لائف اسٹائل

’اِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان‘: 5ویں مقابلے کی رنگا رنگ اختتامی تقریب

فلم فیسٹیول میں نامور فلم سازوں نے فلم سازی سے متعلق سیر حاصل گفتگو کی، مقامی فنکاروں کی فلموں نمائش کے ساتھ ساتھ میوزک پرفارمنس بھی ہوئی۔

رواں سال جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) اور ڈان ڈاٹ کام کے اشتراک سے منعقد ہونے والے فلم سازی کے مقابلے ’اِٹ ہیپز اونلی اِن پاکستان‘ کو 5 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ جوش و خروش سے بھرپور اس فلم فیسٹیول میں نامور فلم سازوں نے فلم سازی سے متعلق سیر حاصل بحث کی۔ اس کے علاوہ مقامی فنکاروں کی فلموں نمائش کے ساتھ ساتھ میوزک پرفارمنس بھی ہوئی۔

اتوار کو پاکستان کی فلم ساز برادری ’ڈسٹرکٹ 19‘ کراچی میں جمع ہوئی۔ ان کا مقصد فلم سازی کی صنعت میں آنے والے نئے ٹیلنٹ کی پذیرائی کرنا تھا۔ یہ تقریب حاضرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی جن کے سامنے ایک کے بعد ایک دلچسپ پروگرام پیش کیے گئے۔ فیسٹیول کا آغاز ایک پینل ڈسکشن کے ساتھ ہوا جس کا موضوع ’ہماری کہانیاں کون بتائے گا‘ تھا۔ اس کی میزبانی اکیڈمی اور دو مرتبہ ایمی ایوارڈ جیتنے والی دستاویزی فلم ساز حیا فاطمہ اقبال نے کی جبکہ ان کے ساتھ شریک گفتگو ماہر فلم ساز سورتھ بہن، علی مہدی اور شاہ رخ وحید تھے۔

اس کے بعد مہمانوں کو تقریب کی دوسری جگہ جو کھلے آسمان تلے تھی، وہاں لے جایا گیا جہاں بالکونی پر ایک خاتون ڈی جے بھی موجود تھیں جو پروگرامات کے درمیان کے وقفے میں حاضرین کو محظوظ کررہی تھیں۔ اس کے بعد پچھلے سالوں میں جیتنے والی ایک فلم کے مرکزی کردار کی جانب سے مور کا رقص پیش کیا گیا۔

یہ ڈانس پیش کرنے والے غلام حسین، مور کے لباس میں ہی اسٹیج پر آئے، اس لباس کو انہوں نے خود تیار کیا تھا۔ یقین جانیے کہ ان کے تاثرات اور حرکات سے یہ معلوم ہی نہیں ہورہا تھا کہ وہ کوئی انسان ہیں یا واقعی کوئی مور۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں ایسا کیسے ممکن ہے کہ کانٹینٹ کرئیشن پر بات نہ ہو؟ اس سال کے مقابلے میں ریلز کا مقابلہ بھی شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پتنگیر سے تعلق رکھنے والے امتل باویجا اور فہد طارق خان ’کانٹینٹ کرئیشن— اے نیو ایرا آف فلم میکنگ‘ کے عنوان سے ہونے والے مباحثے میں مدعو تھے۔ بدقسمتی سے صرف فہد ہی اس پروگرم میں شریک ہوسکے لیکن انہوں نے امتل کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔

اس سے قبل کے ہم دوسرے پروگرام کی جانب بڑھتے، دو بلوچ گلوکاروں نے مسحور کن موسیقی سے حاظرین کو محظوظ کیا۔ پروگرام میں ہونے والے منی کنسرٹ میں گانے اور قوالیاں پیش کی گئیں، ان میں ’مست قلندر‘، ’لیلیٰ و لیلیٰ‘، ’تیرے عشق نچایا‘ اور ’علی مولا علی دم دم‘ شامل تھے۔

موسیقی کے بعد کچھ ذہنی غذا کا بھی انتظام تھا۔ اس کے لیے ماہرین کے ساتھ ’Films you can(t) make, topics you should (n‘t) explore’ کے موضوع پر گفتگو کی گئی۔ اس کی میزبانی ضرار کھوڑو کررہے تھے جن کے مزاح سے شائقین خوب محظوظ ہوئے۔ ان کے ساتھ شریک گفتگو افراد میں کملی، زندگی تماشا اور منٹو میں کام کرنے والے کھوسٹ فلمز کے سرمد کھوسٹ، فلم لال کبوتر کے لکھاری علی عباس نقوی اور تیلی کی سابق جنرل منیجر گل زیب شکیل شامل تھے۔

کچھ دیر کے وقفے کے بعد انعامات کے اعلان کا مرحلہ تھا جس کا تمام فلم ساز بے صبری سے انتظار کررے تھے۔ پاکستان بھر سے پروفیشنل اور نو آموز فلم سازوں کو اس مقابلے میں ڈاکومنٹری اسٹائل مختصر دورنیے کی فلمیں بھیجنے کی دعوت دی گئی تھی۔ ہر سال اس مقابلے کا ایک منفرد موضوع دیا جاتا ہے۔ اس سال مقابلے کا موضوع پاکستان کی ثقافت، پکوان، موسیقی اور فطری حسن تھا۔

رواں سال اس مقابلے کے لیے 6 ہفتوں کے دوران 150 فلمیں موصول ہوئیں۔ جیتنے والی فلموں کو اسکرین پر پیش کیا گیا اور اس کے بعد ان کے فلم سازوں کو اسٹیج پر مدعو کرکے انہیں انعامات دیے گئے۔ ریلز کے مقابلوں میں عزیر انصاری، زاہد رضا اور شہباز علی بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آئے۔ انہوں نے پاکستان میں موجود اقلیتوں، کراچی کے ایک 70 سال پرانے کیفے اور صوفی شاعر لعل شہباز قلندر کے مزار پر موجود گلوکاروں کو موضوع بنایا۔

اس کے بعد 5 بہترین ڈاکو مینٹری فلموں کا اعلان کیا گیا جن میں دو فلموں کو خصوصی انعام دیا گیا تھا۔ ان دو فلموں میں ’کچھ خاص‘ تھا۔ یہ فلمیں مریم قریشی اور اسد بن اجمل کی ’منگرہار‘ اور التمش سلطان کی ’روشن‘ تھیں۔ ابھی حاظرین ان دو فلموں کے سحر سے نہ نکلے تھے کہ ان کے سامنے مزید بہترین فلمیں پیش کی گئیں۔ یہ وہ فلمیں جنہیں مقابلے میں پہلا، دوسر اور تیسرا انعام ملا تھا۔

بہت ہی عمدگی سے تیار کی گئی یہ بامعنی فلمیں انہیں بنانے والے فلم سازوں کی کامیابی کا ثبوت تھیں۔ اس مقابلے میں خرم علی، سحر علیم حمزہ شاہد اور علی ساحل کی فلم ’خانہ بدوش‘ پہلے نمبر پر، عبد الباسط اور جنید مختار کی فلم ’بلائنڈ میوزک ٹیچر‘ دوسرے نمبر پر، محمد رفیق، عبد النفیس، محمد ایوب اور مہران علی شاہ کی فلم ’صنم‘ تیسرے نمبر پر آئی۔

فلم سازی میں سندھ سے بلوچستان اور ہنزہ تک کا سفر کرنے کے بعد اس فیسٹیول کا اختتام مشہور پشتو بینڈ خماریاں کی پرفارمنس کے ساتھ ہوا۔ ابتدا میں تو انہوں نے موسیقی کو آہستہ ہی رکھا لیکن رفتہ رفتہ موسیقی میں تیزی آنے لگی اور آخر میں حاظرین اٹھ کر محو رقص ہوگئے۔