اسلام آباد میں یونین کونسلز میں اضافے کے خلاف الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے یونین کونسلز بڑھانے کا حکومتی فیصلہ مسترد کرنے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام فریقین کو سن کر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا۔
عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ الیکشن کمیشن 27 دسمبر کو یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے سے متعلق فریقین کو سن کر فیصلہ کرے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو کہا ہے کہ ووٹرز لسٹوں کی درستی کے لیے دائر درخواستوں پر بھی متاثرہ ووٹرز کو 28 دسمبر کو سنا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت ہے، ایڈووکیٹ جنرل کی طرف سے ہمیں فریق ہی نہیں بنایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالتی کارروائی ہے یہاں تقریر نہیں کرنی۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہا کہ وزارت داخلہ نے 19 دسمبر کو یونین کونسلز بڑھانے کا نوٹی فکیشن جاری کیا، لیکن الیکشن کمیشن نے سوموٹو پاور استعمال کرتے ہوئے اس نوٹی فکیشن کو مسترد کردیا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت اور میٹروپولیٹن کارپوریشن سمیت کسی کو نوٹس کر کے سنا بھی نہیں، عوام سے تجاویز اور اعتراضات طلب کیے بغیر یونین کونسلز میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کا معاملہ اس سے الگ ہے، پورے اسلام آباد کو 125 یونین کونسلز میں تقسیم کیا گیا ہے تاہم حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اسلام آباد کے سرکل کا سائز تو مقرر ہے، یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے سے ہر یونین کونسل کا سائز کم ہوگا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ حلقہ بندیاں آبادی کے حساب سے کی جائیں گی جو الیکشن کمیشن نے کرنی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے سے لوکل ایریا ڈسٹرب نہیں ہوگا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ کوئی ایریا ڈسٹرب نہیں ہوگا۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل عادل عزیز قاضی نے کہا کہ لوکل ایریا سے مراد پوری میٹروپولیٹن کارپوریشن ہے، جس میں تمام یونین کونسلز آتی ہیں، حکومت کے پاس تو یہ بھی اختیار ہے کہ دو میٹروپولیٹن کارپوریشنز بنا دے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کوئی سیکٹر میٹروپولیٹن کارپوریشن سے الگ کرنا چاہے تو اس میں یونین کونسل بھی نہیں آئے گی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ ایک مرتبہ طے کر لیں کہ یونین کونسلز کی تعداد کتنی بڑھانی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس طرح لندن میں میئر کا الیکشن براہ راست ہوتا ہے ایسے ہی اسلام آباد میں بھی وہی ہوگا، اس سے قبل میئر کو چیئرمین یونین کونسلز منتخب کرتے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کے بعد الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرنے کی پابند ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حلقہ بندیاں تبدیل ہونے کے بعد ووٹرز لسٹوں میں بھی تبدیلی ہوگی تو اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ ووٹرز لسٹوں میں بھی تبدیلی ہو گی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کر کے یونین کونسلز کی تعداد 125 کردی گئی ہے، اگر آئندہ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ یا کمی کرنی ہوئی تو نوٹی فکیشن سے ایسا ممکن ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی سے بل منظور ہوگیا، سینیٹ سے منظور ہوگا، میئر اور ڈپٹی میئر کا الیکشن بھی اب براہ راست ہوگا، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے نوٹی فکیشن کو نہ مانے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا یہ کہنا ہے کہ الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد حلقہ بندیوں میں تبدیلی ہوئی، لہٰذا آئندہ الیکشن اضافہ شدہ یونین کونسلز پر ہوجائیں گے لیکن ابھی پرانے شیڈول کے مطابق ہی بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک معاملہ ووٹر لسٹوں میں درستی کا بھی ہے، جب یونین کونسلز کی تعداد 101 ہوئی تو کیا ووٹر لسٹوں میں تبدیلی کا عمل مکمل کیا گیا، اس موقع پر ڈی جی لیگل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی بالکل، یہ عمل کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے متعلق کوئی دستاویز ہے تو وہ بھی دکھائیں، الیکشن کمیشن نے ووٹرز لسٹوں میں تبدیلی کا ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ووٹرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے اس عمل کے دوران اپنا ووٹ درست نہیں کرایا، کیا آپ ووٹوں کی درستی کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس گئے۔
انعام امین منہاس ایڈووکیٹ نے کہا کہ روات کے ووٹرز گولڑہ میں اور گولڑہ کے ووٹرز روات میں شامل ہیں، ووٹرز الیکشن کمیشن کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ ووٹوں کی درستی کے عمل کے دوران نہیں آئے اور جب آئے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔
وکیل نے کہا کہ اگر ووٹرز کو ان کے حق سے محروم رکھا جائے تو پھر لوکل گورنمنٹ الیکشن کرانے کا مقصد ہی نہیں، اتنی بڑی غلطیوں کے ساتھ الیکشن کرائے گئے تو وہ صاف اور شفاف نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اقتدار میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، بلدیاتی انتخابات کرانے میں ان کی دلچسپی نہیں ہوتی، سیاسی تجزیہ کار بہتر بتا سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے، اگر 2020 میں مدت پوری ہوئی تو اس وقت انتخابات ہو جانے چاہیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کورونا، کبھی سیلاب، کبھی سردی، کبھی گرمی، یہ سب تو چلتا رہتا ہے، اسلام آباد کے مسائل تب حل ہوں گے جب یہاں دہلی ماڈل کی پارلیمنٹ لائیں گے۔
ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ انتخابی شیڈول کے بعد یونین کونسلز کی تعداد بڑھائی گئی، اس لیے 31 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات پرانے شیڈول کے مطابق ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود مختار آئینی ادارہ اور ریگولیٹری باڈی ہے اور اس کو ہدایات نہیں دے سکتے۔
وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا جو بعد میں سنایا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ، ڈی جی لیگل الیکشن کمیشن انعام امین منہاس ایڈووکیٹ اور دیگر کے علاوہ پی ٹی آئی رہنما علی نواز اعوان، جماعت اسلامی کے رہنما میاں محمد اسلم اور دیگر پیش ہوئے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے یونین کونسل کی تعداد میں اضافے کے بہانے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے اقدام کے ایک روز بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح کردیا تھا کہ انتخابات شیڈول کے مطابق 31 دسمبر کو ہی ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل اے (2)-140، آرٹیکل 218، (3) آرٹیکل 219 (ڈی) اور آرٹیکل 222 کے تحت اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے 19 دسمبر 2022 کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کے باوجود انتخابات کے عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے کیونکہ مذکورہ نوٹی فکیشن اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے سیکشن 4 (4) کی خلاف ورزی ہے‘۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔