سالنامہ: 2022ء میں ریلیز ہونے والی پاکستانی اور غیر ملکی فلموں کا جائزہ
پاکستان کی فلمی صنعت میں رواں برس ایک تاریخی سنگِ میل کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس سال ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ نے پاکستان میں باکس آفس پر تمام پاکستانی فلموں کے بزنس کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
اس فلم نے دنیا بھر میں بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور تاحال اس فلم کی مقبولیت کا سفر جاری ہے۔ یہ سال ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کا سال کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان سے فلمی دنیا کے معروف ترین ’آسکر ایوارڈز‘ کے لیے ایک انتہائی سطحی فلم ’جوائے لینڈ‘ کو نامزد کیا گیا ہے۔
پاکستان میں 2022ءکی ابتدا میں فلموں کی ریلیز کا معاملہ کافی سست روی کا شکار رہا۔ جنوری میں واحد پاکستانی فلم ’جاوید اقبال‘ ریلیز ہوئی جس کے ہدایت کار ابوعلیحہ ہیں۔ یہ فلم چند دن نمائش پذیر رہی، پھر تنازعات کا شکار ہوئی اور اس پر پابندی لگ گئی۔
اس فلم کی کہانی ایک سیریل کلر کی ہے جو بچوں کا جنسی استحصال کرکے ان کو قتل کرتا تھا اور آخرکار ایک دن خود ہی گرفتاری دے دیتا ہے۔ فلم پر پابندی کی بڑی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ جاوید اقبال نے خود کیوں گرفتاری دے دی، پولیس اس کو کیوں نہ ڈھونڈ سکی۔
پاکستان میں پولیس کے فرسودہ نظام کی عکاسی کرتی یہ فلم پاکستان میں تو پابندی کا شکار ہوگئی لیکن دنیا کے کئی فلم فیسٹیولز میں اس فلم نے کئی ایوارڈ اپنے نام کیے۔ اصولی طور پر اور موضوع کے اعتبار سے یہ وہ فلم ہے جسے پاکستان کی طرف سے آسکر ایوارڈ کی نامزدگی کے لیے بھیجا جانا چاہیے تھا لیکن اس کی لابنگ جوائے لینڈ جیسی نہ تھی، اس لیے اب اس فلم پر مکمل خاموشی ہے اور راوی چین لکھتا ہے۔
فروری کے مہینے میں کوئی پاکستانی فلم ریلیز نہیں ہوئی، جبکہ مارچ کے مہینے میں 3 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان میں سب سے زیادہ جس فلم کا انتظار تھا وہ ’عشرت میڈ اِن چائنہ‘ تھی۔ اس کے ہدایتکاروں میں سے ایک محب مرزا بھی تھے۔ بطور ہدایتکار یہ ان کی پہلی فلم تھی۔
اس فلم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں مگر اس فلم کو باکس آفس پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ پہلی پاکستانی فلم تھی جس کی عکس بندی چین میں ہوئی۔ اس کے علاوہ تھائی لینڈ اور پاکستان میں بھی اس کو عکس بند کیا گیا۔
اسی مہینے جو 2 دیگر فلمیں ریلیز ہوئیں ان کے نام ’تھوڑی لائف تھوڑی زندگی‘ اور ’چُھولے آسماں‘ ہیں۔ ان فلموں میں پہلی فلم کے ہدایتکار خالد قدوائی تھے اور دوسری فلم کی ہدایتکاری کے فرائض خاور ملک نے سرانجام دیے تھے۔
اپریل کا مہینہ بھی خالی رہا اور کوئی نئی پاکستانی فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ مئی کا مہینہ عیدالفطر کا تھا جس پر متعدد نئی پاکستانی فلمیں ایک ساتھ ریلیز ہوئیں۔ ان میں ہدایتکار ثاقب خان کی ’گھبرانا نہیں ہے‘، یاسر نواز کی ’چکر‘، محمد احتشام الدین کی’دم مستم’ اور وجاہت رؤف کی ’پردے میں رہنے دو‘ شامل ہیں۔
ان چاروں فلموں میں سے کامیاب ترین فلم گھبرانا نہیں ہے رہی جبکہ باقی فلمیں پاکستانی فلم بینوں کو کچھ خاص متاثر نہیں کرسکیں۔ اسی مہینے کے وسط میں ایک اور فلم ’رشتے‘ بھی ریلیز ہوئی اور بُری طرح باکس آفس پر ناکام رہی۔ اس فلم کے ہدایت کار ملک ایم نواز خان تھے۔
جون کے مہینے میں مزید 6 نئی فلمیں ریلیز ہوئیں، جن کے نام بالترتیب کچھ یوں ہیں۔ ہدایت کار ظلِ عاطف کی’کھیل’، فیاض ادریس کی’تھوڑی سیٹنگ تھوڑا پیار’، سرمد سلطان کھوسٹ کی ’کملی‘، سید عاطف علی کی ’پیچھے تو دیکھو‘، امین اقبال کی ’رہبرا‘ اور عظیم سجاد کی ’چوہدری‘ شامل ہیں۔
ان فلموں میں سے اگر کسی کو مکمل فلم کہا جائے تو وہ رومانوی فلم کملی ہے جس کو دیکھ کر فلم کے بجائے کسی پینٹنگ کا گمان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مزاحیہ فلم ’پیچھے تو دیکھو‘ نے بھی متاثر کیا اور اس کی بنیادی وجہ اس کی کہانی اور خصوصی بصری تاثرات تھے لیکن یہ فلم باکس آفس پر ناکام رہی۔
جولائی کے مہینے میں عیدالاضحی کے موقع پر 3 فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں ندیم بیگ کی ’لندن نہیں جاؤں گا‘، نبیل قریشی کی’قائدِاعظم زندہ باد’ اور عبدالخالق خان کی ’لفنگے‘ شامل ہے۔
ان میں سے پہلی 2 فلموں کے مابین مقابلے کی فضا قائم رہی اور ان دونوں کو باکس آفس پر کامیابی بھی حاصل ہوئی۔
اگست میں ایک فلم ہی ریلیز ہوئی، اس کا نام ’انتظار‘ تھا جس کی ہدایتکارہ سکینہ سموں تھیں، جو معروف اداکارہ بھی ہیں۔ یہ فلم بھی فلم بینوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکی حالانکہ یہ اپنے موضوع اور اداکاری کے اعتبار سے ایک بہتر فلم تھی۔
ماہِ ستمبر میں ایک ہی اردو فلم ریلیز ہوئی، جس کا نام ’کارما‘ تھا۔ اس کے ہدایتکار کاشان ادمانی تھے۔ یہ فلم ایکشن فلم ہونے کے باوجود باکس آفس پر ناکام رہی۔ اس کی کاسٹ بھی اچھی تھی لیکن فلم کو توجہ نہیں مل سکی۔
اکتوبر کے مہینے میں ایک عام سی تاریخ پر پاکستان کی سب سے مہنگی بننے والی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ ریلیز ہوئی اور اس نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کردیے۔
اس فلم کے ہدایتکار بلال لاشاری تھے۔ انہوں نے اس فلم کی ریلیز کے موقع پر راقم سے تفصیلی بات کی اور اس موقع پر فلم کے اداکاروں سے بھی خصوصی مکالمہ کیا جو ڈان اردو کی ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے۔ اس فلم کی مقبولیت کا سفر تاحال جاری ہے۔ یہ فلم ڈھائی سو کروڑ روپے کمانے کے ہدف سے چند قدم ہی دُور ہے۔
نومبر میں 3 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں صائم صادق کی ’جوائے لینڈ‘، شان شاہد کی ’ضرار‘ اور قاسم علی مرید کی ’ٹچ بٹن‘ شامل ہے۔ ٹچ بٹن تمام تر پروموشن کے باوجود وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی جیسی اس سے امید کی جارہی تھی۔
باکس آفس پر ’ضرار‘ نے کچھ بزنس کیا لیکن بہت زیادہ کامیابی نہ سمیٹ سکی جبکہ ’جوائے لینڈ‘ کو باکس آفس پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ فلم سال بھر کی ایک متنازع فلم ہے جس کو پاکستان کی آسکر کمیٹی کی طرف سے سینما میں فلم کو ریلیز ہوئے بغیر پاکستان کی بہترین فلم تصور کرتے ہوئے آسکر کے لیے نامزد کردیا گیا۔ بہت پاپڑ بیلنے کے بعد یہ فلم اپنی نامزدگی کے کافی دنوں بعد پاکستانی سینماؤں میں ریلیز ہوئی اور بُری طرح ناکام رہی۔
بہرحال اب یہ فلم آسکر ایوارڈز دینے والی فلم اکادمی کی طرف سے باضابطہ طور پر شارٹ لسٹ کرلی گئی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اگلے مرحلے میں یہ فلم مزید انتخاب حاصل کرپاتی ہے یا نہیں اور پھر اس کے بعد مرحلہ ہوگا فاتح فلم کا۔ ایسا لگتا ہے (اس فلم کی لابنگ دیکھتے ہوئے) کہ اس فلم کو آسکر ایوارڈ دیے جانے کا امکان ہے۔
اس فلم کے ہدایتکار اس سے پہلے بھی ایک شارٹ فلم بناچکے ہیں جس کا موضوع اس فلم کے مساوی تھا۔ شاید وہ پاکستان میں منخث فلم سازی کے بانی بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں پروپیگنڈا فلموں میں اس فلم کا شرمناک اور اصولوں سے ہٹا ہوا طور طریقہ فلم بینوں کو یاد رہے گا۔
دسمبر کے مہینے میں منیش پور کی فلم ’یارا وے‘ ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر بُری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اس کے علاوہ کوئی پاکستانی فلم اس ماہ ریلیز نہیں ہوئی البتہ ماضی قریب میں جن فلموں کا تذکرہ رہا کہ وہ رواں برس ریلیز ہونا تھیں، ان میں سرمد کھوسٹ کی ’زندگی تماشا‘، جلال رومی کی ’کہے دل جدھر‘، کاشف خان اور اسد صدیقی کی فلم ’ریکارڈ‘ شامل ہے۔
مستقبل قریب میں یعنی نئے سال کی ابتدا پر جن فلموں کی ریلیز پاکستان میں متوقع ہے، ان میں فیصل قریشی کی ’منی بیک گارنٹی‘، ابوعلیحہٰ کی ’دادل‘، نبیل قریشی کی ’فیٹ مین‘، شعیب منصور کی’آسمان بولے گا’ اور امر رسول کی ’نیلوفر‘ شامل ہیں۔
پاکستان میں رواں برس جن فلموں نے باکس آفس پر سب زیادہ کامیابیاں سمیٹیں، ان میں ’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘ کے بعد دوسرے نمبر پر ’لندن نہیں جاؤں گا‘ رہی۔ تیسرے نمبر پر ’قائدِاعظم زندہ باد‘ اور چوتھے نمبر پر ’گھبرانا نہیں ہے‘ موجود ہے۔ اس کے بعد بالترتیب ’ضرار‘، ’دم مستم‘، ’کملی‘، ’پردے میں رہنے دو‘ اور ’چکر‘ شامل ہیں جنہوں نے باکس آفس پر کمائی کی ہے۔
پاکستان میں اردو کے بعد سب سے زیادہ فلمیں پنجابی اور پشتو میں بنائی جاتی ہیں۔ سندھی اور بلوچی میں فلمیں بنانے کا فقدان ہے۔ رواں برس پنجابی کی سب سے بڑی اور عالمگیر شہرت کی حامل فلم ’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘ ہے۔ اس کے علاوہ 3 نئی پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں ’تیرے باجرے دی راکھی‘، ’گوگا لاہوریا‘ اور ’کنڈی نہ کھڑکا‘ شامل ہیں۔ اس سال چند بی گریڈ فلمیں بھی ریلیز ہوئیں جن کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔
بلوچی زبان میں پہلی بار سینما میں ریلیز ہونے والی فلم ’دودا‘ تھی جس کو محدود پیمانے پر ریلیز کیا گیا۔ اس وجہ سے یہ بہت زیادہ کامیابی نہ سمیٹ سکی۔ پشتو زبان میں 7 نمایاں فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں جن میں ’دازخمو نوحاب‘، ’کثر خان بہ نہ چیڑے‘، ’عشق یولیو نتوب دے‘، ’خانہ بدوش‘، ’غلامی نہ منم‘، ’اعلان جنگ‘ اور ’دا مرگ لو بغاڑی‘ شامل ہیں۔
پاکستان میں غیر ملکی فلموں کی ایک بڑی تعداد بھی ریلیز ہوئی، جن کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔ ان فلموں کا تعلق امریکا، برطانیہ، روس، چین، بھارت اور دیگر کئی ممالک سے ہے۔ بہت ساری پرانی فلموں کو بھی دوبارہ ریلیز کیا گیا۔
پاکستان میں ریلیز کی گئی نئی فلموں میں درجن بھر فلمیں اینیمیٹیڈ بھی ہیں جن کو تسلسل سے پورے سال ریلیز کیا جاتا رہا ہے۔ رواں سال 8 بھارتی پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں جبکہ ایک ہندی زبان میں بننے والی نیپالی فلم ’پریم گیت تھری‘ بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی۔
اس کے علاوہ انگریز ی اور دیگر یورپی و ایشیائی زبانوں میں دوبارہ ریلیز کی جانے والی فلموں کی تعداد بھی درجن بھر سے زیادہ ہے۔ ان فلموں کو ممالک کے اعتبار سے یہاں تقسیم کیا گیا ہے، اس تناظر میں قارئین ان فلموں کے بارے میں پس منظر کے حوالے سے زیادہ بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔
یہ تمام فلمیں پاکستان کے مختلف سینماؤں پر ریلیز ہوئی ہیں۔ ان میں بھارتی پنجابی فلموں میں ’پانی وچ مدھانی‘، ’قسمت ٹو‘، ’آجا میکسیکو چلیے‘، ’یار انمولے ریٹرنز‘، ’میں ویاہ نہیں کرونا تیرے نال‘، ’ماں دا لاڈلا‘، ’ہنی مون‘ اور ’بابے بھنگڑا پاؤندے نیں‘ شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ فلموں میں پاکستانی اداکاروں نے بھی کام کیا ہے۔
رواں برس پاکستان میں جو دیگر نئی غیر ملکی فلمیں ریلیز ہوئیں ان کی فہرست ممالک کے لحاظ سے درج ذیل ہے، یعنی وہ کن ممالک کی مشترکہ کاوش ہیں۔
- تھور لو اینڈ تھنڈر (Thor Love And Thunder) امریکا، آسڑیلیا
- ایلوس (Elvis) امریکا، آسڑیلیا
- بلیک لائٹ (Blacklight) امریکا، آسڑیلیا، چین
- مون فال (Moonfall) امریکا، برطانیہ، جرمنی، چین
- فنٹاسٹک بیسٹس: دی سیکرٹ آف ڈمبلڈور (Fantastic Beasts: The Secrets Of Dumbledore) امریکا، برطانیہ
- اَن چارٹڈ (Uncharted) امریکا، اسپین
- دی بَنکر گیم (The Bunker Game) فرانس، اٹلی
- ہوم کمنگ (Home Coming) چین
- ڈیتھ ہنٹ (Death Hunt) کینیڈا
- آؤٹ سورس (Outsource) متحدہ عرب امارات
امریکی فلمیں
- ایمبولینس (Ambulance)
- اوتار، دی وے آف واٹر (Avatar The Way Of Water)
- بیسٹ (Beast)
- بلیک ایڈم (Black Adam)
- بلیک پینتھر واکانڈا فور ایور (Black Panther Wakanda Forever)
- بلیک وارنٹ (Black Warrant)
- بلیٹ ٹرین (Bullet Train)
- ڈیتھ آن دی نایئل (Death On The Nile)
- ڈیوٹیشن (Devotion)
- ڈاکٹر اسٹیرنج ٹو، دی ملٹی ورس آف میڈنیس (Doctor Strange 2 In The Multiverse Of Madness)
- جراسک ورلڈ ڈومینین (Jurassic World Dominion)
- لائل لائل،کروکوڈائل (Lyle, Lyle, Crocodile)
- میموری (Memory)
- موربئیس (Morbius)
- پرے فار دی ڈیول (Prey for the Devil)
- پروجیکٹ لیجن (Project Legion)
- اسکریم (Scream)
- دی تھری ففٹی فایئو (The 355)
- دی بیڈ گائیز (The Bad Guys)
- دی بیٹ مین (The Batman)
- دی لوسٹ سٹی (The Lost City)
- دی کنٹریکٹر (The Contractor)
- دی اَن بیرایبل ویٹ آف میسَیو ٹیلنٹ (The Unbearable Weight Of Massive Talent)
- دی وومن کنگ (The Woman King)
- تھری تھاؤزنڈ ایئرز آف لونگنگ (Three Thousand Years of Longing)
- ٹاپ گن میورک (Top Gun Maverick)
پاکستانی فلمی صنعت کو بحال ہونے کے لیے 2 طرح کی کمک چاہیے، ایک تو یہ کہ پاکستان میں اردو سمیت دیگرپاکستانی زبانوں میں بھی فلمیں بنیں اور بڑی تعداد میں بنیں اور ریلیز ہوں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کی فلمیں بشمول انڈین فلمیں، پاکستان میں ریلیز ہونی چاہئیں تاکہ ہمارے ہاں سینما کی صنعت فروغ پائے، تھیٹر ہالز اور اسکرینوں کی تعداد بڑھے جس سے ملک میں روزگارکے مواقع پیدا ہوں گے، سینما کی چینز پورے ملک میں پھیلیں گی اور اس کے ثمرات پاکستانی فلم سازوں کو بھی ملیں گے، یہ طے شدہ بات ہے۔
اب دنیا کی کوئی فلم شائقین سے دُور نہیں۔ ان کے جیب میں موجود پورٹلز پر ہر فلم دیکھنے کی سہولت ہے لیکن اگر سینماؤں کو سہولیات سے آراستہ کیا جائے اور ٹکٹ مناسب داموں پر دستیاب ہوں تو فلم بین ضرور بڑی اسکرین پر اپنے پسندیدہ ممالک کے فنکاروں کی فلمیں دیکھنے آئیں گے، بس فلم کو صرف تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ صنعت کا درجہ دیں تاکہ یہ ترقی کرسکے۔
اس تناظر میں حکومتی سرپرستی کی بات صرف زبانی جمع خرچ تک رہی ہے، اگر حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو غیر ملکی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی اجازت ہی دے دے، ویسے بھی پورا پاکستان فلم پورٹلز پر یہ ساری فلمیں دیکھ ہی رہا ہے، لیکن اس اجازت کی بنیاد پر یہ فلم بین سینماؤں تک آجائیں گے، وگرنہ ہماری فلمی صنعت تو پہلے ہی آخری دموں پر ہے۔
اس تفصیل کے لیے میرے گزشتہ فلمی سالنامے پڑھ لیجیے۔ دی لیجنڈ آف مولاجٹ کی شاندار کامیابی اور مقبولیت نے اس فلمی صنعت کے مردہ تن میں ایک نئی روح پھونک دی ہے لیکن آخر اس ایک فلم کی کامیابی کتنے دن تک ہماری فلمی صنعت کو سہارا دے سکتی ہے؟ ہمیں سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے جن کی طرف متعدد بار ہم نے توجہ دلائی ہے۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔