ایک ہی جرم پر متعدد ایف آئی آرز کا اندراج خلافِ قانون ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ایک ہی واقعے کی متعدد ایف آئی آرز کا اندراج خلاف قانون ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سیکریٹری اطلاعات و نشریات شاہرہ شاہد، منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی ویژن سہیل علی خان اور ڈائریکٹر نیوز راشد بیگ کی جانب سے پنجاب میں ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کی۔
دوران سماعت جج نے اسی جرم پر ان کے خلاف مزید ایف آئی آر کے اندراج سے روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ ان تمام معاملات کو ایک ساتھ نمٹائے گی۔
پنجاب پولیس نے پی ٹی وی پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں جاوید لطیف کی پریس کانفرنس نشر ہونے پر جاوید لطیف کے خلاف پاکستان پینل کوڈ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت متعدد ایف آئی آر درج کی تھیں۔
14 ستمبر کو پریس کانفرنس کے دوران جاوید لطیف نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف مذہبی بنیادوں پر تشویش ناک الزامات عائد کیے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایک ہی جرم پر سرکاری افسران کے خلاف مختلف ایف آئی آر کیسے درج کی جا سکتی ہیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم خان سواتی کے خلاف بلوچستان اور سندھ میں ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق حکومت پنجاب کا اقدام اپنے ہی مؤقف سے متصادم ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر صوبائی بیوروکریسی مرکز کے خلاف ایسے اقدامات کرے گی اور وفاقی بیوروکریسی اس کا جواب دے گی تو انتشار کی صورتحال پیدا ہوگی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال ڈگر نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکومت پنجاب نے پی ٹی وی حکام کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے پنجاب میں موجود متعلقہ ذمہ دار افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرے گی۔
فاضل جج نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدور سے معاونت طلب کی اور متعلقہ حکام کو عدالت کی اجازت کے بغیر پی ٹی وی اہلکاروں کے خلاف کوئی نئی ایف آئی آر درج کرنے سے روک دیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی مختلف عدالتوں میں سماعت کے دوران ایک سے زائد ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ اٹھایا جا چکا ہے۔
9 دسمبر کو بلوچستان ہائی کورٹ نے اعظم سواتی کے خلاف صوبے میں درج پانچوں مقدمات کو کالعدم قرار دینے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کے خلاف متعدد مقدمات درج کرنے پر پولیس کی سرزنش کی، یہ مقدمات ان متنازع ٹوئٹس پر درج کیے گئے تھے جو اعظم سواتی نے فوجی اہلکاروں کے خلاف پوسٹ کی تھیں۔
سندھ پولیس نے بھی سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف ان ہی الزامات پر 4 ایف آئی آر درج کی ہیں جو اس وقت قمبر شہداد کوٹ پولیس کی تحویل میں ہیں۔
12 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی پولیس کو ہدایت کی کہ 15 دسمبر تک اعظم سواتی کو مزید مقدمات میں گرفتار نہ کیا جائے۔
ہائی کورٹ نے سندھ کے پراسیکیوٹر جنرل اور آئی جی کو بھی ہدایت دی تھی کہ وہ ریکارڈ کا جائزہ لیں اور سندھ میں درج تمام مقدمات کا موازنہ اعظم سواتی کے خلاف اسلام آباد میں درج کیس سے کریں۔
مقتول صحافی ارشد شریف کے کیس میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ان کے خلاف مبینہ طور پر ریاست مخالف بیان بازی اور بغاوت کے الزام میں ایک جیسی ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔
یہ ایف آئی آرز اسلام آباد، بلوچستان اور سندھ میں درج کی گئیں، اپریل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد جب مسلم لیگ (ن) نے مرکز اور پنجاب میں اقتدار سنبھالا تو صوبائی پولیس نے بھی ان کے خلاف مقدمات درج کر لیے تھے۔
تاہم اسلام ہائی کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدالت کی اجازت کے بغیر انہیں وفاقی یا صوبائی پولیس کی تحویل میں لینے سے روک دیا تھا۔