’پی ٹی آئی کیلئے لابنگ کرنے والوں نے ’کسی اور کے ایما پر‘ حسین حقانی کی خدمات حاصل کیں‘
اسلام آباد میں سی آئی اے کے سابق اسٹیشن منیجر اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر کی خدمات واشنگٹن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لابنگ کے لیے بھاری معاوضہ پر حاصل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بہت سارے لوگوں کے لیے دستاویزات کے مشاہدے کے بعد سامنے آنے والی یہ خبر شاید بریکنگ نیوز نہ ہو لیکن حال ہی میں سامنے آنے والی تازہ معلومات کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ لوگ اپنی ہی حکومت کے خلاف لابنگ کر رہے تھے اور ان لوگوں نے پی ٹی آئی کی حکومت گرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
امریکا میں پی ٹی آئی کے عہدیداروں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ دونوں افراد رابرٹ گرینیئر اور حسین حقانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ایک سینئر شخصیت کے لیے کام کر رہے تھے البتہ حسین حقانی نے اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ (ایف اے آر اے) کی سائٹ پر موجود دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 16 جولائی 2021 کو پاکستان سے کسی شخصیت نے رابرٹ گرینیئر کی واشنگٹن میں اپنی طرف سے لابنگ کرنے کے لیے خدمت حاصل کی، رابرٹ گرینیئر نے 17 جولائی 2021 کو اپنے ایف اے آر اے ڈیکلیریشن میں اس بات کا انکشاف کیا۔
دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی رہنما افتخار رحمٰن درانی نے رابرٹ گرینیئر کی خدمات حاصل کیں لیکن ان کو رقم کی ادائیگی حکومت پاکستان کی جانب سے کی جا رہی تھی۔
اگست 2022 میں پاکستانی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے حوالے سے مشاورت کے لیے سی آئی اے کے سابق اہلکار کی خدمات حاصل کیں۔
دستاویزات کے مطابق رابرٹ گرینیئر اور حکومت پاکستان کے درمیان تعلقات اور روابط اکتوبر 2021 میں ختم ہو گئے تھے لیکن جنوری 2022 کو ختم ہونے والی 6 ماہ کی مدت کا احاطہ کرنے والی ایف اے آر اے کی ایک ضمنی دستاویز کے مطابق اس بات کا انکشاف حکومت پاکستان کی جانب سے رابرٹ گرینیئر کو کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات سے ہوا۔
اس مدت کے دوران رابرٹ گرینیئر کو ’میڈیا ریسرچ کے لیے ایک لاکھ 50 ہزار ڈالر ادا کیے گئے لیکن دستاویز کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کسی بھی طرح سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
نومبر 2022 میں رابرٹ گرینیئر نے فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے تفصیلات دیتے ہوئے سپلیمنٹل میں ترمیم فائل کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابق سی آئی اے سربراہ نے حسین حقانی کو 2 ادائیگیاں کیں جن میں سے ایک ادائیگی 20 ہزار ڈالر اور دوسری 10 ہزار ڈالر کی تھی۔
حال ہی میں ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک سلسلہ وار پیغام میں صحافی وقاص احمد نے دعویٰ کیا کہ حسین حقانی نے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے سے چند ماہ قبل دبئی میں اہم پاکستانی عہدیدار سے ملاقات کی، تاہم سابق سفیر نے اس دعوے کی بھی تردید کی۔
ان دعووں اور جوابی دعووں کے سامنے آنے کے بعد یہ معاملہ سوشل میڈیا ویب سائٹ پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور ہزاروں لوگوں نے امریکی محکمہ انصاف کی ایف اے آر اے سائٹ پر موجود دستاویزات کا جائزہ لیا اور اس معاملے کو اٹھانے والے ٹاک شوز دیکھے۔
ڈان نے بھی ان دستاویزات کا جائزہ لیا اور ان کی تصدیق کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں افراد کو پاکستانی حکومت کی جانب سے افتخار درانی نے لابنگ کے لیے ہائر کیا جو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔
لیکن پی ٹی آئی حکام کا کہنا تھا کہ افتخار درانی نے دستاویز پر دستخط کرتے ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، پارٹی عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افتخار درانی نے انہیں بتایا کہ انہوں نے دباؤ کے تحت یہ قدم اٹھایا تھا۔
حسین حقانی کا مؤقف
سابق سفیر حسین حقانی جن کا نام ایف اے آر اے کی تازہ ترین دستاویزات میں بھی موجود ہے، وہ میموگیٹ تنازع کے بھی مرکزی کردار تھے۔
مئی 2011 میں بھیجے گئے میمو گیٹ کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مبینہ میمو پی پی پی حکومت کی جانب سے بھیجا گیا ایک پیغام تھا جس میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کیے گئے آپریشن کے بعد پاکستانی فوج پر قابو پانے کے لیے اس وقت کی امریکی حکومت سے مدد طلب کی گئی تھی۔
میمو گیٹ تنازع کے باعث آخر کار حسین حقانی کو سفیر کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا اور اس تنازع کی وجہ سے پی پی پی حکومت کافی کمزور اور دباؤ کا شکار ہوگئی تھی۔
تاہم واشنگٹن میں تعینات سابق سفیر نے ڈان کو بتایا کہ یہ دعوے بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے افتخار درانی کے ساتھ کبھی بات چیت نہیں کی، میں نے پی ٹی آئی کے ساتھ کام کرنے میں کبھی دلچسپی نہیں لی اور پاکستان کی سیاست میں فوج کے کردار کے خلاف سب کو معلوم ہے، اس حوالے سے میرے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں میں صرف تحقیق اور کنسلٹنگ کے کاموں میں مصروف ہوں اور گزشتہ کئی برسوں سے میرا پاکستان کی اندرونی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ میرا نام ایسے معاملات میں لیا جا رہا ہے جن سے میرا کوئی تعلق نہیں۔
حسین حقانی نے کہا کہ فوج میں کام کرنے والے کچھ رشتے داروں اور دوستوں کے سوا میرا پاکستانی فوج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مجھے برسوں تک پاکستان مخالف اور فوج مخالف ثابت کرکے بدنام کیا گیا، اس وقت کے آرمی چیف کی مجھ سے ملاقات کے بارے میں سوالات کا جواب فوج کو دینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے جنرل باجوہ سے ملاقات نہیں کی جیسا کہ الزام لگایا گیا، حالانکہ مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ایک سابق پاکستانی سفیر اور آرمی چیف ملاقات کرکے کسی معاملے پر تبادلہ خیال کیوں نہیں کرسکتے۔
’حکومت تبدیلی کی سازش کی ابتدا‘
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی سینئر نائب صدر شیریں مزاری نے کہا کہ حقانی-باجوہ کی فائلیں، منظر عام پر آگئیں جن سے واضح طور پر شاندہی ہوتی ہے کہ حکومت کی تبدیلی کی خفیہ سازش کی گئی اور حسین حقانی کو پی ٹی آئی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ہائر کیا گیا۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا پہلا اشارہ یہ تھا کہ حسین حقانی نے عمران خان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کے خلاف اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ میں قمر باجوہ کے بیان کی تائید کی۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے کے کچھ پوائنٹس ابھی تک غائب ہیں، ایک پوائنٹ جو اب تک مسنگ ہے وہ یہ کہ پورا منصوبہ کابینہ کی منظوری کے بغیر، پروکیورمنٹ طریقہ کار کو نظرانداز کرتے ہوئے خفیہ طور پر انجام دیا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مبینہ طور پر پی ٹی آئی حکومت کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ظہرانے کے دوران دھمکی دینے والے سفارت کار ڈونلڈ لو کے حسین حقانی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، واشنگٹن میں ڈان سے بات کرنے والے لوگوں نے اس دعوے کی تائید کی لیکن اس حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔