پاکستان

بلوچستان: افغان بارڈر فورسز کی چمن میں بلااشتعال فائرنگ و گولہ باری، 6 افراد جاں بحق، 17 زخمی

پاکستان نے افغان حکام سے مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، آئی ایس پی آر
|

افغان بارڈر فورسز نے بلوچستان کے ضلع چمن میں شہری آبادی پر توپ خانے/مارٹر سمیت بھاری ہتھیاروں سے بلااشتعال اور اندھا دھند فائرنگ و گولہ باری کی جس کے نتیجے میں 6 شہری جاں بحق اور 17 افراد زخمی ہو گئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان کی بارڈر فورسز نے جارحیت کے خلاف مناسب جواب دیا لیکن علاقے میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے صورتحال کی سنگینی کو اجاگر کرنے کے لیے کابل میں افغان حکام سے بھی رابطہ کیا ہے اور مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

قبل ازیں، ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) چمن عبداللہ علی کاسی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ چمن میں پاک-افغان سرحد پر افغانستان سے ایک مارٹر گولہ پھینکا گیا جس کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔

عبداللہ علی کاسی نے بتایا کہ افغانستان سے چمن میں مارٹر گولہ گرنے اور فائرنگ کے نتیجے میں کئی افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوگئے، جنہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر (ڈی ایچ کیو) ہسپتال چمن منتقل کیا گیا، زخمیوں میں 4 کی حالت تشویش ناک ہے، جنہیں کوئٹہ منتقل کردیا گیا ہے۔

ڈی پی او نے بتایا کہ سرحد پر فائرنگ کا سلسلہ اب تھم گیا ہے۔

ڈی جی پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سیکریٹری صحت بلوچستان صالح محمد ناصر کی ہدایت پر سول ہسپتال کوئٹہ میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔

وزیراعلی بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے پاک-افغان سرحد پر بلوچستان کے ضلع چمن میں سرحد پار سے فائرنگ اورراکٹ باری پر تشویش کا اظہار کیا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ امید ہے وفاقی حکومت سفارتی سطح پر اس مسئلے کے فوری اور مؤثر حل کو یقینی بنائے گی۔

وزیراعلی بلوچستان کا ضلعی انتظامیہ چمن کو متاثرہ شہریوں کو بھرپور معاونت کی فراہمی، سول ڈیفنس کے ادارے اور ضلعی انتظامیہ شہریوں کو ہنگامی صورتحال میں مدد و رہنمائی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

خیال رہے کہ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا تھا کہ 13 نومبر کو بلوچستان میں پاک افغان سرحدی شہر چمن میں افغان حدود سے نامعلوم مسلح شخص کی فائرنگ سے ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور دو زخمی ہو گئے تھے۔ جس کے بعد پاک افغان سرحد کوغیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا تھا۔

ڈپٹی کمشنرعبدالحمید زہری نے بتایا تھا کہ پاک افغان سرحد اس وقت کھولی جائے گی جب افغان حکام کی جانب سے واقعے میں ملوث مسلح شخص کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان نے ایک ہفتے کی بندش کے بعد 21 نومبر کو چمن کے مقام پر افغانستان کے ساتھ سرحد دوبارہ کھول دی تھی جہاں بندش کے سبب دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تجارت کے ساتھ ساتھ باب دوستی کے ذریعے لوگوں کی آمدورفت کا عمل بھی متاثر ہو رہا تھا۔

چمن کے ڈپٹی کمشنر عبدالحمید زہری نے کہا تھا کہ افغان حکام کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد کچھ شرائط کے ساتھ سرحد کو دوبارہ کھول دیا گیا، ملاقات میں کیے گئے فیصلوں پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق افغان حکومت نے پاکستان کو یقین دلایا تھا کہ فائرنگ میں ملوث دہشت گرد کو جلد از جلد گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق 25 نومبر کو ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے افغان حدود سے پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاک افغان سرحد کے مسائل پر بات چیت جاری ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے میڈیا بریفنگ کے دوران تسلیم کیا تھا کہ پاک افغان سرحد پر کئی مسائل ہیں۔

ان کا کہنا تھ اکہ دونوں ممالک کی جانب سے بارڈر فلیگ اجلاس روزانہ کی بنیاد پر منعقد کیے جارہے ہیں اور کھارلاچی سرحد کراسنگ پوانٹ سمیت کئی اہم امور پر بات چیت بھی جاری ہے

وفاقی وزرا و دیگر رہنماؤں کی جانب سے شدید مذمت

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پاک-افغان سرحدی شہر چمن میں سرحد پار سے فائرنگ اور راکٹ باری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی شہریوں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے بلوچستان حکومت کو متاثرہ شہریوں کی بھرپور معاونت و مدد کرنے کی درخواست کی۔

وزیر داخلہ نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پاک-افغان چمن سرحد پر پیش آنے والے افسوسناک واقعے سے متعلق تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک-افغان سرحد پر فائرنگ اور راکٹ باری کا واقعہ انتہائی تشویشناک ہے، پاکستانی شہریوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاع انتہائی تکلیف دہ اورافسوسناک ہے۔

وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے سماجی رابطے کے ویب سائٹ پر جاری بیان میں افغان فورسز کی پاکستانی سول آبادی پر بلا اشتعال شیلنگ کو شرمناک اقدام قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معصوم پاکستانیوں کی شہادت خونِ ناحق ہے، پاکستانی فورسز نےجوابی کاروائی میں افغان سول آبادی کونشانہ نہ بناکر مستحسن اقدام کیا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ افغانستان کی حکومت حملے کی وجوہات سامنے لائے اور سانحے کے ذمہ داران کوکیفر کردار تک پہنچائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے افغان بارڈر سے پاکستانی شہریوں پر فائرنگ کی سخت مذمت کی گئی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا گیا کہ آصف علی زرداری نے پاکستانی شہریوں کی شہادت پر اظہار افسوس کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک افواج کی خطے میں امن پالیسی کو کمزوری تصور نہ کیا جائے۔

دوسری جانب، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی ماہ سے تحریک انصاف توجہ دلا رہی ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات تباہ ہو رہے ہیں، بارڈر پر فائرنگ کا واقعہ تعلقات کی انتہائ تنزلی کا ثبوت ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ چند ماہ میں دہشت گردی کے واقعات میں 52 فیصد اضافہ ہوا، خارجہ پالیسی تباہ و برباد ہے، ذمہ دار کون ہے؟

ملتان ٹیسٹ: تیسرے دن کا کھیل ختم، پاکستان کو جیت کیلئے مزید 157 رنز درکار، 6 وکٹیں باقی

ریکوڈک سے متعلق 2 منصوبوں کی منظوری، جلد آغاز کا امکان

متنازع ٹوئٹس کیس: اعظم سواتی 3 روز ریمانڈ پر قمبر پولیس حوالے