پاکستان

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کو پولیس افسران کے قبل از وقت تبادلوں سے روک دیا

پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومت پولیس آرڈر 2002 پر عملدرآمد کرے، مقررہ وقت سے پہلے تبادلہ ناگزیر ہو تو وجوہات تحریر کی جائیں، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومت کو پولیس آرڈر 2002 پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے پولیس افسران کے قانون میں درج وقت سے پہلے تبادلوں سے بھی روک دیا تاکہ بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے عوام میں بے چینی کو ختم کیا جاسکے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پولیس افسران کے سیاسی بنیادوں پر تبادلوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران یہ ہدایات جاری کیں۔

رانا طاہر سلیم اور محمد جاوید کی جانب سے دائر درخواست میں عدالت کو پولیس آرڈر 2002 کی مبینہ خلاف ورزی سے آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ لاہور کے 9 کیپیٹل سٹی پولیس آفسر (سی سی پی او) اور 8 انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) کو 7 جون 2018 سے 29 اگست 2022 کے درمیان تبدیل کیا گیا۔

درخواست میں بتایا گیا کہ تواتر سے تبادلوں کی وجہ سے سی سی پی اوز اور آئی جیز کا اوسط دورانیہ بالترتیب 4.5 اور 6.2 مہینے رہا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقررہ وقت سے پہلے تبادلہ ناگزیر ہو تو وجوہات تحریر کی جائیں، کسی بھی افسر کو سینئر پولیس افسر کی مشاورت کے بغیر نہ ہٹایا جائے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ سندھ اور بلوچستان میں بھی کیوں نہ گڈ گورننس کا یہی فارمولہ اپنایا جائے؟

چیف جسٹس سندھ اور بلوچستان پولیس سے بھی تبادلوں اور تقرریوں سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے گی یا عدالت حکم دے؟ صوبائی حکومت سے ہدایات لے کر آگاہ کریں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جرائم اور عدم تحفظ کی وجہ سے عوام متاثر ہو رہے ہیں، پولیس افسران کے تبادلے اراکین اسمبلی کے کہنے پر نہیں ہونے چاہئیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق 3 سال سے پہلے سی پی او یا ڈی پی او کو ہٹایا نہیں جاسکتا، ڈی پی او اور سی پی او تعینات کرنا آئی جی کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا تمام تعیناتیاں آئی جی کرتے ہیں؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے مطابق افسران کو قبل از وقت ہٹانے پر پابندی نہیں لیکن طریقہ کار پر عمل کیا جائے، تاثر ہے پولیس کو حکومتیں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق تو تحقیقاتی افسران کوپولیس کے دیگر کاموں سے الگ ہونا چاہیے، تحقیقاتی افسران کا الگ کیڈر ہونا چاہیے تاکہ وہ مکمل آزاد ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس میں تفتیش کی مہارت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ناقص شواہد پیش کیے جاتے ہیں، جن سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے، ملزمان کو پولیس فائدہ دے گی تو مظلوم کہاں جائے گا؟

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ پولیس افسران کے تبادلے مشاورت سے ہی ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے یاد کیا کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہی سابق وزیر اعظم عمران خان پر (وزیر آباد) حملے کا مقدمہ درج نہیں ہو رہا تھا، کئی دن گزرنے کے بعد سپریم کورٹ کو اندراج مقدمہ کا حکم دینا پڑا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے تو عدالتی حکم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں جبکہ وکلا پر حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نوٹس دینے کے باوجود خیبرپختونخوا حکومت نے پولیس میں تبادلوں کے حوالے سے رپورٹ جمع نہیں کروائی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے تبادلوں کے حوالے سے اس لیے نوٹس لیا ہے کیونکہ عام عوام متاثر ہو رہے ہیں، پولیس افسران کے تبادلوں اور پوسٹنگ کی وجہ سے پورا نظام متاثر ہورہا ہے۔

عدالت نے ہدایات جاری کرنے کے بعد مزید سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

اکتوبر میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 7.75 فیصد کمی

استعفوں کے حوالے سے پیش ہونے کیلئے اسپیکر کو خط لکھ دیا ہے، شاہ محمود قریشی

فیروز خان اور علیزے سلطان کے درمیان بچوں کے اخراجات سے متعلق اتفاق نہ ہوسکا