پاکستان

فوج میں فرد نہیں، ادارے کی پالیسی ہوتی ہے، مداخلت بھی پالیسی کے تحت ہوتی رہی، وزیر داخلہ

فوج میں قمر جاوید باجوہ یا عاصم منیر کی نہیں بلکہ ادارے کی پالیسی چلتی ہے، غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ بھی ادارے کا ہے، رانا ثنا اللہ

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ فوج منظم ادارہ ہے، یہاں جنرل قمر جاوید باجوہ یا جنرل عاصم منیر کی نہیں بلکہ ادارے کی پالیسی پالیسی چلتی ہے، گزشتہ برسوں میں جو مداخلت ہوئی وہ بھی ادارے کی پالیسی کے تحت ہوتی رہی اور اب غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ بھی ادارے نے ہی کیا ہے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راناثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان توشہ خانہ، فرح گوگی اور زلفی بخاری اور بشریٰ بی بی کے درمیان ہونے والی گفتگو پر بات کیوں بات نہیں کررہے؟ وہ جب ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات بنا رہے تھے تو خود کرپشن کیسز میں ملوث تھے، انہوں نے ملک کو معاشی طور پر تباہ کردیا یہاں تک کہ ملک ڈیفالٹ میں جانے کا خطرہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اقتدار ان کے پاس ہو تو سب ٹھیک ہے اور اگر اقتدار نہیں ہے تو ہر چیز غلط ہے، پوری دنیا سے مسلم لیگ (ن) کے خلاف مقدمات جھوٹے ثابت ہورہے ہیں، ہمارے خلاف انتقامی کارروائی کی گئی، جھوٹے مقدمات بنائے گئے، اگر یہ کیسز ختم ہورہے ہیں تو یہ سب انصاف کے مطابق ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا عمران خان خود کہتے تھے کہ برطانیہ کی ایجنسیز کا بہت میرٹ ہے اور آج وہیں سے شہباز شریف اور شریف فیملی کے خلاف مقدمات ختم ہورہے ہیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پوری دنیا سے ہماری لیڈر شپ کیخلاف کیسز ختم ہورہے ہیں، ڈیلی میل نے باقاعدہ اپنی غلطی تسلیم کی، ڈیلی میل نے شہزاد اکبر کے کہنے پر جھوٹی خبر شائع کی، ان کے نمائندے کو پاکستان بلایا گیا، ڈیلی میل پانچ بار ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔

’جب ضرورت پڑی تو نواز شریف وطن واپس آ جائیں گے‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ نوازشریف سے درخواست کی ہے کہ انتخابی مہم میں موجود ہوں، پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ اور پارٹی کے منشور کا اعلان کریں، نواز شریف نے اس درخواست کو قبول کرلیا ہے، اس لیے جب بھی ضرورت ہوگی اور جب اسملیاں توڑیں گے تو نواز شریف پاکستان آئیں گے، بھرپور الیکشن لڑیں گے، پنجاب میں اس مرتبہ اکثریت حاصل کریں گے اور حکومت بنائیں گے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ابھی تک اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ ہی نہیں کیا، عمران خان نے تماشا لگایا ہوا ہے، مختلف تاریخوں پر اسمبلی توڑنے کی بات کرتے ہیں، نیازی یہ ڈراما چھوڑو اور اسمبلی توڑو، عمران خان اسمبلی تحلیل کریں ہم الیکشن کی طرف جاتے ہیں۔

’ادارے کی پالیسی ہوتی ہے، مداخلت بھی پالیسی کے تحت ہوتی رہی‘

رانا ثنا اللہ نے کہا فوج منظم ادارہ ہے اور یہاں جنرل قمر جاوید باجوہ یا عاصم منیر کی پالیسی نہیں چلتی بلکہ پالیسی ادارے کی ہوتی ہے، وہ بھلے درست یا نہ ہو پالیسی ادارے کی ہوتی ہے، اس لیے جب غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ ہوا تو یہ بھی ادارے کا فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی چیف یا فرد واحد کا فیصلہ نہیں لہٰذا اعتماد ہے کہ اس لیول کی ذمہ داری کو ادارہ نبھائے گا، گزشتہ برسوں میں جو مداخلت ہوتی رہی ہے وہ بھی ادارے کی پالیسی کے تحت ہوتی رہی ہے۔

رانا ثنا اللہ نے کہا شہباز گل کے خلاف کوئی سیاسی کیسز نہیں، ان کی فوج میں نفرت پھیلانے کی بات کی سب نے مذمت کی، حتیٰ کہ جس جج نے شہباز گل کی ضمانت منظور کی اس نے بھی ان کی بات کی مذمت کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف آپ فوج کو بدنام کررہے ہیں کہ آپ عدلیہ سے زبردستی فیصلے کرارہے ہیں اور دوسری طرف عدلیہ کا مذاق اڑارہے ہیں، اعظم سواتی نے دو اداروں کو بدنام کیا، ہم نے سیاسی طور پر مقدمات درج کرانے ہوتے تو پھر آج شہریار آفریدی، فواد چوہدری اور شہباز گل پر یہ مقدمہ نہ بنتا، ان کی ضمانتیں نہ ہوتیں، ان کے خلاف 15،15 کلو کی ہیروئن کے مقدمات درج ہوتے۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہمارے لوگ جھوٹے مقدمات میں کئی سال جیلوں میں رہے ہیں، ہمارے مقدمات جھوٹے ہیں تو یہ ختم ہونے چاہئیں۔

’عارف علوی حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کروانے کی کوشش کر رہے ہیں‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران مجھےکبھی مذاکرات کی دعوت نہیں دے گا اور نہ دعوت دی ہے، پی ڈی ایم غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہے، صدر عارف علوی کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل یہ کوشش پرویز خٹک، اسد عمر اور فواد چوہدری نے کی تھی لیکن ان کی بات عمران خان نے نہیں مانی، عارف علوی بھی عمران کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں یہ نہیں معلوم، وہ کوشش کررہے ہیں، اگر کوئی بات ہوتی ہے تو معیشت پر بات ہونی چاہیے۔

راناثنا اللہ نے کہا کہ عام انتخابات 2023 میں ہی ہوں گے، ہم پوری تیاری سے الیکشن لڑیں گے اور اس بار الیکشن میں ہمارے لیے 2018 جیسے حالات نہیں ہوں گے۔

بچوں کی اسمگلنگ کا معاملہ، وزارت داخلہ کو جے آئی ٹی بنانے کا حکم

قیدیوں کے تبادلے کے باوجود امریکا اور روس کے تعلقات میں سرد مہری برقرار

تربیت کی کمی فوجداری نظام انصاف کی ناقص کارکردگی کی وجہ قرار