حکومتِ سندھ کے 2 بجلی کمپنیاں زیرانتظام لینے کیلئے وفاق سے باضابطہ مذاکرات
حکومتِ سندھ نے حیدر آباد اور سکھر کی 2 پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کو اپنے زیرانتظام لینے کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات شروع کردیے ہیں۔
دوسری جانب ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا تاحال وفاقی حکومت کی جانب سے اپنی حدود میں کام کرنے والے 6 بجلی کی کمپنیوں کو اپنے زیرانتظام لینے کی پیشکش پر غیر فیصلہ کن ہیں جبکہ بلوچستان نے خسارے میں چلنے والے کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) کو چلانے کی کوئی ذمہ داری لینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے رواں برس جولائی کے آخری ہفتے میں وزارتِ بین الصوبائی رابطہ (آئی پی سی) کے ذریعے صوبائی حکومتوں سے باضابطہ طور پر رابطہ کیا تھا تاکہ ان کی حدود میں متعلقہ بجلی کی کمپنیوں کے حصول پر بات چیت شروع کی جا سکے۔
نجکاری کمیشن کی جانب سے پیش کردہ اور پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے ایک تازہ ترین پوزیشن پیپر میں کہا گیا ہے کہ ’حکومت سندھ نے پاور ڈویژن کے ساتھ حیسکو اور سیپکو کے حصول کے لیے بات چیت شروع کر دی ہے‘۔
اس میں کہا گیا کہ ’بلوچستان کے محکمہ توانائی نے بتایا ہے کہ وہ کیسکو کو حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا نے تاحال بجلی کی کمپنیوں کے حصول میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی‘۔
وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کے انتظامی کنٹرول میں کُل 10 بجلی کی کمپنیاں ہیں، خسارے میں چلنے والی سرفہرست 4 بجلی کی کمپنیوں میں سے ایک ’کیسکو‘ کے ذریعے حب اور سندھ کے قریب دیگر ملحقہ علاقوں کے علاوہ بلوچستان کے بیشتر حصوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے ذریعے خیبر پختونخوا کے بیشتر حصوں کو بجلی فراہم کی جاتی ہے، سوائے انضمام شدہ قبائلی اضلاع کے جنہیں ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی (ٹیسکو) کے ذریعے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) کراچی کے علاوہ سندھ کے بیشتر حصوں کو بجلی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں، پنجاب میں یہ خدمات لاہور، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد اور اسلام آباد میں قائم 5 بجلی کی کمپنیاں سرانجام دیتے ہیں، کمپنیز ایکٹ 2017 کے تحت یہ تمام بجلی کی کمپنیاں پبلک سیکٹر کے ادارے ہیں۔
9 بجلی کی کمپنیاں کی نجکاری کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے اپریل 2011 اور فروری 2014 میں دی تھی، حال ہی میں مئی 2021 میں کابینہ کمیٹی برائے نجکاری (سی سی او پی) کی جانب سے منظور شدہ نجی شعبے کی شرکت کے پیش نظر قانون و انصاف ڈویژن نے گزشتہ برس ستمبر میں اس بات کی دوبارہ تصدیق کی تھی کہ 2014 میں ٹیسکو کے علاوہ 9 بجلی کی کمپنیاں کی نجکاری کے لیے سی سی آئی کی جانب سے منظوری دی گئی ہے۔
سی سی او پی نے گزشتہ برس جنوری میں پرائیویٹائزیشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ 3 اہم اہداف کے حصول کے لیے پاور ڈویژن کی مشاورت سے ڈسکوز کے لیے ’نجکاری/انتظامی معاہدے‘ شروع کرے۔
ان 3 اہداف میں مجموعی ترسیلی اور تجارتی (اے ٹی سی) نقصانات میں کمی، خدمات کی فراہمی میں بہتری اور مانیٹری آمدن بڑھانے کے لیے غور کے بغیر صارفین کا اطمینان شامل ہیں۔
خیال رہے کہ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ اب تقریباً 2 کھرب 60 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جس کی بنیادی وجہ کم وصولی اور زیادہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز ہیں۔
پیسکو کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز 38 فیصد، سیپکو کے 36 فیصد، حیسکو کے 33 فیصد اور کیسکو کے 28 فیصد ہیں۔
میپکو 15 فیصد کے ساتھ پنجاب میں سب سے زیادہ خسارہ کرنے والا ادارہ ہے، اس کے بعد لیسکو 12 فیصد، گوجرانوالہ اور فیصل آباد 9 فیصد اور آئیسکو کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز 8 فیصد ہیں۔