اختلافات بھلا سکتے ہیں لیکن انا پرست، جھوٹے اور محسن کش سے کیا مذاکرات ہوں گے، وزیر اعظم
وزیراعظم شہباز شریف نےکہا ہے کہ ملکی مفادات کے لیے تمام اختلافات بھلا سکتے ہیں مگر ایک انا پرست ،جھوٹے، قوم کو دھوکا دینے اور افواج پاکستان کو بدنام کرنے والے محسن کش شخص کے ساتھ کیا مذاکرات ہوں گے۔
اسلام آباد میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور دیگر وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے مجھ پر، نواز شریف اور میرے خاندان پر جھوٹے الزامات عائد کرکے بدنام کرنے کی بدترین کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)، نواز شریف اور میرے خاندان پر بے بنیاد الزامات عائد کرکے پاکستان کے اندر اور بیرون ملک بدنام کرنے کی بدترین اور گھٹیا کوشش کی گئی۔
وزیراعظم نے نواز شریف کو دی گئی سزا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاناما سے معاملہ اقامہ تک چلا گیا کیونکہ پاناما میں نواز شریف کا نام نہیں تھا اس لیے اقامہ کا کیس بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اقامہ کا معاملہ آنے کے بعد بہت گند اچھالا گیا اور اس وقت کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کا بیان بھی چلا تھا، لہٰذا سچ کو آنچ نہیں آتی اور من گھڑت بات کبھی چھپ نہیں سکتی۔
’پتھر دل لوگوں نے شریف خاندان کی بدنامی کیلئے ملک کے نقصان کی بھی پروا نہ کی‘
انہوں نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی اور اس کے حواریوں نے برطانیہ کی نیشنل کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو بہت سے دستاویزات فراہم کیے جس میں دو برس تک تحقیقات ہوتی رہی، مگر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی عزت رکھی۔
’ڈیلی میل‘ اخبار کی رپورٹ پر بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عمران نیازی اور شہزاد اکبر کو علم تھا کہ اس سے شریف خاندان کی بدنامی تو ہوگی مگر پاکستان کی بھی بدنامی ہوگی، مگر وہ پتھر دل کی طرح اس سوچ کے حامل تھے کہ پاکستان کو نقصان پہنچتا ہے تو کوئی بات نہیں شریف خاندان کو پوری دنیا میں رسوا کرو۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس برطانوی ادارے نے 2008 سے 2018 تک 60 کروڑ پاؤنڈ دیے تھے جس کی زیادہ رقوم پنجاب میں آئی تھیں اور شفاف طریقے سے خرچ ہوئیں مگر عمران نیازی کا مقصد یہ تھا کہ لاکھوں پاؤنڈ شہباز شریف کے بچے لے گئے اور یہ بات اخبار کے آرٹیکل کا حصہ ہے جس میں لکھا گیا تھا کہ شہزاد اکبر نے صحافی ڈیوڈ روس کو پاکستانی جیلوں کی سیر کرائی اور وہاں قید لوگوں سے ملایا تھا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ڈیلی میل اخبار میں اسٹوری شائع ہونے کے بعد 14 جولائی 2019 کو عمران نیازی کے حکم پر تحریک انصاف کے وزرا کی ایک یلگار تھی جو اس بات پر لگے ہوئے تھے کہ چور اور ڈاکو پاکستان کا پیسہ کھا گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے اگلے دن اتوار کے روز چھٹی کے باوجود بھی برطانیہ کے سرکاری ادارے نے وضاحت دی کہ ایسی کوئی بات نہیں اس میں کوئی حقیقت نہیں مگر عمران نیازی اور دیگر لوگوں کے دباؤ پر اس بیان کو 6 گھنٹوں تک مؤخر کروایا گیا تھا۔
’دنیا کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان کو گرانٹ نہ دی جائے‘
وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی ہوئی اور یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان کو امداد، مالی معاونت کی رقوم اور گرانٹ مت بھیجی جائے کیونکہ وہاں ڈاکو بیٹھے ہیں جو یہ رقوم کھا جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیلی میل کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد میں نے ان کو قانونی نوٹس بھیجا جس کے بعد تین برس تک وہ شنوائی لیتے رہے اور باالآخر انہوں نے غیر مشروط معافی مانگی مگر یہ معافی انہوں نے پاکستانی کے 22 کروڑ عوام سے مانگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ڈیلی میل نے غیر مشروط معافی مانگی جو کہ ان ماؤں اور بچوں کی دعاؤں کو ثمر تھا جن کی ان پیسوں سے خدمت کی تھی۔
’محمد بن سلمان نے ایک ہی گھڑی بنوائی جس میں خانہ کعبہ کا ماڈل تھا‘
شہباز شریف نے کہا کہ دوسرے طرف صورتحال کچھ یہ ہے کہ سعودی عرب کے وزیراعظم محمد بن سلمان نے ایک ہی گھڑی بنوائی تھی جس میں خانہ کعبہ کا ماڈل تھا اور وہ گھڑی پاکستانی عوام کی عزت کے لیے عطیہ کے طور پر دی گئی تھی، مگر وہ گھڑی بیچ کر عمران نیازی نے پاکستان کو سرعام بدنام کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں تعین کرنا چاہیے کہ کس طرح ایک شخص نے پاکستانی معیشت کو تباہ کیا، خارجہ تعلقات کو برباد کیا اور بہترین برادار ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی زیرو پر لے آیا اور دن رات جھوٹ بولتا رہا۔
’عمران خان نے قوم کی بیٹیوں کو رسوا کرنے کی کوشش کی‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فنانشل ٹائمز‘ میں عمران خان کے خلاف اسٹوری شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ شوکت خان کے نام پر اربوں ڈالرز عطیہ وصول ہوا اور وہ پیسہ سیاست پر خرچ کیا گیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میرے سامنے مریم نواز کو گرفتار کیا گیا، جب وہ کوٹ لکھپت جیل اپنے والد سے ملاقات کرنے آئیں تو وہاں سے انہیں گرفتار کیا گیا مگر اللہ کے کرم سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کو کلین چٹ مل گئی۔
انہوں نے عمران خان پر مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو شرم اور خیال نہیں آیا کہ قوم کی بیٹیوں کو اس طرح رسوا کرنے کی کوشش کی جس طرح آصف زرداری کی بہت فریال تالپور کو عید کی رات گرفتار کیا گیا، مگر اپنی بہن کو این آر او دے دیا لیکن میں ہوتا تو کبھی بھی ان کی بہن کو گرفتار نہ کرتا۔
’ آئی ایم ایف نے پتا نہیں کہاں، کہاں دستخط اور انگوٹھے لگوائے’
شہباز شریف نے کہا کہ جب میں نے مخلوط حکومت میں وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا تو اس وقت معیشت کی صورتحال خراب تھی جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اعتبار کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ پاکستان بات کرکے مکر جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ایڑیاں رگڑیں اور آئی ایم ایف نے پتا نہیں کہاں، کہاں دستخط اور انگوٹھے لگوائے اور اسی طرح آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں مگر عمران نیازی نے مصنوعی طور پر تیل کی قیمتیں روک رکھیں تھیں اور عدم اعتماد تحریک کے پیش نظر اس نے ایک کانٹوں بھرا جال پھینکا کہ شاید آنے والی حکومت اس میں پھنس جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایسی صورتحال میں قیمتوں میں اضافہ کرتے وقت پوری اتحادی حکومت سمیت نواز شریف کو تکلیف تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنا پڑ رہا ہے، مگر ہماری مجبوری تھی اور سیاست پر ریاست کو ترجیح دی ورنہ ہم بھی قیمتیں کم کرکے سیاست کو ترجیح دے سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کھربوں روپے کی ضرورت ہے کیونکہ 3 کروڑ 30 لاکھ افراد سردی میں بیٹھے ہیں، اسی طرح ہمیں چاروں طرف سے مشکلات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں لیکن ہر دن شوشہ چھوڑا جاتا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا مگر پاکستان کبھی دیوالیہ نہیں ہوگا۔
’اپنی بہن کو این آر او دیا باقی سب کو کہا چور ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ آپ (عمران خان) چاہتے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے اور ایسی حرکتیں بھی آپ نے ہی کی تھیں کیونکہ اپنی بہن کو این آر او دیا باقی سب کو کہا چور ہیں، مگر عمران نیازی نے 50 ارب روپے کا سب سے بڑا فراڈ کیا اور کابینہ میں نہ اس کا لفافہ کھولا گیا اور نہ دکھایا گیا، اسی طرح جس مقصد کے لیے وہ پیسہ آیا تھا وہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ نئے سپہ سالار پیشہ ور افسر ہیں جو اپنے ادارے میں رہتے ہوئے پاکستان کی بھرپور خدمت کریں گے۔
’صدر سے وزیر خزانہ کی ملاقات میری اجازت سے ہوئی‘
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت سے وزیر خزانہ کی ملاقات میری اجازت سے ہوئی ہے اور ہم پاکستان کے لیے ایک تو کیا سو قدم بھی آگے بڑھا سکتے ہیں مگر تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ جب میں اسمبلی میں میثاق معیشت پر بات کرتا تھا تو اس کا سنگین مذاق اڑایا جاتا تھا لیکن آج بھی ملکی مفادات کے لیے تمام اختلافات بھلا سکتے ہیں، مگر ایک ایسا شخص جو انا پرست ہے، دن رات جھوٹ بولتا ہے، قوم کو دھوکا دیتا ہے، افواج پاکستان کو بدنام کرتا ہے اور محسن کش ہے تو ایسے شخص کے ساتھ کیا مذاکرات ہوں گے۔
ڈالر اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف کریک داؤن کا آغاز ہو چکا ہے، وزیر خزانہ
اس موقع پر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر الیکشن میں کامیاب ہوا تو پاکستان کے 10 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ کم کروں گا، لیکن 2022 میں جب حکومت سے گئے تو مہنگائی عروج پر تھی، روپے کی قیمت آدھی کردی، کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں کبھی سو فیصد کمی نہیں آئی جبکہ ادویات میں 300 سے 400 فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت 25 ہزار ارب ڈالر کے قرضوں کو ساڑھے 44 ہزار ارب ڈالر پر لے گئی جبکہ 30 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ ساڑھے 54 ہزار ارب ڈالر پر چھوڑ کر گئے، جبکہ ان کو ایک سال یہ فیصلہ کرنے میں لگ گیا کہ آئی ایم ایف میں جانا ہے یہ نہیں مگر ہم فوری طور پر آئی ایم ایف گئے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 75 سالہ تاریخ میں پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا اور اب بھی نہیں ہوگا کیونکہ گزشتہ دو ماہ میں وزیراعظم نے انتہائی سخت فیصلے کیے ہیں جس میں ایک یہ کہ ہم پیرس کلب نہیں جائیں گے کیونکہ اگر ہم وہاں گئے تو پھر تجارت کس سے کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ دیوالیہ کی بیان بازی عمران نیازی کے ساتھ قبر تک تو جاسکتی ہے مگر پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا کیونکہ اگر آپ ٹھان لیں کہ ملک کا بیڑا غرق کرنا ہے، ساکھ خراب کرنی ہے اور دنیا میں تجارت کرنے نہیں دینی تو پھر ایسے بیانات ان کے لیے ٹھیک ہوتے ہیں جو دشمن ہوتے ہیں۔
اسحٰق ڈار نے گزشتہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 25 ہزار سے ساڑھے 44 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ آپ چھوڑ کر گئے اور سالانہ قرضوں کی ادائیگی 4 ہزار ڈالرز سے بھی عبور کر چکی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران نیازی صاحب، آپ نے ملک کو اس نہج پر لاکر کھڑا کردیا ہے اور آپ تو خوش قسمت نکلے کہ ملک کسی اور کو پکڑا کر چلے گئے ورنہ آپ کا وہ حشر ہوتا کہ قیامت تک کسی کا نہ ہوتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر ذمہ داریوں کا سبب ہے اور ان کو سوچنا چاہیے کہ بحیثیت اپوزیشن ایسے بیانات دے کر ملک کی کیا خدمت کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے، ہم چیزوں کو ٹھیک کر رہے ہیں، پہلے آتے ہی گزشتہ حکومت کی غلطیوں کو ٹھیک کیا، پھر آفت آگئی اور وسائل کی کمی کے باوجود حکومت نے 90 ارب خرچ کیے اور آئندہ بھی کا بھی عزم ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کرنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دیوالیہ ہونے کی باتیں غلط ہیں، نہ کبھی پاکستان دیوالیہ ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انٹر مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ ڈالر کی اسمگلنگ ہے جس کے لیے ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔