پنجاب میں ایک بار پھر آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ
پنجاب میں اسپیکر پنجاب اسمبلی اور گورنر پنجاب کے درمیان تناؤ شدت اختیار کر چکا ہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا نظر آرہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو خصوصی اسمبلی اجلاس میں اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کو اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے غیر قانونی اور آئین کی شقوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
2 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اسپیکر پنجاب اسمبلی نے واضح کیا کہ ’گورنر کے احکامات آرٹیکل 54(3) اور آرٹیکل 127 کے مطابق نہیں ہیں، ایوان کا اجلاس 23 اکتوبر 2022 سے جاری ہے اور آرٹیکل 54(3) اور 127 کے تحت موجودہ اجلاس ختم ہونے تک کوئی نیا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا‘۔
میاں منظور احمد وٹو بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے سبطین خان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے پورے 10 روز کا وقت دینا ہوگا، یہ لازمی مدت گورنر کے حکم میں موجود نہیں۔
بعدازاں اسپیکر پنجاب اسمبلی نے 23 دسمبر کی سہ پہر ایوان کا اجلاس طلب کرلیا جس سے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی اور گورنر پنجاب کے احکامات عملاً غیرمؤثر ہوگئے ہیں۔
تاہم دونوں فریقین تاحال اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں جس سے بلاشبہ ایک سخت آئینی جنگ شروع ہوتی نظر آرہی ہے جوکہ پہلے سے ہی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کو مزید ہوا دے گی۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی مقرر کردہ مدت (آج شام 4 بجے) تک پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ خالی ہو جائے گا جس سے صوبہ ایک شدید آئینی بحران کی زد میں آ جائے گا۔
ایڈووکیٹ اُسامہ خاور نے خبردار کیا کہ اس طرح کی آئینی مہم جوئی میں سہولت فراہم کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے، یہ بالکل وہی صورتحال ہوگی جب رواں برس اپریل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد عدالت نے چند افراد کو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا تھا۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ ’اس وقت ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تھی لیکن اس سے اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے کہ اگلی بار بھی ایسا نہیں ہو گا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’18ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 130 اور اس کی ذیلی شق 7 گورنر کو صوابدیدی اختیارات دیتی ہے، مرکز میں صدر کی طرح یہ گورنر ہی ہوتا ہے جو صوبے میں اعتماد کا ووٹ طلب کرتا ہے اور اس کا تعین کرتا ہے، وزیر اعلیٰ ان کی مرضی سے عہدہ سنبھالتا ہے، یہ آئین کی تشریح نہیں بلکہ یہی آئین ہے‘۔
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ملک اویس خالد نے اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’آرٹیکل 130 اور اس کی ذیلی شق 7 جو اس موضوع سے متعلق ہے، واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ گورنر اپنی صوابدید کے مطابق یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو کب ایوان سے نئے مینڈیٹ کی ضرورت ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک فراہم کردہ اختیار ہے جس کے لیے ہنگامی حالات کی ضرورت نہیں، ضرورت صرف یہ ہے کہ گورنر، وزیراعلیٰ کے لیے اس عمل سے گزرنے کا وقت طے کرے اور اس کا طریقہ کار بھی حتمی ہے، اگر مقررہ وقت کے اندر کارروائی مکمل نہیں ہوتی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وزیر اعلیٰ ایوان اور اپنی نشست کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
اس صورتحال کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے بھی قانونی ماہرین واضح ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر آج دوپہر تک اعتماد کے ووٹ کا عمل مکمل نہ ہوا تو موجودہ وزیر اعلیٰ ناصرف اپنے عہدے سے محروم ہو جائیں گے بلکہ وہ بطور نگراں وزیراعلیٰ بھی کام نہیں کر سکتے۔