پاکستان

افغانستان میں خواتین کی یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندی کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج

احتجاج میں شریک خواتین سمیت مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے، صوبائی دارالحکومت کی مختلف سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔

افغان حکومت کی جانب سے خواتین کی یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف کوئٹہ میں سیاسی کارکنوں اور طلبہ نے احتجاج کیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق خواتین سمیت مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور انہوں نے صوبائی دارالحکومت کی مختلف سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔

یہ احتجاج نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں نے کیا۔

بعد ازاں وہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے جہاں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بلوچستان کے صدر احمد جان خان نے مجمع سے خطاب کیا۔

احمد جان خان نے طالبان حکومت کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک کی نصف آبادی تعلیم سے محروم ہو جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان جنگ کے دوران بھی خواتین کے لیے تعلیمی ادارے بند نہیں کیے گئے تھے اور انہیں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت تھی۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت اسلام کے نام پر برسراقتدار آئی لیکن اب افغانستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

احمد جان خان نے کہا کہ یہ فیصلہ خواتین کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اسے قبول نہیں کیا جا سکتا، اسلام کبھی بھی خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں رہا۔

دیگر مقررین نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ افغانستان آدھی آبادی کو تعلیم سے محروم کر کے ترقی نہیں کر سکتا۔

انہوں نے اقوام متحدہ اور دیگر اقوام سے اپیل کی کہ وہ افغان حکومت کو پابندی اٹھانے پر مجبور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

انہوں نے اسلام آباد سے خواتین کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دینے کے لیے طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ بھی کیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 20 دسمبر کو افغان وزارت برائے اعلیٰ تعلیم نے خواتین کی یونیورسٹی میں تعلیم پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔

یہ پابندی ایک ایسے موقع پر لگائی گئی ہے جب تین ماہ قبل ہی ملک بھر میں ہزاروں طالبات نے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ٹیسٹ میں شرکت کی تھی اور ان میں سے اکثریت انجینئرنگ اور میڈیکل کے شعبے کو مستقبل کے کیریئر کے طور پر منتخب کرنے کی خواہشمند تھی۔