پاکستان

جنوبی وزیرستان: وانا پولیس اسٹیشن پر عسکریت پسندوں کا حملہ، اسلحہ لوٹ کر فرار

راکٹ لانچر اور بھاری ہتھیاروں سے لیس تقریباً 50 عسکریت پسند مرکزی گیٹ اڑا کر پولیس اسٹیشن میں داخل ہوئے اور 20 اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں درجنوں مسلح عسکریت پسندوں نے ایک پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول دیا اور اسلحہ اور گولہ بارود لوٹ کر فرار ہو گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واقعے کے وقت تھانے کے اندر موجود پولیس اہلکار رحمٰن وزیر نے بتایا کہ رات ایک بجے کے قریب راکٹ لانچر اور بھاری ہتھیاروں سے لیس تقریباً 50 عسکریت پسند مرکزی گیٹ اڑانے کے بعد زبردستی پولیس اسٹیشن میں داخل ہوگئے۔

ایک اور پولیس اہلکار نے بتایا کہ بھاری تعداد میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف اسٹیشن ہاؤس آفیسر سمیت تقریباً 20 پولیس اہلکاروں نے کچھ دیر مزاحمت کی لیکن بعدازاں انہیں یرغمال بنا لیا گیا۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں رات کے اندھیرے میں پولیس اسٹیشن پر راکٹ اور دستی بموں کی شدید بمباری دیکھی گئی۔

حملے کے بعد شدت پسند اسلحہ لوٹ کر پولیس وین میں فرار ہوگئے، مقامی پولیس کے مطابق عسکریت پسند پولیس اسٹیشن سے صرف 8 اے کے-47 رائفلیں لے کے فرار ہوئے۔

ذرائع نے بتایا کہ اس حملے میں ایک پولیس کانسٹیبل زخمی ہوا جبکہ ایک مبینہ عسکریت پسند مارا گیا، زخمی پولیس کانسٹیبل کی شناخت الیاس کے نام سے ہوئی جس کو علاج کے لیے وانا ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق مبینہ عسکریت پسند فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا، بعد میں اس کی لاش باغیچہ کے علاقے سے برآمد ہوئی۔

حملے کے بعد پولیس اسٹیشن کو ایف سی نے کچھ دیر کے لیے اپنے قبضے میں لے لیا تاہم بعد ازاں اسے واپس پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

پولیس نے کہا کہ قریبی علاقوں سے وانا میں مزید فورس تعینات کی گئی ہے اور اس وقت اسٹیشن کے اندر 100 پولیس اہلکار موجود ہیں۔

واقعے سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور مقامی لوگوں نے اس پر غم و غصے کا اظہار کیا، ایک مقامی بزرگ شاکر خان نے کہا کہ ’اچھے اور برے طالبان کا تصور حکومت کی تخلیق ہے، مقامی لوگوں کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں، عوام اچھے یا برے طالبان نہیں چاہتے بلکہ اپنے علاقے میں محض قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں‘۔

افغانستان کی سرحد سے متصل 2 اضلاع شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے پولیس اسٹیشن گزشتہ چند ماہ کے دوران شدت پسندوں کی جانب سے مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔

متواتر حملوں کے بعد پولیس اہلکاروں نے پاک افغان سرحد کے نزدیک واقع رغزئی اور خان کوٹ تھانہ خالی کر دیا، ذرائع کے مطابق اس انخلا سے عسکریت پسندوں کو علاقے میں گھومنے پھرنے اور وانا جیسے علاقوں تک آسانی سے رسائی کی کھلی آزادی مل گئی۔

ٹانک: ندی سے 2 سر کٹی لاشیں برآمد

ضلع ٹانک میں موجود ایک ندی سے 2 سر قلم کی گئی لاشیں بر آمد ہوئی ہیں، پولیس اہلکار کے مطابق یہ لاشیں جنڈولہ تھانے کی حدود میں قریبی گاؤں میں پھینکی گئی تھیں۔

جنڈولہ تھانے کے حکام کے مطابق مقتولین کی شناخت شاہ نور بھٹانی اور اس کے کزن رحیم گل بھٹانی کے نام سے ہوئی ہے جو کنزئی گاؤں کے رہائشی ہیں، واقعہ کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

پولیس نے کہا کہ لاشوں سے ایک کاغذ بھی برآمد ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’طالبان کی جانب سے ہر ایک کے لیے پیغام ہے کہ جاسوسی کے نتیجے میں ایسی موت واقع ہوگی‘۔

دہشت گردی کے حملوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی جانب سے سر قلم کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

6 دسمبر کو ضلع بنوں کے جانی خیل قصبے میں نامعلوم حملہ آوروں نے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے ایک سپاہی کا سر قلم کر دیا تھا، بعد ازاں مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ مقتول کا سر بچکی مارکیٹ کے علاقے میں درخت سے لٹکا ہوا پایا گیا تھا۔

ایک اور واقعے میں ضلع بنوں کے علاقے زندی اکبر خان سے ایک شخص کی لاش ملی جس کا مبینہ طور پر عسکریت پسندوں نے سر قلم کردیا تھا، دونوں واقعات میں عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مقتولین جاسوس تھے۔

پنجاب میں ایک بار پھر آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ

صارفین کا ایلون مسک کے عہدہ چھوڑنے کے حق میں ووٹ، ٹوئٹر پولز کی پالیسی تبدیل

افغانستان: طالبان نے لڑکیوں کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم پر پابندی عائد کردی