دنیا

ممتاز شخصیات، انسانی حقوق کی تنظیموں کا ایران سے اداکارہ ترانہ علی دوستی کو رہا کرنے کا مطالبہ

آسکر ایوارڈ یافتہ فلم 'دی سیلز مین' میں پرفارمنس کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل کرنے والی 38 سالہ ترانہ علی دوستی کو ہفتے کے روز گرفتار کیا گیا۔

مشہور شخصیات اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اداکار ترانہ علی دوستی کو رہا کرے جو کہ تین ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن میں گرفتار ہونے والی سب سے نمایاں شخصیات میں سے ایک ہیں۔

38 سالہ ترانہ علی دوستی کو ہفتے کے روز گرفتار کیا گیا تھا، سرکاری میڈیا نے بتایا کہ انہیں احتجاجی تحریک کی حمایت کرنے والی سوشل میڈیا پوسٹس کے بعد گرفتار کیا گیا، اپنی پوٹس میں انہوں نے سر سے اسکارف اتارنے اور مظاہرین کو پھانسی دینے کی مذمت کی تھی۔

خیال رہے کہ ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں ایران کی اخلاقی پولیس کی تحویل میں ہلاک ہونے والی مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ایران بھر میں مظاہرے شروع ہوئے تھے۔

ایران نے گزشتہ ہفتے 2 افراد کو مظاہروں میں شریک ہونے وجہ سے پھانسی دے دی تھی، اس اقدام کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔

ایران امریکا اور دوسرے دشمنوں پر مظاہروں کو ہوا دے کر ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کا الزام لگاتا ہے۔

ترانہ علی دوستی کو ڈائریکٹر اصغر فرہادی کی ایوارڈ یافتہ فلموں بشمول آسکر ایوارڈ یافتہ 2016 کی فلم ’دی سیلز مین‘ میں پرفارمنس کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل ہے۔

انہوں نے روں سال کے کانز فلم فیسٹیول میں شہرت حاصل کرنے والی فلم ’لیلاز برادرز‘ کی تشہیر کے لیے شرکت کی جس میں انھوں نے اداکاری کی تھی۔

ساتھی اداکار گولشفتح فراہانی نے انسٹاگرام پر لکھا کہ ایران کی بہادر اداکارہ گرفتار ہو گئی۔

گولشفتح فراحانی نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایران میں کیاا لیکن اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے سربراہ کیمرون بیلی نے ٹوئٹر پر کہاترانہ علی دوستی ایران کی سب سے باصلاحیت اور مشہور اداکاروں میں سے ایک ہیں، مجھے امید ہے کہ وہ جلد ہی آزاد ہوں گی۔

ایرانی نژاد ممتاز برطانوی اداکار نازنین بونیادی نے بھی سوشل میڈیا پر علیدوستی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے لازمی حجاب کے بغیر اپنی تصویر پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

نیو یارک میں موجود سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران نے کہا کہ ایران میں خواتین کو زبردستی حجاب پہننے سے انکار کرنے پر گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جا رہا ہے، گرفتار افراد میں معروف اداکارہ ترانہ عل یدوستی بھی شامل ہیں۔

علی دوستی کی سب سے حالیہ سوشل میڈیا پوسٹ 8 دسمبر کو کی گئی، اسی دن 23 سالہ محسن شیکاری مظاہروں پر حکام کے ذریعے پھانسی پانے والے پہلے شخص بن گئے۔

اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ آپ کی خاموشی کا مطلب ظلم و جبر اور ظالم و جابر کی حمایت ہے۔

9 نومبر کو انہوں نے اسکارف کے بغیر اپنی ایک تصویر پوسٹ کی جس میں ایک کاغذ تھا جس پر ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے الفاظ درج تھے جو کہ احتجاجی تحریک کا بنیادی نعرہ ہے۔

اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے ایران نہ چھوڑنے کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں، سوشل میڈیا پر تہران میں بغیر حجاب کے ترانہ علی دوستی کی خریداری کی تصاویر بھی زہر گردش ہیں۔

عدلیہ کی میزان آن لائن نیوز ویب سائٹ نے کہا کہ اداکارہ کو عدالتی اتھارٹی کے حکم سے گرفتار کیا گیا جب کہ حکام نے احتجاج کے بارے میں اپنے دعووں کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزات فراہم نہیں کیں۔

رواں ہفتے کے دوران ہی میران آن لائن ویب سائٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایران کے دارالحکومت تہران کی عدالت کے سربراہ علی الغاسی مہر کا کہنا تھا کہ صوبے میں مظاہرین کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران 160 مظاہرین کو 5 سے 10 سال قید کی سزا، 80 افراد کو 2 سے 5 سال اور 160 افراد کو 2 سال تک قید کی سزا سنائی گئی۔

ایران نے گزشتہ ہفتے 2 افراد کو مظاہروں میں شریک ہونے وجہ سے پھانسی دے دی تھی، اس اقدام کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔

مظاہروں میں شریک ہونے والے ماجد رضا راہنورد اور محسن شکاری کو ’خدا سے دشمنی‘ کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی، دونوں کی عمریں 23 سال تھی۔

ان دونوں کی پھانسی سے قبل ایران کی عدالت کا کہنا تھا کہ مظاہروں میں شریک ہونے والے 11 افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی، تاہم دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکن کا کہنا تھا کہ ایک درجن سے زائد افراد کو اس طرح کے الزامات کا سامنا ہے جنہیں سزائے موت سنائی جاسکتی ہے۔

رواں برس 16 ستمبر کو احتجاج شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، ایران کے اعلیٰ سیکیورٹی ادارے نے 3 دسمبر کو کہا تھا کہ بدامنی میں 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

خیال رہے کہ یورپی یونین نے ایران میں جاری پُرتشدد مظاہروں کے دوران پھانسی کی پہلی سزا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مظاہرین کو دی جانے والی سخت سزاؤں کے خلاف برطانیہ نے ایران کے اہم عہدیداروں سمیت 30 شخصیات اور اداروں پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

کراچی ٹیسٹ: انگلینڈ 354 رنز بنا کر آؤٹ، دوسری اننگز میں پاکستان نے 21 رنز بنا لیے

وہ تین جوڑے جن کی طلاق کی افواہیں سال بھر گردش کرتی رہیں

جنرل (ر) قمر باجوہ کو توسیع دینا غلطی نہیں تھی، نیر بخاری