پاکستان

سپریم کورٹ نے خلع کے حق میں دیے گئے فیصلے کو طلاق میں بدل دیا

پشاور ہائی کورٹ، اپیلٹ کورٹ کے خلع کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر فیملی کورٹ کا شوہر کے ظلم کی بنیاد پر دیا گیا طلاق کا فیصلہ بحال کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے ایک خاندانی مقدمے میں خلع کے ذریعے شادی کے خاتمے کے پشاور ہائی کورٹ اور اپیلٹ کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے شوہر کے بیوی پر ظلم و تشدد کی بنیاد پر شادی ختم کرنے کے فیملی کورٹ کے فیصلے کو بحال کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیملی کورٹ نے شواہد ریکارڈ کرنے اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد طیبہ عنبرین کی جانب سے اپنے شوہر شفقت علی کیانی کے خلاف دائر مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ظلم کی بنیاد پر طلاق کے ذریعے شادی ختم کرنے کا حکم دیا تھا، خاتون کی جانب سے مقدمے میں مہر کی رقم، جہیز کا سامان، طبی اخراجات، اپنی اور اپنی بیٹی کی کفالت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اپیلٹ کورٹ نے 10 نومبر 2015 کو فیملی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے طلاق کے ذریعے نکاح ختم کرنے کے فیصلے کو خلع میں تبدیل کر دیا تھا اور خاتون کو 5 تولہ سونا شوہر کو واپس کرنے کی ہدایت کی تھی، جب کہ بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے بھی اپیل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’بے رحمانہ، ظالمانہ اور جابرانہ‘ طرز عمل اور رویے کے باوجود شوہر کی جانب سے ازدواجی حقوق کے دعوے کا واحد اور بنیادی مقصد صرف اور صرف کفالت اور مہر کی رقم کی ادائیگی سے بچنا معلوم ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اس شخص کی یہ کوشش اس وقت کامیاب ہوئی جب اپیلیٹ کورٹ نے بیوی کو مہر کی رقم واپس کرنے کی ہدایت کرنے کے ساتھ خلع کے ذریعے شادی ختم کرنے کا فیصلہ جاری کیا۔

سپریم کورٹ کے بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ فریقین کے درمیان بنیادی اختلاف یا اختلاف کا بنیادی سبب یہ سوال تھا کہ کیا درخواست گزار طیبہ عنبرین ظلم کی بنیاد پر شادی ختم کرنے کے حکم نامے کا دعویٰ کرنے کی مستحق تھی اور کیا اپیلٹ فورم نے ظلم کی بنیاد پر نکاح کو طلاق کے ذریعے ختم کرنے کے بجائے خلع کے ذریعے ختم کرکے ٹھیک فیصلہ کیا؟

اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ فیملی کورٹ نے واضح اور غیر مبہم انداز میں کہا کہ درخواست گزار خاتون نے کئی واقعات کا حوالہ دے کر شوہر کی جانب سے کیے جارہے ظلم کو ثابت کیا جبکہ جرح کے دوران بھی خاتون کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد کو جھٹلایا نہیں گیا، لہٰذا فیملی کورٹ نے مکمل جانچ پڑتال اور شواہد پر غور کرنے کے بعد ظلم کو بنیاد بناتے ہوئے شادی کو طلاق کے ذریعے ختم کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر فیصلہ شواہد کے خلاف ہو تو اپیلٹ کورٹ، فیملی کورٹ کے فیصلے میں رد و بدل کر سکتی ہے یا اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے، اپیل کورٹ کو دائرہ اختیار کے تحت دوبارہ اس بات کا جائزہ لینا ہوتا ہے کہ کہیں نچلی عدالت نے شواہد کو جانچنے میں کوئی غلطی تو نہیں کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے بھی اس بات کو مدنظر نہیں رکھا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے بدسلوکی اور ظلم کے الزامات کو تسلی بخش شواہد کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے اور اس کے باوجود اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کی توثیق کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مرد اور عورت کے درمیان ازدواجی بندھن پاکیزہ رشتہ ہے جو زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی خوشی اور ہمدردی کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے، اس پر ہی خاندانی نسب اور وراثت کا بھی انحصار ہوتا ہے، ازدواجی رشتہ نرمی، انسانی اور جذباتی وابستگی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے جس کے لیے باہمی اعتماد، احترام، وقار، محبت اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے اور اس لیے یہ اہم رشتہ معاشرتی اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جیسا کہ اسلام شوہر کو خوراک، لباس، رہائش اور دیگر تمام ضروریات زندگی فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے، اسی طرح مرد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ پیار اور محبت کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھے گا، فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسا طرز عمل یا رویہ جو بیوی کے لیے ذہنی اذیت اور جسمانی تکلیف کا باعث بنتا ہے اس کے لیے ازدواجی بندھن کو برقرار رکھنا ناممکن بنا دیتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ان واقعات کا بھی حوالہ دیا کہ فیملی کورٹ کے فیصلے میں کس طرح مختلف حالات و واقعات کی عکاسی کی گئی جو بیوی کے لیے ذہنی اذیت اور تشدد کا باعث بنے جیسا کہ یہ بات کہ شادی کے صرف ایک ہفتے بعد ہی شوہر نے بیوی پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ کرائے پر مکان حاصل کرنے کے لیے رقم کا بندوبست کرے۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ شوہر اور اس کے خاندان کے افراد نے بھی خاتون پر جھوٹے الزامات لگائے، یہ الزام بھی لگایا کہ بچی ان کی بیٹی نہیں ہے، اس طرح کی الزامات کے باعث درخواست گزار کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جب خاتون رشتے کو نبھانے کی کوشش کر رہی تھی تو اس شخص نے بیوی کا ساتھ دینے کے بجائے اس کا ساتھ چھوڑ دیا، اہم موقع پر اس کا ساتھ نہیں دیا، اس دوران شوہر نے نہ تو کفالت کی رقم دی اور نہ ہی ڈلیوری کے اخراجات ادا کیے۔

اس کے علاوہ شوہر اور اس کے خاندان کے افراد نے خاتون پر یہ سخت شرط عائد کی کہ وہ اپنی تنخواہ شوہر کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ میں جمع کرائے اور ذاتی استعمال کے لیے رقم اس کی اجازت سے لے۔

عدالت میں کیس دائر کرنے کے باوجود شوہر کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے خاتون کو مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا، اس پر مزید جھوٹے الزامات لگانا شروع کر دیے۔

عدالت عظمیٰ نے نوٹ کیا کہ اپیلٹ کورٹ نے ثبوتوں پر غور کرنے کے بجائے بغیر کسی وجہ کے قرار دیا کہ جسمانی تکلیف یا ذہنی اذیت کو ظاہر کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے اور الزامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔

معاملے کے تمام حقائق اور شواہد کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ اور اپیلٹ کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیملی کورٹ کے فیصلے کو بحال کر دیا۔

ایرانی وزیر خارجہ کی سعودی ہم منصب سے ’دوستانہ بات چیت‘ کی تصدیق

نجم سیٹھی کی سربراہی میں پی سی بی کے 2014 کے آئین کی بحالی کیلئے کمیٹی قائم

ماضی کی مشہور گلوکارہ بلقیس خانم انتقال کرگئیں