مسلم لیگ (ق) نے 45 نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کیا ہے، شفقت محمود کی تصدیق
رہنما پاکستاں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شفقت محمود نے تصدیق کی ہے کہ مسلم لیگ (ق) نے تحریک انصاف کی حمایت کے بدلے آئندہ عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی 30 اور قومی اسمبلی کی 15 نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہوگی کیونکہ یہ اب قانونی طور پر ضروری ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لیے اعتماد کا ووٹ بھی لینا پڑے گا، پہلے کیا ہوگا اور بعد میں کیا ہوگا اس بارے میں قانون خاموش ہے، میرا خیال ہے یہ معاملہ اب عدالت جائے گا۔
مسلم لیگ (ق) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو اتحادیوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہی ہے، اب پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے جارہی ہے جس کے بعد الیکشن ہوگا اور اس کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ضروری ہے۔
انہوں نے مسلم لیگ (ق) کی جانب سے پنجاب اسمبلی کی 30 اور قومی اسمبلی کی 15 نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ کے مطالبے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات لگ بھگ درست ہے، تاہم اس تعداد میں ردوبدل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) ہماری محترم اتحادی ہے، ہم انہیں ساتھ لے کر چلیں گے، جب اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے تو انہیں کچھ دینا تو پڑتا ہے۔
شفقت محمود نے جمعہ کو پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کا امکان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر اعتماد کا ووٹ اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا معاملہ نہ آتا تو اسمبلی جمعہ کو ٹوٹ جاتی، لیکن اب پہلے تحاریک کے معاملے طے ہوں گے جس کے بعد اسمبلی توڑنے کی باری آئے گی۔
خیال رہے کہ 17 دسمبر کو سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
چوہدری پرویز الہٰی کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنے کے لیے پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی گئی تھی۔
بعد ازاں گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعلیٰ اور اسپیکر کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کو 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اپنے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس ختم نہیں کیا تھا بلکہ اسے ملتوی کیا تھا، پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس میں گورنر پنجاب اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہہ سکتے۔
تاہم گزشتہ روز گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے سبطین خان کی جانب سے پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے متعلق دی گئی رولنگ کو ’غیر آئینی‘ اور ’غیر قانونی‘ قرار دے دیا تھا۔
واضح رہے کہ عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کی حتمی تاریخ کے اعلان سے قبل ہی جوڑ توڑ کی اعصاب شکن جنگ عروج پر پہنچ چکی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کو اسمبلیوں کی تحلیل مزید 2 ماہ مؤخر کرنے پر قائل کرنے کی کوششیں بظاہر ناکام ہونے کے بعد مسلم لیگ (ق) نے اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی سیاسی اتحادی رہنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے مبینہ طور پر جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں سمیت گجرات ڈویژن اور سیالکوٹ میں 25 سے 30 صوبائی نشستوں کا مطالبہ کردیا تھا۔
دریں اثنا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ساتھ چوہدری پرویز الہٰی کے ممکنہ اتحاد کے خوف سے پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کے مطالبات منظور کرنے پر سنجیدگی سے غور شروع کرتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر سنجیدہ بات چیت کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی۔