مسلم لیگ (ن) کی خام خیالی، عمران خان کی ضد اور پرویز الٰہی کی درخواست گزارانہ نصیحت
اس بات سے تو انکار نہیں کہ موجودہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں میں سب سے زیادہ سیاسی قیمت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ادا کی ہے، اور وہ اب بھی سمجھتی ہے کہ 8 ماہ میں ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہوجائے گی اور وہ سرخرو ہوکر نئے انتخابات میں اترے گی، لیکن خام خیالی کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔
بہت سارے اہم رہنما اپنے تجربات کی بنیاد پر روبرو بتاتے ہیں کہ حالات مزید خراب ہوں گے، پنڈی سے لے کر اسلام آباد تک سب ہی سنگینی کو سمجھ رہے ہیں لیکن کوئی بھی اپنی روش تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔
گزشتہ کچھ ہفتوں سے صدر عارف علوی اور وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان ملاقاتوں کی وجہ عمران خان کی جانب سے فوری عام انتخابات کروانے کا مطالبہ ہے جسے وفاقی حکومت پورا کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔
صدر مملکت کوشش کررہے ہیں کہ کوئی ایسی صورتحال بنے تاکہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں بھی واپس آجائے اور نئے انتخابات کے لیے جو نگران سیٹ اپ بنے اس میں عمران خان کی مرضی بھی شامل ہو اور انتخابات عمران خان کی خواہش کے تحت وقت سے پہلے ہوجائیں تاکہ ان کے لیڈر کی عزت رہ جائے اور وہ خود بھی ایک صلح جو کی حیثیت سے ملک میں مقبولیت حاصل کرلیں۔
لیکن عمران خان فوری طور پر قومی اسمبلی واپس جانے کو تیار نہیں۔ نتیجتاً آنے والے وقت میں جو بھی نگران سیٹ اپ ہوگا اس میں عمران خان کے بجائے ان کی ہی جماعت کے منحرف رکن راجا ریاض کی مرضی شامل ہوگی۔ ایک واقفِ حال کے مطابق یہ بات سابق فوجی قیادت کی جانب سے بھی پی ٹی آئی قائد کو سمجھائی گئی تھی، لیکن وہ منہ پر مان جاتے ہیں اور بعد میں مکر جاتے ہیں۔
جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ تک عمران خان وفاقی حکومت پر حاوی نظر آتے تھے مگر اب صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح نواز شریف نے ماضی میں جنرل باجوہ کو للکار کر اپنی جگہ پھر پیدا کرلی تھی شاید وہ بھی اس فارمولے کو استعمال کرکے کامیاب ہوجائیں، لیکن فی الحال دلی دور است! عمران خان کے اسی دباؤ بڑھانے کی روش کو دیکھ کر وفاقی وزراء پہلے اپنی پریس کانفرنسوں میں عمران خان کو لاڈلا کہتے تھے، لیکن فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد یہ شکایت بھی ختم ہوگئی ہے۔
اب جب پہلے والا دباؤ کام نہیں آیا تو عمران خان کے پاس دوسرا آپشن یہ ہےکہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنے وزرائے اعلیٰ سے کہیں کہ وہ صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں تاکہ وفاقی حکومت مجبور ہوجائے اور قومی اسمبلی کو بھی تحلیل کردے۔ نتیجے میں سندھ میں پیپلزپارٹی بھی اپنی اسمبلی تحلیل کردے گی۔ باقی رہا بلوچستان تو بدقسمتی سے اس سے شاید ہی کسی کو سروکار ہے۔
یوں ملک عام انتخابات کی طرف چلاجائے گا اور اس طرح عمران خان ایک بار پھر نہ صرف وفاق میں بلکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی اکثریت کے ساتھ حکومت بناسکتے ہیں۔ لیکن ان کے اپنے لوگ جو رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں ان کا کیا کیا جائے؟ پرویز الٰہی کے تیور دیکھ کر خیبر پختونخوا کی پی ٹی آئی قیادت نے واضح کردیا ہے کہ پنجاب اسمبلی جس دن تحلیل ہوگی اسی دن خیبر پختونخوا اسمبلی کو بھی تحلیل کردیا جائے گا۔
انتہائی دھیمے مزاج والے چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے سے عمران خان کو انکار نہیں کیا بلکہ ان پر واضح کردیا ہے کہ جب آپ کہیں گے، ایک منٹ کی دیر کے بغیر صوبائی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی۔ اس زیرک سیاستدان نے عمران خان کے ساتھ اپنے عہدِ وفا کا اعادہ تو کیا مگر ساتھ میں’لیکن’ کا لفظ بھی ٹانک دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے سمجھایا ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی تحلیل ہوگئی تو نہ صرف ہماری حکومت ختم ہوجائے گی بلکہ نگران سیٹ اپ میں جو انتخابات ہوں گے ان میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ وفاقی حکومت کے لیے یہ آسان ہوجائے گا کہ وہ آپ کو گرفتار کرلے۔ یعنی سیانے وزیرِ اعلیٰ نے مالی نقصان کے ساتھ گرفتاری والا خوف بھی دلا دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی آدھی مسلم لیگ (ق) کے اہم رہنماؤں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اگر صوبائی اسمبلی تحلیل ہوگئی تو نئے انتخابات میں وہ کتنی سیاسی قوت حاصل کرسکیں گے اس کا کچھ پتا نہیں۔ ساتھ وہ عمران خان کے ساتھ مکمل تعلق توڑنے کا خطرہ مول لینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
موجودہ صورتحال میں وہ عمران خان کے ساتھ بارگیننگ کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں، اس لیے وہ صرف اپنے محسن کو درخواست گزارانہ انداز میں نصیحت ہی کرسکتے ہیں کہ اگر صوبائی اسمبلی توڑ دی گئی تو اس کے کتنے نقصانات ہوں گے۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل یا ارکان کے استعفے
اس وقت اسلام آباد میں طاقت کی راہداریوں میں ایک یہ خیال غالب ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی تحلیل ہوگئی تو صرف وہاں انتخابات ہوں گے اور نئی وجود میں آنے والی صوبائی اسمبلی کی مدت 5 سال ہوگی۔ دوسرا خیال یہ کہ اگر پرویز الٰہی عمران خان کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو پی ٹی آئی کے پاس یہ آپشن ہوگا کہ اس کے تمام ارکان مستعفی ہوجائیں تاکہ پرویز الٰہی ان کی حمایت سے محروم ہوجائیں۔
اگر صوبائی اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے اور پنجاب بھر میں نئے انتخابات ہوتے ہیں تو عمران خان کو یقین ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے پنجاب میں حکومت بنالیں گے۔ اس کے بعد قومی اسمبلی اور باقی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پنجاب حکومت کے وسائل کے ساتھ زیادہ بہتر طریقے سے لڑسکیں گے اور قومی اسمبلی میں زیادہ اکثریت لے آئیں گے۔ نتیجے میں ملک کے ایک بڑے حصے پر ان کی حکمرانی ہوگی۔
اگر پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو کیا ہوگا؟
اس سلسلے میں پارلیمانی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافیوں کی رائے ہے کہ اس صورتحال میں عمران خان کے لیے ایک نیا امتحان شروع ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے ارکان اگر پنجاب اسمبلی سے مستعفی ہوجاتے ہیں تو ان خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے اور ان نشستوں پر منتخب ہوکر آنے والے ارکان کے عہدے کی عمر ایک سال بھی نہیں ہوگی۔ ایسی صورتحال میں کون کروڑوں روپے خرچ کرے گا؟ جبکہ اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی بھی یا نہیں؟
اسمبلی تحلیل نہ ہونے کی صورت میں جب تک گورنر وزیرِاعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا نہ کہے یا اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ آجائے اس وقت تک 10 نشستوں والے سی ایم کو کوئی نہیں چھیڑ سکتا۔
مجھے مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے کہا کہ ’عمران خان کی قبل از وقت انتخابات کی کوشش کو پرویز الٰہی اور پی ڈی ایم مل کر ناکام بناسکتے ہیں‘۔
میں نے سوال کیا کہ کیسے؟ تو جواب آیا کہ ’اگر پرویز الٰہی صوبائی اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو عمران خان کے پاس اپنی انا کی تسکین کے لیے ایک ہی حل بچ جاتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے تمام ممبران کو مستعفی کروادیں تاکہ پرویز الٰہی ان کی حمایت سے محروم ہوجائیں، لیکن اس کے باوجود وہ وزیراعلیٰ رہیں گے‘۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ جب تک گورنر وزیرِ اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کو نہ کہے یا ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ آجائے، وہ اپنی موجودہ پوزیشن پر برقرار رہیں گے۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) اور دیگر حکومتی جماعتیں اس لیے خاموش ہیں کہ وہ فی الحال پرویز الٰہی سے رابطہ کرکے ان کی اہمیت نہیں بڑھانا چاہتیں کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ عمران خان کی بات اگر پرویز الٰہی نے نہ مانی تو وہ جو بھی فیصلہ کریں گے اس کا فائدہ وفاقی حکومت کی جماعتوں کو ہی ہوگا۔ کیونکہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب درجنوں ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان کرچکے ہیں اور ان منصوبوں کی تکمیل سے ہی وہ ان اضلاع میں مستقبل میں اپنی سیاسی حمایت بڑھا سکتے ہیں۔ اس لیے ان کی حمایت کے بغیر ان کا چلنا مشکل ہوجائے گا۔
پرویزالٰہی کو اس بات کی بھی اب قطعی امید نہیں کہ اگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوجاتے ہیں تو نئے سیٹ اپ میں اکثریت حاصل کرنے کے نتیجے میں پی ٹی آئی انہیں دوبارہ وزارتِ اعلیٰ کا منصب دے۔ انہیں مستقبل کی امید نہیں یعنی جو کچھ ہے وہ ابھی ہے، بعد میں کچھ بھی نہیں۔ اس لیے اس وقت عمران خان سے زیادہ کڑا امتحان پرویز الہٰی کے لیے بھی ہے۔ فی الحال تو وہ زیادہ اہم لگ رہے ہیں لیکن اگر وہ عمران خان کی بات نہ مان کر موجودہ منصب پر فائز رہنا چاہتے ہیں تو انہیں پھر (ن) لیگ کا محتاج ہونا پڑے گا۔ موجوہ صورتحال صرف ایک ہی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے کہ عمران خان پیچھے ہٹ جائیں۔
قومی اسمبلی کے مستعفی اراکین
اب آتے ہیں قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی ارکان کے مستعفی ہونے کی طرف۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ارکان سمیت ایوان میں آئیں گے اور مستعفی ہونے کا اعلان کریں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی نشستیں خالی ہوجائیں گی اور حکومت مجبور ہوجائے گی کہ 108 جنرل نشستوں پر انتخابات کروانے کے بجائے نئے عام انتخابات کی طرف جائے۔
اس سلسلے میں قومی اسمبلی کے ایک اعلیٰ افسر سے جب بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ معاملے کو جتنا سادہ انداز میں بیان کیا جا رہا ہے اتنا سادہ ہے نہیں، اس طرح تو شاہ محمود قریشی بھی ایوان میں اپنے ارکان کے ساتھ مستعفی ہونے کا اعلان کرکے نکل گئے تھے لیکن اس طرح دیے گئے استعفے نہ پہلے کبھی قبول ہوئے اور نہ اب ہوں گے۔
میں نے سوال کیا کہ ’اگر ایک ایک رکن ایوان میں کھڑا ہوکر اپنے استعفیٰ کا اعلان کرے تو پھر ہوگا کیا؟ میرے سوال پر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایک ہی مروجہ طریقہ کار ہے کہ مستعفی ہونے والا رکن اسپیکر کے روبرو ان کے دفتر میں پیش ہو، اسپیکر ان سے مستعفی ہونے کے حوالے سے سوالات کرے گا اور اس کے بعد اسپیکر کا استحقاق ہے کہ وہ اسے قبول کرے یا نہیں۔
لیکن عمران خان تو بضد ہیں کہ کوئی بھی رکن انفرادی حیثیت میں اسپیکر کے سامنے نہیں جائے گا جبکہ ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان خود بھی اسپیکر کے روبرو پیش ہوں گے؟ ابھی تک تو اس کا جواب ہے ’نہیں‘۔
نئے آرمی چیف کی تقرری سے پہلے تک عمران خان کا دباؤ برقرار نظر آتا تھا لیکن اب وہ دباؤ بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ پنڈی والی سرکار عمران خان کی سننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ جس طرح بحیثیت آرمی چیف جنرل باجوہ کے خلاف عمران خان نے ایک منظم مہم چلائی، اس پر ان کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں وقت لگے گا۔
عمران خان سے اسٹیبلشمنٹ کے رویے کے باعث مسلم لیگ (ن) مزید شیر بن گئی ہے، وہ یہ سمجھتی ہے سیاسی میدان میں وہ پی ٹی آئی کو پچھاڑ دے گی اور ریفری کے نیوٹرل ہونے کی وجہ سے ہار جیت کے فیصلے میں بھی کسی شک کا شبہ نہیں رہے گا۔
لیکن ان سب چیزوں کے باوجود موجودہ حکومت کی جماعتوں میں سب سے زیادہ سیاسی قیمت مسلم لیگ (ن) نے ادا کی ہے، وہ سمجھتی ہے کہ 8 ماہ تک ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہوجائے گی اور وہ سرخرو ہوکر نئے انتخابات میں اترے گی۔ لیکن آثار بتاتے ہیں کہ یہ اس کی خام خیالی ہے، مالی اور سیاسی بحران مزید بڑھتا جائے گا اور وہ اس دلدل میں مزید دھنستی جائے گی۔
عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔