نقطہ نظر

سال 2022ء: ’معاشی لحاظ سے پاکستان کے لیے یہ سخت سال ثابت ہوا‘

بیرونی ادائیگیوں کے مسائل پاکستان کے لیے شدید تر ہوگئے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط نے زرِمبادلہ کا حصول مشکل بنادیا ہے۔

پاکستان ان دنوں شدید معاشی صورتحال دے دوچار ہے۔ موجودہ سال 2022ء بس رخصت ہونے کو ہے مگر کیا اس سال کے ڈوبتے سورج اور آئندہ سال کے ابھرتے سورج کے ساتھ پاکستان کے مسائل ختم ہوجائیں گے؟ بدقسمتی سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

پاکستان کو آئندہ مالی سال بھی شدید اور بدترین معاشی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان کے لیے سال 2022ء معاشی لحاظ سے کیسا رہا، آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

سال 2022ء کو معاشی لحاظ سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور رواں سال کے ابتدائی 4 ماہ کا ہے۔ جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت قائم رہی جبکہ باقی دور جس میں مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت قائم ہے۔

پاکستان کو سال 2022ء کی ابتدا ہی سے بیرونی ادائیگیوں کے مسائل کا سامنا تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان زرِمبادلہ ذخائر میں اضافے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ تھا۔ اس پروگرام میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود کچھ فرق نہیں آیا اور آئی ایم ایف پاکستان کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نظر نہیں آیا۔

عمران خان کے خلاف 10 اپریل کو تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی تو اس وقت روپے کی قدر 186.72 روپے تھی جو بڑھ کر 240 روپے تک جا پہنچی تھی اور دمِ تحریر 224 روپے پر موجود ہے۔

اسی طرح پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھاؤ کے بعد بینچ مارک کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 41 ہزار پوائنٹس کے قریب موجود ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود جو اس سال اپریل میں 11 فیصد کے لگ بھگ تھی وہ 5 فیصد اضافے کے بعد 16 فیصد ہوگئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح جو اپریل میں 13.4 فیصد پر تھی اب بڑھ کر 26 فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔

اس طرح مہنگائی کی شرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اختتام کے بعد سے دگنی ہوچکی ہے۔ اس پوری صورتحال میں رہی سہی کسر مون سون بارشوں اور سیلاب نے پوری کردی۔ ایک طرف تو معیشت پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی تو دوسری طرف سیلاب کی وجہ سے پورے پاکستان میں ہی تباہی ہوئی مگر سندھ اور بلوچستان کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ آج بھی دونوں صوبوں کے متعدد نشیبی علاقوں میں پانی کھڑا ہے۔


پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے مسائل اور انتظام


پاکستان کو اس وقت بیرونی ادائیگیوں کے بحران کا سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکومت میں شامل افراد بھی پاکستان کے نادہندہ ہونے کی باتیں کررہے ہیں۔ تاہم کئی ماہرین اس سے اختلاف کرتے ہوئے یہ رائے رکھتے ہیں کہ پاکستان نادہندہ نہیں ہوسکتا کیونکہ عالمی سطح کے اہم چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور ایندھن کی عالمی مارکیٹ اور گندم کی مارکیٹ میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

گوکہ عالمی منڈی میں اس وقت ایندھن سستا ہورہا ہے اور اپنی بلند ترین سطح سے تقریبا 40 سے 50 فیصد نیچے آچکا ہے مگر اب بھی استحکام کے حوالے خدشات موجود ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک خصوصاً امریکی مرکزی بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود بڑھانا اور مانیٹری پالیسی سخت کرنا اہم چیلنج ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو کمرشل قرضے لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

مگر ان تمام چیلنجز کے باوجود گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے حالیہ پالیسی بیان میں پاکستان کے نادہندہ ہونے سے متعلق افواہوں کی تریدد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی تمام بیرونی ادائیگیاں معمول کے مطابق کرے گا اور موجودہ مالی سال کی دوسری ششماہی میں زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے۔

اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب ڈالر سے زائد کے زرِمبادلہ ذخائر موجود ہیں جبکہ عمران خان کی حکومت کے اختتام کے وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 10 ارب ڈالر سے زائد موجود تھے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر میں ہر مہینے 50 کروڑ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔

اگر پاکستان کے قرضوں کے حجم پر نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ موجودہ مالی سال کے دوران پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور دیگر مدات میں تقریباً 33 ارب ڈالرکی ضرورت ہے۔ اس میں جاری کھاتے کی مد میں ادائیگیوں کے لیے 10 ارب ڈالر اور بیرونی قرضوں کی واپسی کی مد میں 23 ارب ڈالر شامل ہیں۔ جولائی سے دسمبر تک پاکستان نے بیرونی قرضوں کی مد میں 6 ارب ڈالر سے زیادہ قرض ادا کردیا ہے۔ اس کے علاوہ دوست ملکوں نے 4 ارب ڈالر قرض واپسی کے بجائے رول اوور کردیا ہے۔ اس طرح 22 ارب میں سے 10 ارب ڈالر قرض کا انتظام ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ 8 ارب 30 کروڑ ڈالر کا قرض رول اوور کرنے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ پاکستان کے تجارتی قرضوں میں سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر مالیت کا قرض دسمبر میں واپس کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کے دو قریبی دوست ملک سعودی عرب اور چین سے مجموعی طور پر 14 ارب ڈالر قرض اور سرمایہ کاری پر اصولی سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ اب اس کی باقی جزیات پوری کرنے پر یہ رقم پاکستان کے نہ صرف زرِمبادلہ ذخائر کو بڑھانے میں مددگار ہوگی بلکہ اس سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں کو بھی تقویت ملے گی۔

ڈالر کو بچانے کے لیے اسٹیٹ بینک نے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں سفری اخراجات کے لیے زرِمبادلہ کی حد کم کرنے، موبائل ایپلیکیشنز کی خریداری کے لیے گوگل پلے اسٹور پر ادائیگی روکنے اور بعض صنعتوں کے فاضل پرزہ جات کی درآمد عارضی طور پر روکنا شامل ہے۔


روپے کی قدر اور بلیک مارکیٹ


جس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس وقت روپے کی قدر 185 روپے تھی جو اب بڑھ کر سرکاری قیمت 224 روپے کے قریب ہے۔ اس قیمت میں 240 روپے تک گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ مگر سرکاری قیمت کے باوجود مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے سرکاری قیمت سے زائد پر ڈالر ٹریڈ ہونے لگا اور اس ٹریڈ میں بینکوں نے بھی دل کھول کر منافع کمایا اور انٹر بینک میں قیمت سے 10 روپے اضافے پر ڈالر فروخت کیے گئے۔ ان بینکوں کی نشاندہی ہونے کے باوجود تاحال ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

اس وقت اوپن اور بلیک مارکیٹ میں ڈالر اعلان شدہ قیمت سے اضافی پر فروخت ہورہا ہے۔ منی چینجرز پر کریک ڈاؤن کے باوجود اس وقت بھی ڈالر 10 فیصد پریمیم پر دیا جارہا ہے جبکہ اس کے علاوہ ملک میں تیزی سے بلیک مارکیٹ ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے۔ پشاور میں ڈالر کی غیر قانونی خرید و فروخت میں ملوث بہت سی غیر قانونی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔


مہنگائی


یہ وہ دوسرا اہم ترین معاملہ ہے جو حکومت کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ عمران خان نے حکومت کے خاتمے کے قریب جب دیکھا کہ اتحادی ساتھ چھوڑ رہے ہیں تو ایندھن خصوصاً پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں اور ملکی معاشی مفاد کے خلاف تھا مگر اس کی وجہ سے مارچ اور اپریل میں قیمتوں میں استحکام دیکھا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت مہنگائی کی عمومی شرح 12 فیصد تھی جبکہ غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ 15 سے 17 فیصد تک تھا مگر نئی حکومت کے قائم ہوتے ہی آئی ایم ایف پروگرام بحالی پر بات چیت شروع ہوئی تو کہا گیا کہ پہلے پاکستان اپنے بجٹ خسارے کے حوالے سے طے کیے گئے اہداف کو پورا کرے اس لیے نہ صرف حکومت نے ایندھن یعنی بجلی اور پیٹرولیم پر سبسڈی کو ختم کیا بلکہ دیگر ایسے اقدامات بھی اٹھائے جس سے حکومتی بجٹ کے اعداد و شمار تو بہتر نظر آنے لگے مگر اس کے ساتھ ہی عوام پر مہنگائی کا بوجھ پڑا۔ اس کے نتیجے میں حکومت کی مقبولیت گھٹنے لگی اور اب یہ صورتحال ہے کہ حکومت عوامی غم و غصے کی وجہ سے فوری انتخابات پر جانے سے کترا رہی ہے۔ نومبر کے اختتام پر ملک میں مجموعی مہنگائی کی شرح 26 فیصد سے تجاوز کرگئی تھی جبکہ غذائی اجناس 34 سے 37 فیصد کی شرح سے مہنگی ہورہی ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے امور میں سب سے اہم مہنگائی کی روک تھام ہے اور اس کے لیے وہ مانیٹری پالیسی کو استعمال کرتا ہے۔ مگر خوراک اور غذائی اجناس کے حوالے اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق سرمائے اور زر کی فراہمی کے بجائے سپلائی چین میں مسائل اور قدرتی آفات کی وجہ سے ہے۔


کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ


رواں مالی سال کے دوران اسٹیٹ بینک نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 ارب ڈالر رہنے کا تخمینہ دیا تھا مگر پاکستان کو تاریخ کے تباہ کن سیلاب کا سامنا ہے جس کی وجہ سے درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے۔ خاص طور پر گندم، کھاد اور کپاس کی درآمدات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ہماری برآمدات کے قابل فصلیں بھی سیلاب سے متاثر ہوئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 سے 3 ارب ڈالر بڑھنے کا امکان تھا مگر بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے ایسی اشیا جن کی درآمد کی فوری ضرورت نہیں ان پر روک بھی لگائی ہے۔ اس سے درآمدات میں 15 فیصد کی کمی ہوئی جس کے بعد اسٹیٹ بینک کو امید ہے کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 ارب ڈالر پر محدود رہے گا۔


اسٹاک مارکیٹ


حکومت کی تبدیلی سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور یہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمےکے وقت جہاں تھی اب بھی وہیں ہے۔

سرمایہ کار معیشت کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔ مہنگائی اور مزید ٹیکسوں کے لگنے کے خدشات نے سرمایہ کاروں کو محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ 40 ہزار سے 43 ہزار پوائنٹس کے بریکٹ میں اوپر اور نیچے متحرک ہے اور وہ اپنے سرمایہ کاروں کے لیے کوئی خاص فائدہ مند نہیں رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور حکومت کے ڈیفالٹ کرنے کی خبروں پر متعدد کمپنیوں نے اپنے توسیعی منصوبوں اور نئی سرمایہ کاری کو روک دیا ہے۔


معیشت پر شدید موسمی تغیرات کے اثرات


دنیا بھر میں موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانی آبادی کی بقا کے خطرے پر بہت زیادہ بحث ہورہی ہے۔ پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے اثرات نہایت گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اس سال کی ابتدا میں سخت سردی کی وجہ سے مری میں سڑک پر سیاحوں کی اموات کا سانحہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ اس سال موسمی تبدیلی ملک میں ہر طرف کیا تباہی مچائے گی۔

گرمیوں میں چاروں صوبوں اور وفاقی علاقے میں قائم جنگلات میں لگنے والی بدترین آگ نے نہ صرف مقامی آبادی کو متاثر کیا بلکہ اس کی وجہ سے کئی سو سال پرانے درخت بھی جل گئے جس سے پہلے ہی جنگلات کی کمی کے شکار پاکستان کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔

جنگلات کی اس تباہی کے بعد رہی سہی کسر مون سون بارشوں نے پوری کردی ہے۔ اس سال بارشوں کا سلسلہ اور شدت دونوں ماضی کے مقابلے نہایت شدید تھے۔ بارشوں کی وجہ سے کراچی شہر میں اربن فلڈنگ کا سامنا رہا جبکہ سندھ اور بلوچستان میں کلاؤڈ برسٹ نے وہ تباہی مچائی کے آج بھی متعدد نشیبی علاقوں میں پانی کھڑا ہے۔

اس سیلاب میں 20 لاکھ سے زائد گھر جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوئے اور بڑے پیمانے پر کھڑی کپاس اور دیگر فصلوں کو نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے گندم اور دیگر فصلوں کی بوائی بروقت نہیں ہوسکی جس سے ملک میں غذائی اجناس کی قلت میں اضافے کے خدشات ہیں۔ عالمی بینک نے سیلاب سے ہونے والے تباہ کاریوں کا تخمینہ 40 ارب ڈالر لگایا ہے۔ اس میں گھر، انفراسٹرکچر، سیلاب سے متعلق نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور فصلوں کی تباہی وغیر شامل ہیں۔


عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط


تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام لیا تھا جس پر تاحال عملدرآمد مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ 7 ارب ڈالر مالیت کے اس معاہدے پر لگی کڑی شرائط کی وجہ سے پاکستان کو اس پروگرام پر عملدرآمد کرنا مشکل ہورہا ہے۔ موجودہ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کو منالیں گے اور ان سے اپنی شرائط پر قرض کی اقساط کو طے کریں گے، مگر ایسا نہیں ہوسکا ہے اور قسط جاری کرنے سے قبل کے نویں جائزے کا عمل مسلسل تعطل کا شکار ہورہا ہے۔

آئی ایم ایف پاکستان کو ٹیکس وصولی کے اہداف بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ اس میں 300 ارب روپے کی اضافی پیٹرولیم لیوی اور 500 ارب روپے کے دیگر ٹیکس بڑھانے کے علاوہ بجلی کی فی یونٹ قیمت کو بڑھانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے تاکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بڑھا کر 11 فیصد کیا جاسکے۔

وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سیلاب سے متعلق انسانی ہمدردی کے حوالے سے معاونت کرنے پر تیار ہوگیا ہے اور پاکستان کو متاثرین کی بحالی کے لیے اخراجات کی اجازت دے دی ہے تاہم نویں جائزے میں تاخیر معیشت کے حوالے سے خدشات کو بڑھا رہی ہے۔


سیاسی عدم استحکام اور منفی کاروباری اعتماد


ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام نے معیشت کے حوالے سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ ملک میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ، اہم عسکری تعیناتی پر سیاست، خونی انقلاب اور لانگ مارچ کے اعلانات اور سڑکوں کی بندش کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں اور ملک میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے۔ مقامی اور غیر ملکی دونوں سرمایہ کاروں کی جانب سے دیکھو اور انتظار کرو کی کیفیت ہے۔

کاروباری اعتماد کے حوالے سے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے حالیہ سروے میں کہا گیا ہے کہ ریٹیل اور پیداواری شعبے میں کاروباری اعتماد بُری طرح مجروح ہوا ہے اور پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے اپنی تشویش کا اظہار کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی سطح پر معیشت کے حوالے سے کی جانے والی بیان بازی اور ملک کے دیوالیہ ہونے سے متعلق بیانات ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مجروح کرررہے ہیں۔

پاکستان میں سال 2022ء معاشی لحاظ سے ایک سخت سال ثابت ہوا ہے۔ اس سال پاکستان کی معیشت کو متعدد مسائل کا سامنا رہا۔ بیرونی ادائیگیوں کے مسائل پاکستان کے لیے شدید تر ہوگئے ہیں جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط نے زرِمبادلہ کا حصول کو مشکل کردیا ہے۔ مگر سال 2022ء میں پیدا ہونے والا سیاسی عدم استحکام معیشت کے لیے زہر ِقاتل ثابت ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کاروباری حلقوں کی جانب سے ملک میں میثاقِ معیشت پر سیاسی اتفاق رائے کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔


راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔