’23 دسمبر تک ہر روز کئی سیاسی شو دیکھنے کو ملیں گے‘
کسی بھی نیم جمہوری، ترقی پذیر، مقروض اور وہ بھی حد سے زیادہ مقروض، غیر مستحکم اداروں پر بھروسہ کرکے ترقی کرنے، جمہوریت، خوشحالی اور محفوظ دفاع کا خواب دیکھنے والے ملک کی ’تھالی میں پارے‘ جیسی سیاست پر رائے دینا اور تجزیہ کرنا ایک نہایت مشکل کام ہے۔
پھر اگر سیاستدانوں کی کثیر تعداد دور بینی کی فطری صلاحیت سے بھی عاری ہو اور اس کو صرف اپنے اقتدار کے حصول کی فکر لاحق ہو اور وہ اس کے لیے کسی بھی اخلاقی تقاضوں کو پورا کرنا تو درکنار آئینی اور قانونی تقاضوں کا بھی لحاظ رکھنے کو تیار نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے۔
پھر سیاستدان وہ جو بات کریں تو جھوٹ بولیں، عادتاً مکر کرتے ہوں، عوام کو ایسی توقعات کے ساتھ وابستہ کریں جن کا حقیقت سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہ ہو۔ نوجوانوں کو ایک ایسی امید سے وابستہ کریں جس کے بارے میں نظر آرہا ہوکہ امید پوری نہیں ہوگی اور آس ٹوٹ جائے گی اور مایوسی کی تاریک رات خونخوار جانور کی طرح سب کچھ چیر پھاڑ کر رکھ دے گی۔
سیاستدان اور لیڈر میں فرق ہوتا ہے اور کبھی کبھی اتفاقاً یہ دونوں ایک بھی ہوجاتے ہیں اور اگر کسی قوم کو ایسا موقع مل جائے تو ملک و قوم کی تقدیر بدل جاتی ہے بصورتِ دیگر قوموں کی تباہی بھی تو انسانوں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں ہی انجام کو پہنچتی ہے۔
وطنِ عزیز میں ایک طویل مدت سے سیاسی واردات کرنے والے تماشہ لگا کر تماشائیوں کو جادو منتر دکھا رہے ہیں۔ جادو برحق ہے مگر کرنے والا کافر کہلاتا ہے۔ جانے ہم کیونکر اپنی قوم کو غلط راستوں پر جانے کا کہہ رہے ہیں اور اپنے مقررہ وقت کا انتظار نہیں کرتے۔ جس جمہوریت کا ہم رونا روتے ہیں، اس پر ڈاکہ ڈالے جانے کا شور مچاتے ہیں، اس کی حفاظت کے بجائے ہمارے سیاسی حضرات اس کی بنیادوں کو توڑنے یا کمزور کرنے کے کیوں درپے ہیں؟
اسمبلیوں کا توڑنا آئینی اقدام ہے تو کیا عدم اعتماد غیر آئینی اقدام ہے؟ کیا آئینی اقدام سازش قرار دیا جاسکتا ہے؟ اسمبلی توڑنے سے روکنا بھی غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام نہیں۔ ہاں اگر اپریل 2022ء میں جس طرح قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دی گئی تو اس کو اسی سپریم کورٹ نے غیر آئینی اقدام قرار دیا جس سپریم کورٹ کو ہم ہر وقت پکارتے ہیں، حالانکہ نقارخانے میں طوطی کی کون اور کتنی بار سنتا ہے اور اگر سن بھی لے تو کوئی حد ہوتی ہے۔
محترم سابق وزیرِاعظم حصولِ اقتدار کے لیے نہ جانے کس کس پر دشنام طرازی کریں گے۔ اب تک ویسے انہوں نے کسی کو محفوظ تو رہنے نہیں دیا۔ انہوں نے 2 وزرائے اعلیٰ کو اپنے دائیں بائیں بٹھا کر جس زبان اور الفاظ کا چناؤ کیا اس پر ان کے پیاروں کے علاوہ ہر کسی کو دکھ ہوا۔
پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نے اس پر شدید ردِعمل بھی دے دیا کہ ہماری موجودگی میں احسان فراموشی کا جو مظاہرہ کیا گیا وہ غیر مناسب ہے اور انہوں نے کہا کہ ہم احسان فراموش نہیں، مگر وہ شاید چوہدی شجاعت حسین کو بھول گئے، اب چونکہ وہ بہت ہی قریبی عزیز ہیں اس لیے شاید انہوں نے کبھی احسان نہ کیا ہو مگر ہیں تو بڑے بھائی اور اگر بڑے بھائی کے ساتھ جو حسن سلوک رکھا گیا اس کی روشنی میں عمران خان کیا حیثیت رکھتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر سیاسی شخصیات کے بارے میں ذاتی معلومات پر بحث کرنا آداب سے مناسبت نہیں سمجھتا مگر پرویز الٰہی صاحب اپنی ہی حکومت کی ترجمان خاتون مسرت چیمہ اور ان کے شوہر نامدار کی اوقات کا ذکر تو کرتے ہیں مگر اپنے 35 سال پرانے ساتھی نصر اللہ دریشک کے صاحبزادے کے ساتھ کابینہ میں روا رکھے جانے والے رویے پر مکمل خاموش ہیں۔
آصف زر داری، نواز شریف، مریم نواز تعریف کے قابل ٹھہرے، کیا ہوتا اگر پرویز مشرف کے بارے بھی 2 الفاظ کہہ دیے جاتے اور ان کے ساتھ ان کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد جو سلوک روا رکھا گیا اس کے بارے بھی بات ہوتی تو اچھا تھا۔
اب جب اتنی بات ہوئی ہے تو یہ بھی راز کی بات نہیں کہ عمران خان تو مونس الٰہی اور چوہدری پرویز الٰہی کو گرفتار کروانا چاہتے تھے مگر آج دیکھیے وہ ساتھ بیٹھے ہیں جبکہ چوہدری شجاعت حسین کے پرانے ساتھی اور 4 مرتبہ وفاقی وزیر رہنے والے جنرل مجید ملک کے ساتھ 2008 میں میئر کے انتخابات کے وقت جو کچھ پرویز الٰہی کرچکے ہیں اس حوالے سے بھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ حالانکہ مجید ملک تو رفیق تھے، غمگسار اور قابلِ اعتماد تھے اور ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کے وہ ہرگز مستحق نہیں تھے۔
سیاست کے داؤ پیچ چوہدری شجاعت حسین سے سیکھے اب بھی اگر کوئی کام آئے گا تو وہ چوہدری شجاعت ہی ہوں گے۔
یہ تذکرہ تو ایسے ہی ہوگیا، بات ہے پنجاب اسمبلی کے ٹوٹنے کی۔ شنید ہے کہ پرویز الٰہی صاحب نے پی ٹی آئی سے 10 قومی اسمبلی اور 20 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا مطالبہ کیا ہے۔ گویا مخصوص نشستیں ملاکر 12 قومی اسمبلی اور 24 صوبائی اسمبلی کی نشستیں۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سوال بھی اٹھے گا کہ ٹکٹ کا اجرا کون کرے گا؟ 2024ء تک چوہدری شجاعت پارٹی کے سربراہ ہیں، اگر ٹکٹ انہوں نے دینے ہیں تو ابھی ان سے معاملہ کرنے میں کیا چیز رکاوٹ ہے؟ ہاں صوبائی اسمبلی کے لیے پرویز الٰہی کے دستخط ہوں گے مگر ہو تو کچھ بھی سکتا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ صوبائی اسمبلی ٹوٹ جائے اور عمران خان کو قومی اسمبلی سے محروم ہی رہنا پڑے۔ نااہلی کی تلوار بھی ہے اور ایک نہیں کئی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو قومی اسمبلی اپنی مدت میں ایک سال اضافہ کردے اور پھر ایک کے بجائے 2 سال قوم کو بے وقوف بنایا جائے۔
اگر حکومت کے پاس بزرگ ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن دینے کے پیسے نہیں، قرض اتارنے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں ہو رہیں، اسٹیٹ بینک نوٹ چھاپ کر دینے کو تیار نہیں، صوبے مالی معاملات کے لیے وفاق پر نظر جمائیں بیٹھے ہیں، خزانہ اس حد تک خالی ہے کہ پارلیمنٹ بھی اخراجات کم سے کم کررہی ہے، سرمایہ کاری رُک چکی ہے، توانائی کا بحران ہے، خسارہ کم نہیں ہورہا ایسے میں جناب عمران خان کی وزیرِاعظم بننے کی خواہش کی تکمیل کے لیے کئی سو ارب روپے خرچ کر دیے جائیں تاکہ ملک میں ان کے دورِ حکومت کے تاریخی ترقیاتی پروجیکٹ جن کو 4 وزرائے خزانہ نے سنہری حروف کے ساتھ ملکی معاشی کتاب میں تحریر فرمایا اس کو بڑھایا جاسکے۔
کیا بُرا ہے جو الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرے اور جو بھی سماعت رہتی ہے اس کو جلد مکمل کرکے فیصلہ صادر کرے۔
وہ جو تھالی میں پارے کی بات تھی وہ اپنی جگہ تاہم 23 دسمبر تک ہر روز کئی سیاسی شو دیکھنے کو ملیں گے اور یہ سیاسی اور غیر سیاسی دونوں ہوسکتے ہیں مگر فوجی نہیں ہوں گے۔ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
عظیم چوہدری سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس ہے ma.chaudhary@hotmail.com اور آپ ٹوئٹر پر یہاں MAzeemChaudhary@ ان سے رابطہ کرسکتے ہیں
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔