پاک-افغان بڑھتی کشیدگی: پاکستان کو صورتحال قابو میں لانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
افغانستان کے حوالے سے مختصر وقت میں پے در پے بہت سے واقعات پیش آچکے ہیں۔ افغانستان میں واقع پاکستانی سفارتخانے کی حدود میں پاکستانی سفیر پر حملہ کیا گیا اور ساتھ ہی چمن بارڈر پر بھی بلااشتعال فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 7 پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے۔
یہ واقعات تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو سمجھیں اور اس حوالے سے اپنی توقعات کا جائزہ لیں۔ اس سب میں اہم سوال یہ بھی ہے کہ افغانستان کے اس مایوس کن رویے پر ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہیے۔
انفرادی یا ملکی سطح پر پاکستان کے حوالے سے افغانستان کے رویے کی تفہیم کا دعویٰ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ تاریخی لحاظ سے 1979ء میں سوویت یونین کی عسکری مداخلت ایک اہم موڑ ثابت ہوا جس کی بنا پر پاکستان مجبور ہوا کہ وہ افغان جنگ میں کلیدی کردار ادا کرے۔
ابتدائی طور پر تو پاکستان نے سیاسی وجوہات کی بنا پر سوویت مداخلت کی مزاحمت کی، مگر جلد ہی بنیادی محرکات سیاسی مفادات سے بالاتر ہوگئے اور ان میں نظریاتی رنگ شامل ہوگیا۔ وہ لوگ جو پالیسی کو ترتیب اور معاملات سنبھال رہے تھے، وہ صرف شدت پسند اسلامی گروہوں کے ساتھ ہی خوش تھے۔
اس کا تعلق اس وقت کے صدر جنرل ضیاالحق کے اسلامی نظریات سے بھی تھا۔ انہوں نے ملک کو پشتونستان اور ڈیورنڈ لائن کی بحث سے دُور کردیا جس نے طویل عرصے تک باہمی تعلقات کو نقصان پہنچایا تھا۔ اگر کہا جائے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کا وجود ہماری پالیسیوں کا نتیجہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
ان شدت پسند عناصر کے ہاتھوں ہماری افغان پالیسی کو پہلا جھٹکا 1989ء کے دوران جلال آباد قتلِ عام کی صورت میں لگا تھا۔ انتہاپسندوں نے افغان فوج کے 100 سے زائد باغی سپاہیوں کو قتل کیا۔ اس محاصرے کے ذریعے شدت پسندوں نے نظم و ضبط، منصوبہ بندی حتیٰ کہ عام سمجھ بوجھ سے بھی لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔ وہاں ہم بھی انہیں رہنمائی فراہم کرنے میں کسی حد تک ناکام ہوئے تھے۔
مجھے افغان صدر محمد نجیب اللہ کی حکومت کے نائب وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ نجیب اللہ تو جلال آباد کو ناقابلِ دفاع علاقہ قرار دے چکے تھے اور وہ منصوبہ بندی کرر ہے تھے کہ کابل پر ممکنہ حملے کو سروبی کے مقام پر کیسے روکا جائے لیکن جلال آباد میں فوجیوں کے قتلِ عام نے پانسہ پلٹ دیا۔ اگر 1989ء میں سقوطِ جلال آباد عمل میں آتا تو یہ تنازع کو ایک نیا رخ دے سکتا تھا۔
ایسے متعدد مواقع ہیں جب افغان صدر نجیب اللہ اور امریکی مداخلت کے بعد حامد کرزئی اور اشرف غنی نے اسلام آباد سے رجوع کیا۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی افغان طالبان کو قابو میں کرنے اور ملک میں اپنے لیے مزید سیاسی جگہ بنانے کے لیے پاکستان کی مدد چاہتے تھے۔ لیکن پاکستان کے لیے یہ خیال بھی پُرکشش ثابت ہو رہا تھا کہ کابل میں ایک ایسی قابلِ اعتبار حکومت ہو جس میں افغان طالبان بھی کردار ادا کریں۔
اگرچہ اس بات کا کبھی باضابطہ اقرار تو نہیں کیا گیا لیکن ہم کابل میں دوستانہ حکومت اور اسٹریٹجک گہرائی کے بہانوں سے افغانستان کے معاملات میں دخل دیتے رہے۔ باشعور افغانی شہری بالخصوص افغان تارکین وطن طالبان کو افغانستان پر مسلط کرنے کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔
آج ہمارے افغانستان سے مطالبات بہت کم ہوچکے ہیں۔ ہم بس یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ طالبان حکومت کالعدم تحریکِ طالبان اور دیگر پاکستان مخالف عناصر کو ہماری سرحد سے دُور رکھے۔ یہ ایسے مطالبات ہیں جنہیں گزشتہ حکومتیں بھی پورا کرنے کو تیار تھیں۔ مگر ہم نے اس معاملے میں افغان طالبان پر بھروسہ کیا اور انہوں نے ہمیں مایوس کیا۔
یہاں یہ بحث چھڑتی ہے کہ آخر افغان طالبان کے اس تلخ رویے کے پیچھے وجوہات کیا ہیں؟ اس رویے کا اظہار سرحد پر اشتعال انگیزی اور طالبان رہنماؤں کے تلخ لہجوں سے ہوتا ہے جبکہ سرحدی باڑ تو افغان طالبان کو ہمیشہ سے چھبتی آئی ہے۔
کیا انہوں نے اس معاملے کو بڑھاوا اس لیے دیا ہے تاکہ اندرونی ناکامی سے توجہ ہٹائی جاسکے؟ کیا طالبان کے اندر ایسے دھڑے ہیں جو ان کے قابو میں نہیں ہیں؟ کیا کابل حکومتیں سیاسی حیثیت میں اضافے کے لیے پاکستان کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں؟ ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور دیگر شدت پسند تنظیمیں جو کبھی ان کے ساتھی تھے کیا طالبان انہیں ایک بار پھر پاکستان کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کی قبائلی پٹی میں حالات مزید پیچیدہ ہوں۔ یہ سب وہ سوالات ہیں جو وضاحت چاہتے ہیں۔
اگر ہم افغانستان کی دشمنی کی وجوہات کو نہیں سمجھ سکتے تو اس حوالے سے ہمارا ردِعمل تو واضح ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے سیاسی اور عسکری قیادت، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے رہنماؤں، دفترِ خارجہ اور انٹیلیجنس ایجنسیوں سب کی مشاورت سے فیصلے لینے ہوں گے۔ اس حوالے سے کچھ خیالات بھی ذہن میں ابھرتے ہیں۔
ہمیں ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے معاملے میں واضح مؤقف اپنانا چاہیے۔ متنازع پیغامات کا سلسلہ رکنا چاہے اور پاکستانی طالبان کو صرف ہتھیار ڈالنے کی صورت میں ہی پاکستان میں واپس آنے کی اجازت ملنی چاہیے۔
وہ ملک جو اپنی سرزمین پر مسلح گروہوں کو برداشت کرتا ہے اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان کو افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام کا نتیجہ عام لوگوں کی ہلاکت کی صورت میں سامنے آسکتا ہے جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوجائے گی۔ اس سب کے باوجود ہمیں پاکستان کے اندر اور سرحد پر ٹی ٹی پی کو بزور طاقت جواب دینا چاہیے۔
افغانستان کو اس معاملے میں کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر افغانستان سے ٹی ٹی پی اور دیگر انتہا پسند گروہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کریں گے (جنہیں ہم غیر دوستانہ اقدامات سمجتے ہیں) تو ہم بھی اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔ تاہم اس مقصد کے لیے ہمیں کسی کھلی یا چھپی غیر ملکی امداد کی امید نہیں لگانی چاہیے۔
ٹی ٹی پی سابقہ فاٹا کو آہستہ آہستہ اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی واپسی کو ہم نے نظر انداز کردیا ہے بالخصوص وزیرستان میں۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ ہماری سنگین غلطی ثابت ہوسکتی ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے اشتعال انگیزی کے باوجود افغان طالبان کے معاملے پر ہمیں حساسیت سے کام لینا ہوگا۔ افغان ذاتی طور پر خوددار ہوتے ہیں، اس بات سے نفرت کرتے ہیں کہ وہ کسی کی سرپرستی میں رہیں اور وہ اس بات سے بھی بے چین ہوجاتے ہیں جب انہیں پاکستان کی جانب سے کیے گئے احسانات یاد کروائے جاتے ہیں۔
ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ افغان ثابت قدمی کا احترام اور شائستگی کی توقع کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے انتقامی اقدامات سے دُور رہنا چاہیے جن سے افغانستان کے عوام کو نقصان پہنچے۔ ہمیں ان کی سہولت کاری جاری رکھنی چاہیے حتیٰ کہ ان کی معقول درخواستوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
شراکتی حکومت، خواتین کی تعلیم اور کام کرنے کے حق کے حوالے سے طالبان کا نظریہ بہت مختلف ہے۔ اس حوالے سے ہونے والی نتقید کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان (اور افغانستان) خطے کی جغرافیائی سیاست کا فائدہ اقتصادی ترقی کی صورت میں نہیں اٹھا سکتا۔
نظریاتی اعتبار سے افغان طالبان، پاکستان کے ساتھ ایک صفحے پر نہیں۔ مگر افغان طالبان اور پاکستان میں موجود طالبان ایک جیسے نظریات رکھتے ہیں جس سے ٹی ٹی پی کی جانب ان کی ہمدردی کی وضاحت ہوتی ہے۔
ان کے لیے دیگر تعلقات بھی اہم ہیں۔ اس طرح کی سوچ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں اور ہم خود بھی مذہب کو ڈھال بناتے آئے ہیں۔ مثال کو طور پر ہم نے صادق اور امین کی دو اسلامی خوبیوں کو توڑ مروڑ کے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس نکتے کے حوالے سے میں مزید بات کرنے سے گریز کروں گا۔
پاک-افغان تعلقات منفرد نوعیت کے ہیں۔ ہمیں ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم کروانے کے حوالے سے صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس سرحد پر زیادہ سختی نہیں کرنی چاہیے۔
شمالی سرحد سے ہمیں کوئی خطرات لاحق نہیں نہ ہی وہاں سے کوئی فوج پاکستان میں داخل ہوگی۔ 1965ء اور 1971ء میں افغانستان نے ہمیں یقین دہانی کروائی تھی کہ سرحد پر امن برقرار رہے گا۔ پشتونستان کا معاملہ تو کئی دہائیوں قبل سوویت کے ساتھ ہی دم توڑ گیا تھا۔
تاہم افغان طالبان کا تجربہ واضح کرتا ہے کہ ہم اپنی خواہشات افغانیوں پر مسلط نہیں کرسکتے۔ افغانستان سے ہمارے تعلقات ریاستوں کے آپسی تعلقات کے دائرہ کار تک ہی محدود رہنے چاہیئں۔
یہ مضمون 17 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری سابق سیکریٹری خارجہ ہیں اور مصنف ہیں۔ وہ 1965 سے 1969 تک پنجاب یونیورسٹی میں کوانٹم فزکس پڑھا چکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔