پاکستان

چمن بارڈر پر جھڑپ کے ایک دن بعد بھی کشیدگی برقرار

کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے چمن کا دورہ کیا، آج دونوں اطراف کے سینئر حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ بھی متوقع ہے۔

پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان مسلح جھڑپوں میں ایک شخص کی ہلاکت کے اگلے دن چمن بارڈر پر حالات پرامن رہے اور معمول کی تجارتی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جمعے کے روز افغان ناظم الامور کو بھی طلب بلا اشتعال فائرنگ پر احتجاج کیا جس میں 15 افراد زخمی ہوئے تھے۔

گوکہ صورتحال نسبتاً پرسکون رہی لیکن اس کے باوجود کشیدگی واضح تھی کیونکہ سرحد کے دونوں طرف کی افواج بھاری ہتھیاروں کے ساتھ چوکس کھڑی تھیں۔

کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے چمن کا دورہ کیا اور حکام سے ملاقات میں سرحد کی صورتحال کا جائزہ لیا۔

انہوں نے سرحد کے قریب رہنے والے قبائلی عمائدین، تاجروں، علمائے کرام اور چمن کے مقامی لوگوں سے ملاقات کی۔

لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے افغان فورسز کی گولہ باری سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا، انہوں نے متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ہر ممکن مدد اور تعاون کا یقین دلایا۔

اجلاس کے شرکا نے افغانستان کی جانب سے جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں برادر ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ باڑ کو ٹھیک اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان صورتحال کو خراب کرنے کے لیے ہر سطح پر اقدامات کیے جائیں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے دونوں اطراف کے قبائلی عمائدین پر زور دیا کہ وہ کشیدگی میں کمی اور دوسری طرف سے قریبی رابطہ برقرار رکھنے میں کردار ادا کریں۔

کور کمانڈر کوئٹہ نے کہا کہ چمن یا اسپن بولدک میں ہونے والے نقصانات سے کسی کو خوش نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے حملہ شروع نہیں کیا اور آئندہ بھی نہیں کرے گا۔

تاہم، انہوں نے ہر قیمت پر شہریوں کی حفاظت اور دفاع کا عزم ظاہر کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ ہفتہ کو دونوں اطراف کے سینئر کمانڈروں اور سرحدی حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ بھی متوقع ہے۔

اس دوران سرحد پر باب دوستی دن بھر کھلا رہا اور تجارتی سرگرمیاں معمول کے مطابق انئجام دی جاتی رہیں، دونوں اطراف کے مسافروں کو مطلوبہ قانونی دستاویزات دکھانے کے بعد سرحد پار جانے کی اجازت دی گئی۔

ٹرانزٹ ٹریڈ کو بھی معطل نہیں کیا گیا اور ٹرکوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت دی گئی۔