منی مرگ سے صاحب کی بیٹھک تک کا یادگار سفر
پاکستان کے بلند و بالا کوہساروں، زرخیز میدانوں، خوبصورت جھرنوں اور آبشاروں، سمندر کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں اور خوبصورت ریگستانوں کو دیکھنے کے بعد یہی کہنے پر مجبور ہوں کہ پاکستان جتنا خوبصورت ملک ہے شاید اس کا کسی کو ابھی تک صحیح اندازہ ہی نہیں۔
پاکستان کے طول و عرض کی سیر تو عرصہ دراز سے جاری ہے اور جب بھی کسی نئی جگہ پر پہنچتا ہوں تو وہ مجھے پاکستان کا خوبصورت ترین علاقہ لگتا ہے، مگر جیسے ہی کسی اور علاقے پہنچتا ہوں تو پھر وہ جگہ مجھے خوبصورت ترین مقام لگنے لگتی ہے۔
تاؤبٹ کی بے پناہ خوبصورتی، شونٹر وادی کے سرسبز میدان، وادی جہلم کا جھومر وادی لیپہ، تھک نالہ کا تیز بہتا پانی، اسکردو کا برف سے ڈھکا ریگستان، پاسو کونز جیسے قراقرمی پہرے دار، دیوسائی کے میدان اور خوبصورت جھیلیں، یہ سب اپنی اپنی جگہ پر انتہائی خوبصورت علاقے ہیں مگر منی مرگ میں شاید قدرت نے اس طرز کی خوبصورتی کے تمام لوازمات جیسے سمو دیے ہوں۔
منی مرگ جغرافیائی لحاظ سے کشمیر جبکہ انتظامی لحاظ سے گلگت بلتستان کا ایک انتہائی خوبصورت گاؤں ہے۔ تاؤبٹ سے براستہ کامری ٹاپ جبکہ قراقرم ہائی وے سے براستہ استور چلم روڈ اس خوبصورت گاؤں تک پہنچا جاسکتا ہے۔
گلگت بلتستان کے رہائشی صدیوں قبل براستہ برزل ٹاپ اسی راستے کے ذریعے سری نگر پہنچا کرتے تھے۔ تجارتی رسد پہنچانے کے لیے راستے میں منی مرگ کے 3 گاؤں یقیناً دُور دراز سے آنے والوں کے لیے مہمان نوازی کے وصف سے لطف اندوز ہونے کے لیے موقع دیتے ہوں گے۔ میرے پردادا نے شاید اسی راستے کے ذریعے انگریز سرکار کے دور میں جموں کشمیر سے گلگت میں آکر کئی طلبا کو شرف تلمذ بخشا ہوگا۔
انہی سوچوں کے ساتھ میں تیسری مرتبہ برزل ٹاپ کی بلندی پر جا پہنچا۔ پہلی مرتبہ 5 سال قبل چند کوہ نوردوں کے ساتھ تاؤبٹ سے براستہ بلورکسی اور پھر آرمی ریسٹ ہاؤس چلم چوکی میں ایک رات گزارنے کے بعد جب برزل ٹاپ کی بلندی پر پہنچا تو نظارہ قابلِ دید تھا۔ برزل پاکستان کی خوبصورت ترین ٹاپ میں سے ایک ہے۔ بابوسر ٹاپ یا خنجراب ٹاپ کی نسبت یہ زیادہ پُرسکون اور صاف ستھری جگہ ہے جبکہ منفرد طرز کے برف سے ڈھکے پہاڑوں کے درمیان تیز اور یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے موسمِ گرما میں اس کا نظارہ ناقابلِ بیان ہے ۔
یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس سال 80 بریگیڈ کی طرف سے عوام کے لیے اجازت نامہ کھل جانے کی وجہ سے 2 مرتبہ منی مرگ جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مزید برآں گزشتہ سال موسمِ سرما میں پہلی مرتبہ برزل ٹاپ پاکستان آرمی کی ان تھک محنت کی بدولت کھلا رہا اور عوام الناس کے لیے زندگی کا نظام منقطع ہونے کے بجائے چلتا رہا۔
برزل ٹاپ سے کچھ کلومیٹر بعد راستہ بھول بھلیوں کی طرح چلتا رہتا ہے۔ اس پُرخطر راستے پر مہارت رکھنے والے ڈرائیور ہی گاڑی چلاسکتے ہیں۔ دُور سے منی مرگ کے گاؤں کا نظارہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ منی مرگ گاؤں پہنچ کر سیاح حضرات کو 80 بریگیڈکے ہیڈکوارٹر پر سیکیورٹی جانچ پڑتال کروانےکے لیے کچھ لمحات کو رکنا پڑتا ہے۔ اس خوبصورت مقام کے مغربی جانب مشہور زمانہ کامری ٹاپ کا راستہ 14 کلومیٹر کی دُوری پر ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ گاؤں میں ترقیاتی کام جاری رہا ہے اور اب ایک عمدہ فیلڈ اسپتال کا حال ہی میں افتتاح ہوا ہے۔
کچھ دیر سستانے کے بعد اب ہماری منزل دومیل کی جھیل تھی۔ راستے میں منی مرگ ون اور ٹو (مپنو آباد) کے گاؤں پار کرنے کے بعد جلد ہی مشہور چیڑھ کے جنگل کو پیچھے چھوڑ کر دومیل جھیل کے عقب میں جاپہنچے۔ چلم سے سورج ڈھلنے کے بعد ہم روانہ ہوئے تھے لہٰذا دومیل پہنچنے تک رات ہوچکی تھی اور صاف آسمان اور چمکتا چاند ہمارے ہمسفر رہے۔
ایک وقت تھا جب دومیل میں رات قیام کرنا ناممکن تھا مگر کچھ عرصہ قبل یہاں ٹینٹ سروس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ رات کی خنکی میں ہاتھ تاپتے ہوئے اس خیمہ بستی میں شب بسری ایک بہت ہی پُرلطف تجربہ رہا۔ علی الصبح اپنے پسندیدہ مقام دومیل جھیل پیدل ہی جاپہنچے۔
دومیل جھیل کو ریمبو جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ اس خوبصورت علاقے کو جدت دینے کا سہرا سابق صدر پرویز مشرف کو جاتا ہے۔ بہرکیف ریمبو جھیل کا نیلگوں پانی آنکھوں کی شادابی کا باعث بنتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے جنت کے کسی گوشے میں قدم رکھ دیا ہو۔
بریگیڈ کے سابق کمانڈر کے مطابق شايد اسے ریمبو جھیل اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ جب بھی بارش کے بعد جھیل پر قوس قزح اپنا رنگ دکھاتا ہے تو 2 ریمبو بنتے ہیں۔ ریمبو جھیل کے ساتھ ہی کرسٹل جھیل واقع ہے جس کو سیون اسٹریم لیک بھی کہتے ہیں۔ شدید ٹھنڈے پانی کے 7 عدد چشمے اس جھیل میں گرتے ہیں اور جھیل کی خوبصورتی کی وجہ بنتے ہیں۔ یوں یہ جڑواں جھیلں اس علاقے کا جھومر ہیں۔
عرض کرتا چلوں کہ یہاں صرف یہی جڑواں جھیلیں نہیں بلکہ اگر یہاں داخل ہوتے وقت ریمبو جھیل کے سرے کی طرف کھڑا ہوکر سیدھا دیکھا جائے تو ایک بہتا ہوا نالہ ریمبو جھیل کی زینت بنتا نظر آتا ہے۔ سیدھ میں نالے کے ساتھ ساتھ 8 سے 9 گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد نیرو کی جڑواں جھیلوں تک پہنچا جاسکتا ہے۔ انہی جھیلوں سے مزید 2 گھنٹے کی مسافت پر غلام سر کی 2 اور جڑواں جھیلیں اس علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہیں۔
یہ جھیلیں سرحد پر موجود بانڈی پورہ ڈسٹرک میں آتی ہیں۔ اس طرح ریمبو جھیل کے داخلی سرے سے دائیں جانب ایک دن کی مسافت پر مشہور زمانہ جے آر بی کی جڑواں جھیلیں نظر آتی ہیں جو بلندی کے اعتبار سے اس علاقے کی اونچی جھیلیں ہیں جبکہ بائیں جانب ایک دن کی مسافت پر ایک مشہور دل نما جھیل بھی موجود ہے۔
جھیل کے اردگرد موجود پہاڑ نہ صرف مخملی قالین اوڑھے ہوئے ہیں بلکہ کئی پہاڑ سرمئی رنگ کے بھی ہیں۔ برج اور چیڑھ کے خوبصورت درخت، سرسبز گھاس، مختلف رنگت کے پہاڑ اور سفید اور نیلی رنگت کی جھیلوں کا پانی ان علاقوں کو سحر انگیز بنا دیتے ہیں۔ کچھ دیر جھیل کنارے بیٹھ کر جب لفاظی کرنے کی کوشش کی تو دوبارہ اس علاقے کی خوبصورتی میں کھو گیا اور پھر جلد ہی واپسی کا قصد کرلیا کہ کہیں اس علاقے میں ہی ہمیشہ رہنے کا خیال میرے دل میں میخ کی طرح پیوست نہ ہوجائے۔
واپس استور پہنچے تو ہمارے مقامی دوستوں دولت خان اور ہمایوں کی معرفت معلوم ہوا کہ ایک ایسا خوبصورت علاقہ ابھی دیکھنا باقی ہے جو ہمیں منی مرگ سے جدائی کا احساس جلد بھلا دے گا۔ پہلے تو ہم نے اس بات کو مذاق سمجھا لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ وہ ہماری آوارہ گردی اور کوہ نوردی کی صلاحیت کی وجہ سے ہمیں ایسے علاقے کی طرف بھیج کر اسے عوام الناس کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔
یہ مقام ’صاحب کی بیٹھک‘ ہے اور جلد ہی ہم نے تک یہاں تک رسائی کا ارادہ کرلیا۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم نے اپنا سفر استور شہر سے شروع کیا جو بذریعہ جیپ تھا۔ ناشتہ گوری کوٹ میں۔ چورت کے مقام پر ہم دریائے روپل پر قائم پُل پار کرکے رٹو چھاؤنی کی طرف مڑگئے۔ اب ہمارا سفر دریائے ریاٹ کے ساتھ ساتھ تھا۔ رٹو چھاؤنی سے ہم نے دریائے ریاٹ کو الوداع کہا اور دائیں طرف میر ملک نالے کے ہم قدم ہوگئے۔
داؤ جیل گاؤں اور چمروٹ کے مقامات سے گزرتے ہوئے میر ملک گاؤں پہنچے۔ استور شہر سے 3 گھنٹے کا سفر کرکے ہم شونٹر پاس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ہماری دائیں جانب مشہور شونٹر پاس تھا جہاں سے براستہ کیل بکروال صدیوں سے پیدل سفر کرکے پہنچتے تھے جبکہ مخالف سمت میں پھلاوائی وادی نیلم کے قرب و جوار کے پہاڑ واقع تھے۔ قرب میں چند خانہ بدوش بھی آباد ہیں۔ شونٹر پاس کی طرف سے آنے والی ندی کو ایک ایسے پُل سے پار کیا جو لکڑی کے 2 شہتیروں کے درمیان پتھر کی سلیں رکھ کیا تیار کیا گیا تھا۔
ہم 3 ٹریکرز نے شام 4 بجے اپنی ٹریکنگ کا آغاز کیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق ہمیں اس آبشار تک پہنچنے میں کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کا وقت درکار تھا۔ غزنوی بھائی کی رہنمائی میں ہم آبشار کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ انتہائی آسان تھا، گھاس میں پوشیدہ چند ڈھلوانیں پار کیں تو ایک گمنام جھیل کےکنارے جا اترے۔ یہ جھیل اگرچہ چھوٹی تھی لیکن باقاعدہ الپائن جھیل تھی۔ یہاں سے آگے راستے میں پتھر اور چٹانیں تھیں جن پر ہمیں احتیاط سے قدم اٹھانا پڑے۔ تھوڑی بلندی سے نیچے اترے تو ایک اور خوبصورت جھیل کا دیدار نصیب ہوا۔ یہ جھیل بھی ایک الپائن جھیل ہی تھی جو پچھلی جھیل کی نسبت قدرے بڑی تھی۔
دُور پہاڑوں کی نوکیلی چوٹیاں فلک سے محو گفتگو تھیں۔ ان چوٹیوں کے نیچے ایک بڑا گلیشیئر نظر آرہا تھا جس کا دل موہ لینے والا نظارہ بہت ہی بھلا معلوم ہورہا تھا۔ کچھ آگے بڑھے تو تیسری جھیل کا دیدار نصیب ہوا اور پھر دُور سے آبشار کے گرنے کی کھنکتی آواز نے توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔
یہاں بھی چند خانہ بدوش آباد ہیں اور اپنے گاؤں کو ’صاحب کی بیٹھک‘ کا نام دیتے ہیں۔ گاؤں کی خوبصورتی نے مجھے اپنا گرویدہ کرلیا اور سوچنے پر مجبور کردیا کہ عجب گورے لوگ تھے جو صدیوں قبل منی مرگ اور صاحب کی بیٹھک تک جاپہنچے اور ہم اب تک ان جگہوں کے دیدار سے محروم رہے۔ شاید واقعی ہم اپنے ملک کی خوبصورتی کو ابھی تک پہچان نہیں سکے۔
اس گاؤں کے قریب بھی ایک خوبصورت جھیل موجود تھی۔ چلتے چلتے اب ہم ایک میدان میں داخل ہوچکے تھے۔ اس میدان میں میر ملک کی ندی میدان کا سینہ چیرتے ہوئے چند شاخوں میں تقسیم ہوکر بہہ رہی تھی۔ بعض شاخوں میں پانی مٹیالہ اور بعض میں نیلا تھا۔
نیلے رنگ کا پانی 3، 4 جھیلوں کا تھا جبکہ مٹیالے رنگ کا پانی دیوقامت آبشار کے بطن سے نکل رہا تھا۔ ایک مقام پر مٹیالے رنگت کا پانی شفاف نیلے پانی میں ضم ہورہا تھا اور ڈرون سے یہ منظر قابلِ دید تھا۔ نظروں کو بھلا لگنے والا میدان گھاس کا مخملی قالین اوڑھے ہوئے تھا۔ کچھ دیر آرام کیا اور آرام کے دوران عکس بندی سے محظوظ ہوئے۔ یاک کا مکھن بطور سالن تازہ روٹی کے ساتھ نوش کیا اور پھر آبشار کی جانب ایک بار پھر سفر شروع کردیا۔
نالہ پار کرکے آبشار کی طرف چلے لیکن ہمارا راستہ بڑی ندی نے روک لیا۔ اسے پار کرنا ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ ماہ اگست میں پانی کی مقدار قدرے کم تھی لیکن پھر بھی لاچار ہوکر آبشار کو دیکھ رہے تھے اور چلتے چلتے ہم اس ندی کے بہاؤ کی مخالف سمت ایک اور جھیل پر جا پہنچے۔ اس مقام سے آبشار کم و بیش 800 میٹر کے فاصلے پر تھی لیکن چہرے پر پڑتی ہلکی پھوار ہمیں آبشار کے قریب جانے کے لیے اکسا رہی تھی۔ اس آبشار کا شور اس قدر زیادہ تھا کہ کان میں بات کرکے ہی بات سنائی دیتی تھی۔ آبشار کا پانی پہاڑ کی چوٹی سے 3 حصوں میں گرتا ہے۔ یہ خوبصورت آبشار 700 سے 800 فٹ اونچائی سے گرتی ہے اور شاید پاکستان کی بڑی آبشاروں میں اس کا شمار ہوتا ہوگا۔
شام ہوچکی تھی۔ لہٰذا آبشار کے قریب پہنچنے کا راستہ تلاش کرنا اب ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ شاید اس مرتبہ قدرت ہمیں ابھی آبشار کے چرنوں میں بیٹھنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہتی تھی۔ ویسے تو قدرت کا ہر رنگ ہی خوبصورت ہوتا ہے لیکن میرے پسندیدہ مقام منی مرگ کی خوبصورتی میر ملک کے میدان میں موجود ’صاحب کی بیٹھک‘ اور اس کی دل موہ لینے والی آبشار کے سامنے ڈھلتی ہوئی نظر آئی۔
اس خوبصورت وادی میں سرسبز مخملی گھاس، ندی نالے، آبشاریں، جھرنے، جھیلیں، مختلف رنگوں کے پہاڑ اور ایک خوبصورت گلیشیئر موجود ہیں جو اسے میری نظر میں پاکستان کا خوبصورت ترین علاقہ بناتے ہیں۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ میری خود ساختہ یہ ریٹنگ اگلے کچھ عرصے تک کے لیے ہی ہوگی کیونکہ پاکستان کے ابھی بہت سے خوبصورت علاقے ڈھونڈنا باقی ہیں۔
جیپ کے 3 گھنٹے طویل اور تھکا دینے والے اور ایک گھنٹے کے پیدل سفر نے اگرچہ تھکا دیا تھا مگر جس قدر قدرتی حُسن یہاں بکھرا ہوا ہے اس کے مقابلے میں راستے کی مشکلات کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس امید کے ساتھ ایک کوہ نورد ان مقامات کی خوبصورتی کو قلم بند کررہا ہے کہ شاید قدرت کا متلاشی کوئی اربابِ اختیار اس خوبصورت جگہ تک پہنچ جائے اور یہاں کے مکینوں کی زندگی آسان کرنے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کرسکے۔
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔