریم میں سب سے پہلی چیز جس نے میری توجہ حاصل کی، وہ ہال میں موجود بلیک بورڈ پر بڑی محنت سے چاک سے بنی اور رنگین تصاویر تھیں، یہ تخلیقی شاہکار متاثر کن ہے۔
بعد ازاں اپنے تجسس کی بھوک کو مٹانے کے لیے میں عمارت میں موجود اس فنکار جناب عالم صاحب کے پاس جاپہنچا جنہوں نے بتایا کہ میں اس کام کو کوئی خاص نام نہیں دیتا، میں صرف بورڈ کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں اور جو کچھ میرے ذہن میں آتا ہے ، اس کی تصویر بناتا چلا جاتا ہوں۔
ٹی بی ایچ کی ٹیم کے رکن نیئر آفاق ان تصاویر کو شاعری کی طرح غالب کے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘۔
رواں سال مارچ میں اپنے آغاز کے بعد سے بلیک ہول نے 300 سے زیادہ مختلف ایونٹس کا انعقاد کیا ہے جب کہ اس کے بعد سے بلیک بورڈ پر بنائی جانے والی ہر تصویر آرٹ کا منفرد نمونہ ہے۔
اس وقت تک ہال کالج اور یونیورسٹی طلبہ سے بھر چکا تھا جہاں ڈاکٹر عاقب معین ’اسپیس آر اینڈ ڈی اور ’دی انٹلیکچوئل کیپیسٹی بلڈنگ لوپ‘ کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
وہ اماراتی خلائی پروگرام اور اس کے مریخ مشن کے بارے میں بات کر رہے تھے، تاہم بات چیت جلد ہی تعلیمی نظام کے سائنس پر اثرات کی جانب نکل پڑی، ڈاکٹر ہود بھائی اور مقرر کے درمیان مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ’دانشورانہ صلاحیت کی تعمیر‘ ڈگریوں سے نہیں بلکہ صرف مدلل اور تنقیدی سوچ سے ہوتی ہے۔
ڈاکٹر عاقب معین کہتے ہیں کہ ڈگری صرف آپ کو کسی مضمون سے متعلق ابتدائی معلومات اور جانکاری فراہم کرتی ہے لیکن دانشورانہ صلاحیت منطقی طرز استدلال کے استعمال سے حاصل ہوتی ہے جو چیزوں کو گہرائی سے سمجھنے، ان کی تشریح اور وضاحت پر عبور حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ڈاکٹر ہود بھائی اس کمی کا ذمہ دار مقامی تعلیمی نظام میں موجود ’روٹ لرننگ‘ کو قرار دیتے ہیں اور اس نظام کو ملک میں سائنس کی ترقی کا مخالف اور متضاد قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت کا خلائی پروگرام پاکستان کے بعد شروع ہوا لیکن اب وہ خلا میں مشن بھیج رہا ہے اور آئی ٹی کے شعبے میں بھی آگے بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر عاقئب معین نے اپنے سامعین کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات بھی مختلف نہیں ہے، اگرچہ وہ خلا میں مشن بھیج رہے ہیں جو کہ ان کے لیے قومی فخر کا باعث ہے لیکن انہوں نے بھی اپنی قومی نسل کی دانشورانہ صلاحیت کو مناسب طور پر ترقی نہیں دی۔
جیسے ہی مقررین اپنی بات مکمل کرچکے تو میں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں پڑھنے کا ارادہ رکھنے والے طالب علم داؤد سے ٹی بی ایچ سے متعلق اپنے تجربے کے بارے میں پوچھا جس پر اس نے کہا کہ میں زیادہ تر لائبریری میں بیٹھتا ہوں اور آڈیٹوریم میں ہونے والی تقریبات میں بھی شرکت کرتا ہوں، یہ لیکچرز کسی موضوع کو مکمل سمجھنے کا موقع ہیں جب کہ اس کے برعکس کتابیں صرف ایک خاکہ اور سرسری جائزہ پیش کرتی ہیں۔
کراچی میں موجود ’ٹی 2 ایف‘ اور لاہور کے کیفے ’بول‘ کی طرح یہ مقام اسلام آباد میں فکر انگیز اور پرمغز گفتگو کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔
جب میں لیب سے نکلا تو سورج غروب ہوچکا تھا، اندھیرا پھیل چکا تھا اور میں ’دی بلیک ہول‘ نام پر غور کر رہا تھا، اگرچہ اس لیب کا نام ایسے کائناتی مظاہر (بلیک ہول) پر رکھا گیا ہے جسے ’ستاروں کا قبرستان‘ کہا جاسکتا ہے، لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ یہ زمینی ٹی بی ایچ آنے والے دنوں میں روشن اذہان پیدا کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوگی۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 دسمبر 2022 کو شائع ہوا۔