نقطہ نظر

سال 2022ء میں کرکٹ کا منظرنامہ

انگلینڈ کا ٹی20 ورلڈ کپ اور سری لنکا کا ایشیا کپ جیتنا، انگلینڈ کا پاکستان کو پاکستان میں ٹیسٹ سیریز وائٹ واش کرنا سال 2022ء کے اہم ترین واقعات رہے۔

کرکٹ کی دنیا میں سال 2022ء گزشتہ 2 برسوں کی نسبت زیادہ ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ 2020ء اور 2021ء میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے کھیل کو بُری طرح متاثر کیا تھا۔

اس سال کرکٹ کے تینوں فارمیٹس اور خاص طور پر ٹی20 انٹرنیشنل کرکٹ میں میں غیر معمولی سرگرمیاں نظر آئیں۔ اس مختصر ترین فارمیٹ میں سال بھر کے دوران 88 ممالک کی کثیر تعداد نے حصہ لیا اور 521 میچ کھیلے گئے۔

اسی سال آسٹریلیا میں آئی سی سی مینز ٹی20 ورلڈ کپ کے 8ویں ایڈیشن کا انعقاد ہوا، جس میں 16 ٹیموں نے حصہ لیا۔ فائنل میں انگلینڈ نے پاکستان کو شکست دی اور دوسری مرتبہ ٹی20 چیمپئین بنا جبکہ 2019ء کے ایک روزہ ورلڈ کپ کا ٹائٹل بھی اسی کے پاس ہے۔ اس طرح وہ کرکٹ کی تاریخ میں دونوں مختصر فارمیٹس میں ایک ساتھ چیمپیئن رہنے والا واحد ملک بن گیا۔

ایشیا کپ بھی اسی سال متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوا جس میں 8 ٹیموں نے حصہ لیا۔ دبئی میں کھیلے گئے فائنل میں سری لنکا نے پاکستان کو ہرا کر چھٹی مرتبہ ایشیائی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ٹی20 ورلڈ کپ اور ایشیا کپ، دونوں کے فائنل میں پہنچا مگر دونوں بار ٹائٹل نہ جیت سکا جبکہ اس فارمیٹ میں اس کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔

ایک روزہ کرکٹ میں بھی اس کا ریکارڈ بہترین رہا اور سال بھر کے دوران اسے صرف ایک میچ میں شکست ہوئی۔ تاہم ٹیسٹ کرکٹ میں اس کی کارکردگی بے حد خراب رہی۔ پاکستان نے پورے سال کے دوران 9 ٹیسٹ کھیلے اور صرف ایک ہی میچ جیت سکا۔ اس نے ہوم گراونڈ پر 3 ٹیسٹ میچوں کی 2 سیریز کھیلیں اور دونوں ہی میں شکست کھائی۔ مارچ میں آسٹریلیا کے ہاتھوں 0-1 سے شکست ہوئی اور دسمبر میں انگلینڈ نے تینوں ٹیسٹ ہرا کر پہلی بار پاکستان کو کلین سوئپ سے دوچار کیا۔

پاکستان اپنی 70 سالہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ہوم گراؤنڈ پر کسی بھی ٹیم سے ٹیسٹ سیریز کے تمام میچ نہیں ہارا تھا جبکہ وہ اپنی سرزمین پر آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ اور بنگلا دیش کی ٹیموں کو ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ سے دوچار کرچکا ہے۔ اسی طرح قومی ٹیم نے انگلینڈ کو بھی 12ء-2011ء میں متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی 3 میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کیا تھا اور یہ بھی اس کی ہوم سیریز تھی۔ تاہم انگلینڈ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو اسی کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کیا ہے۔

رواں سال 521 ٹی20 بین الاقوامی مقابلوں کے علاوہ 20 ٹیموں کے مابین 161 ایک روزہ مقابلے کھیلے گئے جبکہ ٹیسٹ میچوں کی تعداد 43 رہی جو 9 ممالک کے درمیان کھیلے گئے۔ آئی سی سی کی مکمل رکنیت رکھنے والے 3 ممالک یعنی زمبابوے، آئر لینڈ اور افغانستان نے اس سال کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلے۔ مجموعی طور پر تینوں فارمیٹس میں کھیلے جانے والے میچوں کی تعداد 725 ہے۔

ذیل میں سال 2022ء کے دوران ان تینوں فارمیٹس میں کھیل کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے


ٹیم ریکارڈز


سال 2022ء کے دوران کل 43 ٹیسٹ میچ کھیلے گئے۔ سب سے زیادہ ٹیسٹ انگلینڈ نے کھیلے جن کی تعداد 15 تھی اور سب سے زیادہ فتوحات بھی اسی نے حاصل کیں جن کی تعداد 9 تھی۔ تاہم سب سے زیادہ مرتبہ شکست کی ہزیمت اٹھا نے والا ملک بنگلادیش رہا جو 9 میں سے 7 میچ ہارا۔

اس سال صرف 6 ٹیسٹ میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے جبکہ 37 میچ فیصلہ کن ثابت ہوئے جو حیرت کا باعث ہے۔ شاید یہ ٹیسٹ کرکٹ پر محدود اوورز کے کھیل کے اثرات ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب 5 دن گزر جانے کے باوجود ٹیسٹ میچوں میں ہار جیت کا فیصلہ نہیں ہوپاتا تھا مگر اب تیز ہوتی کرکٹ کی وجہ سے 5 روزہ میچ بھی ’4 دن کی زندگی‘ لگتے ہیں۔

اس سال 43 میں سے صرف 22 میچوں نے مقررہ 5 روزہ دورانیہ مکمل کیا جبکہ 12 ٹیسٹ 4 دن اور 8 ٹیسٹ 3 دن ہی میں اختتام کو پہنچ گئے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایک ٹیسٹ میچ کا تو صرف 2 دن ہی میں فیصلہ ہوگیا۔ یہ میچ حال ہی میں برسبین میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلا گیا جو میزبان ٹیم آسٹریلیا نے 6 وکٹوں سے جیتا۔

اس سال مختلف ممالک کے درمیان 18 ٹیسٹ سیریز کھیلی گئیں۔ ان میں 5 میچوں پر مشتمل 2، 3 ٹیسٹ پر مشتمل 6 اور 2 ٹیسٹ کی 10 سیریز شامل تھیں۔ ان میں سے صرف 5 سیریز ڈرا ہوئیں جبکہ 13 فیصلہ کن ثابت ہوئیں۔ 7 سیریز کا نتیجہ وائٹ واش کی صورت میں نکلا۔ ان میں سے 2 ٹیسٹ سیریز 3 میچوں پر مشتمل تھیں اور یہ دونوں انگلینڈ نے 0-3 سے جیتیں۔ ان میں سے ایک سیریز اپنے ہوم گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف اور دوسری پاکستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین پر کھیلی گئی تھی۔

دیگر 5 سیریز، جو 2 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل تھیں، ان میں جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز اور بھارت نے بنگلادیش، بھارت نے سری لنکا اور آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کلین سوئپ کیا۔ پاکستان کی طرح بنگلا دیش کو بھی اپنے ہوم گراونڈ پر وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان نے اس سال جو واحد ٹیسٹ جیتا وہ بھی ہوم گراؤنڈ پر نہیں بلکہ بیرونِ ملک کھیلا گیا تھا۔ یہ میچ اس نے سری لنکا کے خلاف گال میں 4 وکٹوں سےجیتا۔

سال 2022ء میں میچ میں سب سے بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنے والا ملک نیوزی لینڈ ہے، جس نے جنوبی افریقہ کو کرائسٹ چرچ میں ایک اننگ اور 276 رنز سے شکست دی۔ رنز کے لحاظ سے سب سے بڑی کامیابی 419 رنز کی تھی جو آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ایڈیلیڈ میں حاصل کی جبکہ وکٹوں کے لحاظ سے سب سے بڑی جیت 10 وکٹوں کی تھی جو 3 ملکوں نے 4 مرتبہ حاصل کی۔ ویسٹ انڈیز نے پہلی مرتبہ انگلینڈ کے خلاف سینٹ جارجز اور دوسری دفعہ بنگلادیش کے خلاف گراس آئی لینڈ میں 10 وکٹوں سے فتح حاصل کی، جبکہ سری لنکا نے بنگلادیش کو میرپور میں اور آسٹریلیا نے سری لنکا کو گال میں 10 وکٹوں سے ہرایا۔

سب سے کم رنز سے کامیابی انگلینڈ نے حاصل کی جب اس نے پاکستان کو ملتان میں 26 رنز سے شکست دی اور سب سے کم وکٹوں سے فتح پاکستان نے حاصل کی جب اس نے سری لنکا کو گال میں 4 وکٹوں سے زیر کیا۔ یہ پورے سال میں پاکستان کی واحد کامیابی تھی۔

اس سال ٹیسٹ اننگز میں سب سے زیادہ اسکور انگلینڈ نے کیا جب اس نے پاکستان کے خلاف راولپنڈی میں 657 رنز بنائے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے خلاف انگلینڈ کا سب سے بڑا اسکور ہے۔ انگلینڈ کے بعد صرف نیوزی لینڈ نے 600 یا زائد رنز اسکور کiے۔ اس نے بھی یہ اسکور پاکستان ہی کے خلاف کیا جب اس نے کراچی میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 612 رنز بناکر اننگز ڈیکلیئر کردی۔ پاکستان کا سب سے بڑا اسکور 579 رنز تھا جو اس نے راولپنڈی میں انگلینڈ کے خلاف کیا۔ اننگز میں سب سے کم اسکور 53 رنز تھا جو بنگلادیش نے جنوبی افریقہ کے خلاف ڈربن میں کیا۔ پاکستان کا کم سے کم اسکور 148 رنز آسٹریلیا کے خلاف کراچی میں تھا۔


انفرادی ریکارڈز


سال بھر کے دوران سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز پاکستان کے بابر اعظم ہیں جنہوں نے 9 ٹیسٹ کھیل کر 69.64 کی اوسط سے 1184 رنز بنائے۔ اس کے علاوہ 3 مزید بلے بازوں نے بھی ایک ہزار یا زائد رنز اسکور کیے۔ انگلینڈ کے جو روٹ نے 15 میچوں میں 1098، آسٹریلیا کے عثمان خواجہ نے 11 میچوں میں 1080 اور انگلینڈ کے جونی بیرسٹو نے 10 میچ کھیل کر 1061 رنز بنائے۔

سب سے بڑی اننگ نیوزی لینڈ کے ٹام لیتھم نے کھیلی۔ انہوں نے اس سال کے اوائل میں بنگلادیش کے خلاف کرائسٹ چرچ میں 252 رنز بنائے۔ ان کے علاوہ مزید 5 بلے بازوں نے بھی ڈبل سنچریاں اسکور کیں۔ ان میں سری لنکا کے دنیش چندی مل نے ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے 206 رنز، آسٹریلیا کے مارکس لبوشین نے 204 رنز، اسٹیو اسمتھ نے ناقابلِ شکست رہتے ہوئے 200 رنز، ڈیوڈ وارنر نے 200 اور نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن نے ناقابل شکست رہتے ہوئے 200 بنائے۔ پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ انفرادی اسکور بابر اعظم نے کیا۔ انہوں نے کراچی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے ہوئے 196 رنز بنائے۔

سال بھر کے دوران مختلف ٹیموں کی جانب سے مجموعی طور پر 87 انفرادی سنچریاں اسکور کی گئیں جن میں مندرجہ بالا 6 ڈبل سنچریاں بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے بلے باز جونی بیرسٹو ہیں جنہوں نے 6 سنچریاں اسکور کیں۔ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ سنچریاں بابر اعظم نے بنائیں جن کی تعداد 4 ہے تاہم تمام ٹیموں کے کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ 50 یا زائد رنز کی اننگز کھیلنے والے بلے باز بھی بابر اعظم ہیں۔ انہوں نے ایسی 11 اننگز کھیلیں جن میں 4 سنچریاں اور 7 نصف سنچریاں شامل ہیں۔

2022ء میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر ویسٹ انڈیز کے کاگیسو ربادا اور آسٹریلیا کے ناتھن لیان ہیں۔ دونوں نے 47 وکٹیں حاصل کیں۔ ربادا نے 9 ٹیسٹ میں 22.25 کی اوسط سے اور لیان نے 11 میچوں میں 29.06 کی اوسط سے۔ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ وکٹیں نو آموز اسپنر ابرار احمد نے لحاصل کیں۔ انہوں نے صرف 3 ٹیسٹ کھیل کر 30 کی اوسط سے 23 وکٹیں حاصل کیں۔

اننگ میں بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ نیوزی لینڈ کے میٹ ہنری نے کیا۔ انہوں نے کرائسٹ چرچ میں جنوبی افریقہ کے خلاف صرف 23 رنز کے عوض 7 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ جبکہ میچ میں بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ سری لنکا کے پرباتھ جے سوریا نے کیا۔ انہوں نے گال میں آسٹریلیا کے خلاف 177 رنز دے کر 12 وکٹیں حاصل کیں۔

سب سے زیادہ مرتبہ اننگ میں 5 یا زائد وکٹیں لینے والے باؤلر بھی یہی ہیں۔ انہوں نے صرف 3 ٹیسٹ کھیل کر 4 مرتبہ یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک مرتبہ میچ میں 10 یا زائد وکٹیں لینے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔ یہ کارنامہ 3 اور باؤلرز نے بھی انجام دیا، جن میں سری لنکا ہی کے اسیتھا فرنانڈو، انگلینڈ کے جیک لیچ اور پاکستان کے ابرار احمد شامل ہیں۔ ابرار نے اننگ میں 5 یا زائد اور میچ میں 10 یا زائد وکٹیں لینے کے کارنامے اپنے کیریئر کے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں انجام دیے۔ انہوں نے اپنا ڈیبیو ملتان میں انگلینڈ کے خلاف کھیل کر کیا اور پہلی اننگ میں 114 رنز دے کر 7 اور میچ میں 234 رنز کے عوض 11 وکٹیں حاصل کیں۔

اس سال وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ شکار کرنے والے وکٹ کیپر جنوبی افریقہ کے کائیل ورینے ہیں جنہوں نے 11 میچ کھیل کر 39 شکار کیے۔ ان میں 36 کیچ اور 3 اسٹمپ شامل ہیں۔ پاکستان کی جانب سے محمد رضوان نے 8 ٹیسٹ میں 18 کیچ پکڑے ہیں۔ اننگ میں سب سے زیادہ کیچ لینے والے فیلڈر زیک کرالی کا تعلق بھی انگلینڈ سے ہی ہے۔ انہوں نے 15میچ کھیل کر 22 کیچ لیے۔ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ کیچ لینے والے فیلڈر بابر اعظم رہے۔ انہوں نے سب سے زیادہ 9 ٹیسٹ کھیل کر 7 کیچ پکڑے۔

سال بھر کے دوران کُل 90 سنچری شراکتیں قائم ہوئیں۔ ان میں پہلی وکٹ کے لیے 15، دوسری وکٹ کے لیے 11، تیسری وکٹ کے لیے 13، چوتھی وکٹ کے لیے 13، پانچویں وکٹ کے لیے 15، چھٹی وکٹ کے لیے 17، ساتویں وکٹ کے لیے 4، آٹھویں اور نویں وکٹ کے لیے ایک ایک سنچری شراکتیں شامل ہیں۔

اس سال 3 ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ 15 ٹیسٹ میچوں میں شرکت کی۔ ان میں زیک کرالی، جو روٹ اور بین اسٹوکس شامل ہیں اور یہ تینوں ہی انگلینڈ سے تعلق رکھتے ہیں۔پاکستان کے لیے سب سے زیادہ ٹیسٹ بابر اعظم اور عبداللہ شفیق نے کھیلے۔ دونوں نے 9، 9 میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔

اس سال سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں اپنی ٹیم کی قیادت کرنے کا اعزاز جنوبی افریقہ کے ڈین ایلگر کو حاصل ہوا۔ ڈین ایلگر نے 11 میچوں میں ٹیم کی قیادت کے فرائض انجام دیے۔ پاکستان کی طرف سے بابر اعظم نے اس سال کے دوران کھیلے گئے تمام 9 ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کی قیادت کی۔

آئی سی سی کی جانب سے 20 دسمبر کو جاری ہونے والی ٹیسٹ ٹیم رینکنگ کے مطابق آسٹریلیا کی پوزیشن پہلی، بھارت کی دوسری اور انگلینڈ کی تیسری ہے، جبکہ چوتھے نمبر پر جنوبی افریقہ، پانچویں پر نیوزی لینڈ اور چھٹے پر سری لنکا ہے۔ پاکستان کی رینکنگ ساتویں ہے۔ اس لحاظ سے اگلے سال پاکستان کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ جیتنے کے امکانات معدوم ہوچکے پیں۔ پاکستان کے بعد آٹھویں، نویں اور 10ویں پوزیشن پر بالترتیب ویسٹ انڈیز، بنگلادیش اور زمبابوے براجمان ہیں۔


ٹیم ریکارڈز


جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے، سال 2022ء میں کُل 161 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے کھیلے گئے، جن میں 20 ٹیموں نے حصہ لیا۔ سب سے زیادہ میچ بھارت نے کھیلے جن کی تعداد 24 ہے۔ اسے 14 میچوں میں کامیابی اور 8 میں ناکامی ملی جبکہ 2 میچ بے نتیجہ رہے۔ سب سے زیادہ میچ جیتنے والا ملک اسکاٹ لینڈ ہے جس نے 15 فتوحات حاصل کیں اور 6 میں ناکام رہا۔ پاکستان نے اگرچہ صرف 9 ایک روزہ مقابلے کھیلے مگر سب سے زیادہ کامیابی کا تناسب بھی اسی کو حاصل ہوا۔ اس نے 8 میچ جیتے اور صرف ایک میچ ہارا۔ اس کی کامیابی کا تناسب 88.88 رہا۔

اننگ میں سب سے زیادہ اسکور 4 وکٹوں کے نقصان پر 498 رنز ہے جو انگلینڈ نے 17 جون کو ایمسٹلوین میں ہالینڈ کے خلاف کیا۔ پاکستان کا سب سے زیادہ اسکور چار وکٹوں پر 349 ہے، جو اس نے 31 مارچ کو لاہور میں آسٹریلیا کے خلاف کیا۔ سب سے کم اسکور 70 رنز تھا جو زمبابوے نے سری لنکا کے خلاف 21 جنوری کو پالی کیلے میں کیا۔

سال 2022ء کے دوران فتح رنز کے لحاظ سے سب سے بڑی 232 رنز کی ہے جو انگلینڈ نے ہالینڈ کے خلاف 17 جون کو ایمستلوین میں حاصل کی جبکہ وکٹوں کے لحاظ سے سب سے سب سے بڑی کامیابی 10 وکٹوں کی ہے جو بھارت نے 2 مرتبہ حاصل کی، ایک بار انگلینڈ کے خلاف 12 جولائی کو اوول میں اور دوسری دفعہ زمبابوے کے خلاف 18 اگست کو ہرارے میں۔ پاکستان نے رنز کے لحاظ سے سب سے بڑی فتح 120 رنز سے ویسٹ انڈیز کے خلاف 10 جون کو ملتان میں اور وکٹوں کے لحاظ سے سب سے بڑی کامیابی آسٹریلیا کے خلاف 9 وکٹوں سے 2 اپریل کو لاہور میں حاصل کی۔

رنز کے لحاظ سے سب سے چھوٹی کامیابی صرف ایک رن کی تھی جو نیوزی لینڈ نے آئرلینڈ کے خلاف ڈبلن میں 15 جولائی کو حاصل کی جبکہ وکٹوں کے لحاظ سے سب سے چھوٹی فتح صرف ایک وکٹ کی تھی جو 3 مرتبہ دیکھنے میں آئی۔ ایک مرتبہ نیوزی لینڈ نے آئرلینڈ کو ڈبلن میں 10 جولائی کو، دوسری بار امریکا نے متحدہ عرب امارات کو ابردین میں 11 اگست کو اور تیسری دفعہ بنگلادیش نے بھارت کو میرپور میں 4 جولائی کو ہرایا۔ پاکستان کی رنز کے لحاظ سے سب سے چھوٹی کامیابی 9 رنز سے تھی جب اس نے ہالینڈ کو راٹرڈیم میں 21 اگست کو شکست دی اور وکٹوں کے لحاظ سے سب سے چھوٹی فتح 5 وکٹوں سے تھی جب اس نے ویسٹ انڈیز کو ملتان میں 8 جون کو ہرایا۔


انفرادی ریکارڈز


سال 2022ء کے دوران ایک روزہ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز نمیبیا کے گرہارڈ اراسمس رہے جنہوں نے 21 میچوں میں 56.23 کی اوسط سے 956 رنز بنائے۔ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز بابر اعظم نے اسکور کیے۔ انہوں نے 9 میچوں میں 84.87 کی اوسط سے 679 رنز بنائے۔

سب سے بڑی اننگ بھارت کے ایشان کشن نے کھیلی۔ انہوں نے 10 دسمبر کو چٹوگرام میں بنگلادیش کے خلاف 210 رنز بنائے۔ یہ اس طرز کی کرکٹ میں اس سال کی واحد ڈبل سنچری تھی۔ پاکستان کی جانب سے سب سے بڑی انفرادی اننگ بابر اعظم نے کھیلی۔ انہوں نے 31 مارچ کو لاہور میں آسٹریلیا کے خلاف 114 رنز بنائے۔

اس سال سب سے زیادہ انفرادی سنچریاں 3 تھیں، جو 4 بلے بازوں نے اسکور کیں۔ ان میں افغانستان کے ابراہیم زادران، پاکستان کے بابر اعظم، زمبابوے کے سکندر رضا اور ویسٹ انڈیز کے ایس ڈی ہوپ تھے۔ 50 یا زائد رنز کی سب سے زیادہ اننگز کھیلنے والے بیٹر بھی نمیبیا کے گرہارڈ اراسمس ہی ہیں۔ انہوں نے 9 اننگز کھیلیں جن میں ایک سنچری اور 8 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ پاکستان کی طرف سے بابر نے 50 یا زائد رنز کی 8 اننگز کھلیں۔ ان میں 3 سنچریاں اور 5 نصف سنچریاں شامل تھیں۔

رواں سال کے دوران مختلف ٹیموں کی جانب سے مجموعی طور پر 81 سنچریاں اسکور کی گئیں۔ سب سے زیادہ انفرادی سنچریاں نیوزی لینڈ کے بلے بازوں نے بنائیں جن کی تعداد 8 تھی۔ اس دوران پاکستانی بلے بازوں نے 6 سنچریاں اسکور کیں۔

پورے سال کے دوران سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر عمان کے بلال خان تھے جنہوں نے 16 میچوں میں 16.86 کی اوسط سے 43 وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کی طرف سے حارث رؤف نے 7 میچوں میں 15 اور محمد وسیم نے 8 میچوں میں اتنی ہی وکٹیں لیں۔

اننگ میں بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ بھارت کے جسپریت بمرا نے کیا۔ انہوں نے 12 جولائی کو اوول میں انگلینڈ کے خلاف صرف 19 رنز کے عوض 6 وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کی جانب سے نسیم شاہ نے 21 اگست کو روٹرڈیم میں ہالینڈ کے خلاف 33 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔

مجموعی طور پر 95 باؤلروں نے سال 2022ء کے دوران اننگ میں 4 یا زائد وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا۔ سب سے زیادہ مرتبہ یہ کارنامہ انجام دینے والے باؤلر آسٹریلیا کے ایڈم زمپا اور عمان کے بلال خان تھے۔ انہوں نے 4 بار یہ کارنامہ انجام دیا۔

وکٹوں کے پیچھے سے سب سے زیادہ شکار کرنے والے وکٹ کیپر اسکاٹ لینڈ کے میتھو کراس تھے جنہوں نے 21 میچوں میں 30 شکار کیے۔ ان میں 27 کیچ اور 3 اسٹمپ شامل ہیں۔ جبکہ سب سے زیادہ کیچ پکڑنے والے فیلڈر بھی اسکاٹ لینڈ ہی کے کالم میکلوڈ ہیں جنہوں نے 16میچ کھیل کر 21 کیچ پکڑے۔

سال بھر میں کُل 118 سنچری شراکتیں قائم ہوئیں۔ ان میں پہلی وکٹ کی 24، دوسری کی 29، تیسری کی 22، چوتھی کی 25، پانچویں کی 8، چھٹی کی 4، ساتویں کی 3، آٹھویں کی 2 اور نویں وکٹ کی ایک شراکت شامل ہے۔

رواں سال سب سے زیادہ ایک روزہ میچ بھارت کے شیکھر دھون نے کھیلے جن کی تعداد 22 ہے۔ پاکستان کی طرف سے 2022ء میں سب سے زیادہ میچ کھیلنے والے کھلاڑی بابر اعظم، فخر زمان اور خوش دل شاہ ہیں جنہوں نے 8، 8 میچ کھیلے۔ سب سے زیادہ میچوں میں ٹیم کی قیادت کرنے والے کھلاڑی گرہارڈ اراسمس ہیں جو 21 میچوں میں نمیبیا کے کپتان رہے۔

آئی سی سی کی نئی رینکنگ کے مطابق ایک روزہ کرکٹ میں اس وقت نیوزی لینڈ سرِفہرست ہے۔ اس کے علاوہ انگلینڈ دوسرے، آسٹریلیا تیسرے اور بھارت چوتھے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کو پانچویں پوزیشن حاصل ہے۔ اس کے بعد بالترتیب جنوبی افریقہ، بنگلادیش، سری لنکا، افغانستان اور ویسٹ انڈیز بھی 10 بہترین ٹیموں میں شامل ہیں۔


ٹیم ریکارڈز


اس سال کرکٹ کے مختصر ترین فارمیٹ میں 88 ٹیموں نے 521 میچ کھیلے۔ سب سے زیادہ میچ کھیلنے والا ملک بھارت رہا جس نے 40 ٹی20 میچ کھیلے جبکہ دیگر ممالک اس سے بہت پیچھے رہے۔ انگلینڈ اور آئرلینڈ 27 میچ کھیل کر دوسرے نمبر پر رہے۔ تیسرے نمبر پر پاکستان اور تنزانیہ ہیں جنہوں نے 26 میچ کھیلے۔

رواں سال ٹی20 کرکٹ میں سب سے زیادہ فتوحات بھی بھارت ہی نے حاصل کیں جن کی تعداد 30 تھی مگر اسے 10 میچوں میں شکست بھی کھانا پڑی۔ بھارت کی کامیابی کا تناسب 44.44 رہا جو زیادہ متاثر کن نہیں۔ پاکستان نے 14 میچ جیتے اور 12 ہارے اور اس کی کامیابی کا تناسب 53.84 رہا۔ تاہم سب سے زیادہ کامیابی کا تناسب تنزانیہ کا رہا جو 83.33 تھا۔

رواں سال ٹی20 کرکٹ میں ایک اننگ میں سب سے زیادہ اسکور کرنے والا ملک چیکو سلو واکیہ تھا جس نے 12 مئی کو مارسا میں بلغاریہ کے خلاف مقررہ 20 اوورز میں صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر 258 رنز بنائے۔ اس سال کسی بھی ٹی20 میچ میں پاکستان کا زیادہ سے زیادہ اسکور بغیر کسی نقصان کے 203 رنز تھا جو اس نے 22 ستمبر کو کراچی میں انگلینڈ کے خلاف 19.3 اوورز میں کیا۔

اننگ میں سب سے کم اسکور 30 رنز کا تھا جو 2 ممالک نے 3 مرتبہ کیا۔ تھائی لینڈ نے ملائیشیا کے خلاف بنگی میں 4 جولائی کو، مالی نے روانڈا کے خلاف کگالی میں 24 نومبر کو اور 20 نومبر کو کینیا کے خلاف یہ اسکور کیا۔ پاکستان کا سب سے کم اسکور 121 رنز تھا جو اس نے 9 ستمبر کو دبئی میں سری لنکا کے خلاف کیا۔

میچ میں رنز کے لحاظ سے سب سے بڑی فتح تنزانیہ نے حاصل کی جب اس نے 9 دسمبر کو کگالی میں کیمیرون کو 184 رنز سے شکست دی۔ وکٹوں کے لحاظ سے سب سے بڑی کامیابی 10 وکٹوں کی تھی جو مختلف ٹیموں نے 12 مرتبہ حاصل کی۔ پاکستان نے 22 ستمبر کو کراچی میں انگلینڈ کے خلاف 10 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ رنز کے لحاظ سے پاکستان کو سب سے بڑی فتح 2 ستمبر کو شارجہ میں ملی جب اس نے ہانگ کانگ کو 155 رنز سے شکست دی۔

رواں سال ٹی20 کرکٹ میں رنز کے اعتبار سے سب سے چھوٹی کامیابی ایک رن کی ہے جو مختلف ٹیموں نے 5 مواقع پر حاصل کی جبکہ وکٹوں کے لحاظ سے سب سے چھوٹی فتح ایک وکٹ کی ہے جو 4 مرتبہ مختلف ٹیموں نے حاصل کی۔ پاکستان نے بھی ایک وکٹ سے کامیابی ایک مرتبہ حاصل کی جب اس نے 7 ستمبر کو شارجہ میں افغانستان کو ہرایا۔ رنز کے لحاظ سے اس کی سب سے چھوٹی فتح 3 رنز سے تھی جو اس نے 25 ستمبر کو کراچی میں انگلینڈ کے خلاف حاصل کی۔

ٹی20 انٹرنیشنل کرکٹ میں اس سال 82 سنچری شراکتیں قائم ہوئیں۔ وکٹوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پہلی وکٹ کے لیے 29، دوسری کے لیے 12، تیسری کے لیے 20، چوتھی کے لیے 17، پانچویں کے لیے 3 اور چھٹی وکٹ کے لیے ایک سنچری شراکت قائم ہوئی۔


انفرادی ریکارڈز


اس سال ٹی20 انٹرنیشنل کرکٹ میں انفرادی طور پر سب سے زیادہ رنز بھارت کے سوریاکمار یادیو نے بنائے۔ انہوں نے 31 میچ کھیل کر 46.56 کی اوسط سے 1164 رنز اسکور کیے۔ وہ 2022ء کے کیلنڈر ایئر میں ایک ہزار یا زائد رنز بنانے والے واحد بلے باز ہیں جبکہ پاکستان کے محمد رضوان صرف 4 رنز کی کمی سے یہ کارنامہ انجام دینے سے محروم رہے۔ انہوں نے 25 میچوں میں 45.27 کی اوسط سے 996 رنز بنائے۔

سال 2022ء میں سب سے بڑی اننگ ہنگری کے ذیشان کوکی خیل نے کھیلی۔ انہوں نے 5 جون کو آسٹریا کے خلاف لوئر آسٹریا میں 137 رنز اسکور کیے۔ پاکستان کی جانب سے سب سے بڑی اننگ بابر اعظم نے کھیلی اور انہوں نے 22 ستمبر کو کراچی میں انگلینڈ کے خلاف ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے 110 بنائے۔

اس سال ٹی20 کرکٹ میں کُل 34 سنچریاں اسکور کی گئیں۔ سب سے زیادہ سنچریاں بھارتی بلے بازوں نے بنائیں جن کی تعداد 4 ہے۔ پاکستان کی طرف سے صرف ایک سنچری اسکور کی گئی اور یہ واحد سنچری بابر اعظم کی تھی۔ رواں سال ٹی20 کرکٹ میں کوئی بھی کھلاڑی 2 سے زائد سنچریاں نہیں بناسکا۔ اس سال 4 بلے بازوں نے 2، 2 سنچریاں اسکور کیں۔ ان میں بھارت کے سریا کمار یادیو، فرانس کے گستاف مکیون، سوئٹزرلینڈ کے فہیم نذیر اور چیکو سلواکیہ کے سباوون داویزی شامل ہیں۔

سال 2022ء کے دوران ٹی20 کرکٹ میں 50 یا زائد رنز کی سب سے زیادہ اننگز کھیلنے والے کھلاڑی بھارت کے سوریاکمار یادیو ہیں جنہوں نے ایسی 11 اننگز کھیلیں اور میں 2 میں سنچریاں اور 2 میں نصف سنچریاں بھی بنائیں۔ پاکستان کی طرف سے محمد رضوان نے 10 نصف سنچریاں اسکور کیں۔ سال بھر کے دوران سب سے زیادہ چھکے لگانے والے کھلاڑی بھی سوریاکمار یادیو ہی ہیں جنہوں نے 68 چھکے لگائے۔ پاکستان کی طرف سے محمد رضوان ہی نے سب سے زیادہ 22 چھکے لگائے۔

سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر تنزانیہ کے یالندے نکانیہ تھے جنہوں نے 25 میچ کھیل کر صرف 8.07 کی اوسط سے 42 وکٹیں حاصل کیں جبکہ پاکستان کی طرف سے حارث رؤف نے 23 میچوں میں 20.74 کی اوسط سے 31 وکٹیں حاصل کیں۔

اننگ میں بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ نمیبیا کے جوناتھن اسمت نے کیا جب انہوں نے 10 اپریل کو وندوھیک میں یوگانڈا کے خلاف صرف 10 رنز کے عوض 6 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے علاوہ 2 اور باؤلر جن میں ویسٹ انڈیز کے عبید مکوئے اور کینیا کے پیٹر لانگٹ شامل ہیں نے اننگز میں 6 وکٹیں لیں۔ پاکستان کی جانب سے اننگ میں بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ شاداب خان نے کیا جنہوں نے 2 ستمبر کو شارجہ میں ہانگ کانگ کے خلاف صرف 8 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ 2 اور پاکستانی باؤلرز شاہین آفریدی اور محمد وسیم نے بھی اننگ میں 4 وکٹیں حاصل کیں۔

اننگ میں 4 یا زائد وکٹیں لینے کا کارنامہ بوٹسوانا کے دھرو کمار نے 4 بار انجام دیا۔ مجموعی طور پر مختلف کھلاڑیوں کی جانب سے کُل 157 مرتبہ اننگ میں 4 یا زائد وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا گیا۔

وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ شکار کرنے والے وکٹ کیپر آئرلینڈ کے لورکن ٹکر تھے۔ انہوں نے 27 میچ کھیل کر 26 شکار کیے جن میں 23 کیچ اور 3 اسٹمپ شامل ہیں۔ سب سے زیادہ کیچ لینے والے فیلڈر بھی آئرلینڈ ہی کے مارک اڈائیر تھے جنہوں نے 27 میچوں میں 18 کیچ پکڑے۔ پاکستان کی طرف سے محمد وسیم نے 16 میچوں میں 11 کیچ پکڑے۔

رواں سال سب سے زیادہ میچ کھیلنے والے کھلاڑی بھارت کے بھونیشور کمار ہیں جنہوں نے 32 ٹی20 انٹرنیشنل میچ کھیلے۔ پاکستان کی جانب سے بابر اعظم اور افتخار احمد نے 26 میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ بابر ان تمام میچوں میں کپتان کی حیثیت سے کھیلے۔ ویسے سب سے زیادہ میچوں میں کپتان رہنے والے کھلاڑی بھارت کے روہت شرما ہیں جنہوں نے 27 میچوں میں اپنی ٹیم کی قیادت کی۔

آئی سی سی کی تازہ ترین رینکنگ کے مطابق ٹی20 کرکٹ میں اس وقت پہلی پوزیشن بھارت، دوسری انگلینڈ اور تیسری پاکستان کی ہے۔ دیگر ٹیموں میں بالترتیب جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، سری لنکا، بنگلادیش اور افغانستان ٹاپ ٹین میں شامل ہیں۔

2022ء کے دوران انٹرنیشنل کرکٹ کا یہ جائزہ بتاتا ہے کہ اب کرکٹ کی دنیا کورونا کی مہلک وبا سے مکمل نجات پاچکی ہے اور کرکٹ کی سرگرمیوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں بھی کرکٹ کا کھیل زیادہ فعال ہوچکا ہے اور تمام ممالک کی ٹیمیں اب پاکستان کی سرزمین پر سیکیورٹی کے بہتر انتظامات کے باعث بلاخوف و خطر کھیلنے کے لیے آرہی ہیں۔

مشتاق احمد سبحانی

مشتاق احمد سبحانی سینیئر صحافی اور کہنہ مشق لکھاری ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ان کا خاص موضوع ہے جس پر لکھتے اور کام کرتے ہوئے انہیں 40 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ ان کی 4 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔