پاکستان

وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ، اسپیکر سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 21 دسمبر کو شام 4 بجے طلب کرلیا۔

پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اور اسٌپیکر سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی گئی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خلیل طاہر سندھو، خواجہ عمران نذیر، میاں مرغوب اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ اور دیگر اراکین نے پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔

پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری عنایت حسین لک نے اپوزیشن اراکین سے تحریک عدم اعتماد وصول کی۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی نے ایوان کا اعتماد کھو دیا ہے۔

مزید بتایا گیا ہے کہ پرویز الٰہی نےجمہوری روایات کا قتل کیا ہے اور ان پر ایوان کے اکثر اراکین کا اعتماد نہیں رہا۔

اپوزیشن اراکین نے اسپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان کے خلاف بھی الگ تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔

تحریک عدم اعتماد میں کہا گیا کہ ’قواعد ا نضباط کار صوبائی اسمبلی پنجاب 1997 کے آرٹیکل 53 کی ضمنی شق 7 سی، آئین کے آرٹیکل 127 کے تحت اسپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان پر ایوان کی اکثریت کا اعتماد نہیں رہا ہے‘۔

اپوزیشن اراکین نے مؤقف اپنایا کہ ’صوبائی اسمبلی پنجاب کے معاملات آئین کے تابع نہیں چلائے جارہے ہیں اور ملکی صورت حال کے زیر اثر انہوں نے پنجاب اسمبلی میں جمہوری روایات کا قلع قمع کیا لہٰذا ایوان محمد سبطین خان اسپیکر پنجاب اسمبلی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے‘۔

جیونیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزدہ کے ساتھ‘ میں میزبان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کے خلاف خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔

راناثنااللہ نے کہا کہ فتنہ، فساد اور ملک میں عدم استحکام کے لیے اسمبلیاں توڑنا ایک غیرجمہوری اور غیر آئینی عمل ہے، جب یہ ایک ہفتے اور کبھی کوئی تاریخ دیتے ہیں تو ہمارے سامنے سوال اٹھایا جاسکتا تھا کہ آپ نے اس عمل کو روکنے کے لیے ایک آئینی راستہ تھا اس کو استعمال کیوں نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ ایک مہینے کا وقت لے رہے تھے تو پھر سوال ہمارے اوپر آسکتا تھا اسی لیے ہم نے یہ اقدام اٹھایا۔

مذاکرات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا یہ طریقہ کار نہیں ہے، صدر مملکت درمیان میں تھے، ان کے ذریعے بات کرتے اور بتاتے کہ میرے خدشات ہیں تو پھر بات ہوسکتی تھی۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہمارا چیلنج برقرار ہے کہ اسمبلیاں توڑیں اور انتخابات کے لیے میدان میں آئیں ہم تیار ہیں لیکن ہم ان کے بار بار وقت دینے کے باوجود آج بھی یہ کام نہ کرتے اور کل ہم کہتے کہ یہ غیرآئینی اور ملک کو عدم استحکام کرنے کا اقدام تھا تو پھر سب سوال اٹھاتے، اس لیے یہ فیصلہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اگلے دو چار دنوں میں ساری چیزیں سامنے آئیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ اسمبلی توڑنا چاہتے ہیں، اس طرح ضد اور غیرآئینی عمل کرنا چاہتے ہیں تو پھر اولین شرط یہ ہے کہ وہ کم از کم اعتماد حاصل کریں پھر توڑنا چاہیں تو بسم اللہ توڑیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے اراکین کو موقع دینا چاہیے کہ ایک شخص اپنی انا کی خاطر اسمبلیاں قربان کر رہا ہے، اگر پنجاب کے اراکین یہی فیصلہ کرتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کسی جگہ سے کوئی وعدہ یا گارنٹی کی بات کی ہے یا نہیں، یہ موقع ملنا چاہیے، جسے ہم غیر آئینی اور ملک میں عدم استحکام کا عمل کہتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایمرجنسی کے امکانات ہو سکتے، تو ایسے میں خاموش بیٹھنا ہمیں کل جوابدہ ٹھہرا سکتا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ سارے معاملات کہ کیا طے پایا یا کیا طے پائے گا یہ عمل تین سے چار دن میں مکمل ہوگا۔

گورنر پنجاب نے پرویزالہٰی سے اعتماد کا ووٹ طلب کرلیا

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ اور اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی سے 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ بھی طلب کرلیا۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری سمری کے مطابق گورنر پنجاب نے کہا کہ وزیراعلیٰ اپنے پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور ان کی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے اراکین کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’چند ہفتے قبل پنجاب کے حکمران اتحاد پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق) کے درمیان اسمبلی کی تحلیل، ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری عہدیداروں کے تبادلوں کے حوالے سے سنگین اختلافات سامنے آئے تھے‘۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ اختلافات کے حوالے سے حال ہی میں کابینہ کے ایک رکن کی جانب سے پرویزالہٰی کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد دیا جانے والا استعفیٰ ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ 4 دسمبر کو ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ مارچ 2023 تک صوبائی اسمبلی کہیں نہیں جارہی ہے جو پی ٹی آئی کے عوام کے سامنے موجود مؤقف کے بالکل برعکس ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی کو اسمبلی میں اعتماد حاصل نہیں ہے اور اسی لیے اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے آئین کی شق 130(7) کے تحت 21 دسمبر کو شام 4 بجے طلب کرلیا گیا ہے۔

عدم اعتماد کے ووٹ کا مقصد الیکشن سے فرار ہے، فواد چوہدری

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے ردعمل دیتےہوئے کہا کہ ’عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا مقصد الیکشن سے فرار ہے، کل تک رانا ثنااللہ اور احسن اقبال کہہ رہے تھے اسمبلی تحلیل کرو الیکشن میں جائیں گے آج جوتے چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں لیکن ہم بھاگنے نہیں دیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’عدم اعتماد ناکام ہوگئی اور پرویز الہیٰ اسمبلی تحلیل کریں گے عوام کا فیصلہ ہی حتمی ہے‘۔